|
|
انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ محبتیں خدا داد دی ہوتی ہیں
جیسے کہ ماں کی ممتا اور باپ کی پدرانہ شفقت کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح
سے انسان کے دل میں رکھا اس کے لیے کسی مذہب یا قومیت کی قید نہیں ہوتی ہے- |
|
ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس سے بہتر
حال میں زندگی گزارے اس کے لیے وہ ہر طرح کی محنت کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
اپنی اولاد کے مستقبل کا خواب تو ہر باپ ہی دیکھتا ہے مگر کچھ خوش نصیب باپ
ایسے ہوتے ہیں جو کہ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو خود سے بلند اور اعلیٰ
مقام پر دیکھ لیتے ہیں- |
|
ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس سے بہتر
حال میں زندگی گزارے اس کے لیے وہ ہر طرح کی محنت کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
اپنی اولاد کے مستقبل کا خواب تو ہر باپ ہی دیکھتا ہے مگر کچھ خوش نصیب باپ
ایسے ہوتے ہیں جو کہ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو خود سے بلند اور اعلیٰ
مقام پر دیکھ لیتے ہیں- |
|
|
|
ایسے ہی ایک کامیاب باپ منان چاچا بھی ہیں جن کا تعلق
خیبر پختونخواہ کے شہر چارسدہ سے ہے ان کی کہانی سوشل میڈیا پر ڈآکٹر آفتاب
مغل نے ان کی اجازت سے شئير کی۔ منان چاچا کی کہانی بہت سارے ان افراد کے
لیے ایک مثال ہے جو کہ اپنے بچوں کی بہتر زندگی کے لیے حق حلال کی کمائی کے
لیے سخت ترین محنت کرتے ہیں- |
|
منان چاچا کی زندگی کی محنت بھری داستان کا آغاز 1987 سے ہوا جب انہوں نے
پشاور کے پرل کانٹینٹل ہوٹل میں بطور ویٹر اپنی پہلی نوکری کا آغاز کیا۔
بڑے بڑے امیر لوگوں کے سامنے کھانا سرو کرتے ہوئے اور ان کے لیے کام کرتے
ہوئے منان چاچا نے بھی بڑے بڑے خواب دیکھنے شروع کر دیے- |
|
خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکے مگر اس کمی کا شکار انہوں نے اپنے بچوں کو
نہیں ہونے دیا۔ اپنی قلیل اور حق حلال کی کمائی سے انہوں نے اپنے بیٹوں کو
تعلیم دلوانا شروع کر دیا آٹھ سال تک ہوٹل میں کام کرنے کے بعد بہتر آمدنی
کے لیے بارہ سال تک انہوں نے امریکن ایمبسی میں بطور ویٹر کام کیا- |
|
وقت اپنی دھیمی رفتار سے چلتا رہا ان کے بیٹوں نے اپنے باپ کی محنت کا حق
ادا کرتے ہوئے ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں پورا ساتھ دیا اور دل لگا کر
پڑھتے رہے- یہاں تک کہ ایک بیٹا ایوب میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں
کامیاب ہو گیا اور میڈیکل کے دوسرے سال میں ہے جب کہ دوسرا بیٹا بھی کبیر
میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہا ہے- |
|
|
|
منان چاچا کے بیٹے ابھی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کے اخراجات
کی تکمیل کے لیے منان چاچا پشاور میں چرسی تکہ کی دکان پر اب بھی بطور ویٹر
کام کر رہے ہیں مگر اب ان کو یہ یقین ضرور ہے کہ کچھ ہی سالوں میں وہ دو
ڈاکٹر بیٹوں کے باپ بن جائيں گے- |
|
ان کا یہ ماننا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو حق حلال کی کمائي کھلائي
یہی وجہ ہے کہ ان کو اللہ نے اس محنت کا صلہ نیک اور فرمانبردار اولاد کی
صورت میں دیا ہے- |
|
منان چاچا کی زندگی ان تمام افراد کے لیے ایک مثال ہے جو کہ محنت پر یقین
رکھتے ہیں اور دنیا میں کچھ کر دکھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں- |
|