ہمارا پیارا وطن پاکستان جو 14 اگست 1947 ء کو
معرضِ وجود میں آیا ، اس کی بنیاد میں صدیوں کی جدوجہد ہے ، ہمارے بزرگوں
کی بیش بہا قربانیاں ہیں ،اس کی تشکیل میں علمائے کرام کی محنت و ریاضت ہے
۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسی روز وجود میں آگیا
تھا جب یہاں پہلا ہندو ،مسلمان ہوا تھا۔ یہ دو قومی نظریہ جس کا شعور سب سے
پہلے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تبلیغ دین کرکے بیدار
کیا ۔ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار ،انسانیت سے ہمدردی ، عدل ،مساوات ،بھائ
چارہ اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی سے لوگوں کے
دل جیت کر دین اسلام کا نور پھیلایا ۔ ہندو مت ،ذات پات ،چھوت چھات کی قید
سے لوگ آزاد ہوۓ اور دین اسلام کی آغوشِ رحمت میں پناہ لینے لگے ،لیکن ہندو
اکثریت انھیں اپنا دشمن گرداننے لگی ،اگرچہ یہاں مسلمان بادشاہوں نے صدیوں
حکمرانی کی تھی اور بلا تفریق مذہب و نسل ،ساری رعایا کا خیال رکھا تھا ،لیکن
جب انگریز حکمران بنے تو ہندوؤں نے ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مسلمان عوام پر
عرصہء حیات تنگ کردیا۔ ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پہ بند کردئیے گئے۔ کسی
جگہ ایک گاۓ ذبح ہوتی تو ہندو بلوائ پوری مسلمان بستی کو ذبح کر ڈالتے (آج
بھی ایسے مظالم مقبوضہ کشمیر میں عام ہیں ) ۔ جب شاعر ملت علامہ اقبال نے
الگ ریاست کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز
قیادت میں مسلمانانِ برصغیر نے ایک الگ ریاست کے قیام کی جدوجہد کا فیصلہ
کیا تو اس وقت اصغر سودائی کا یہ نعرہ زبان زدِ عام ہوتا گیا۔ پاکستان کا
مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ ! اس نظم میں تشکیل پاکستان اور تکمیل پاکستان
کے تمام لوازم موجود ہیں ۔ ہمارا کردار بطور ایک ذمہ دار شہری ،یہی ہونا
چاہئے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن اور اپنے شہیدوں کی قربانیوں کا
احساس کرتے ہوئے پاکستان کو ایسی اسلامی ،فلاحی ریاست بنائیں جس میں ہر
شعبہ زندگی میں اسلام نافذ ہو ۔ عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ قرآن و سنت کے
مطابق کیا جاۓ۔ معیشت سے سود کا خاتمہ کیا جائے ،زکوۃ ،عشر ،خمس ،صدقات کا
نظام ہو ،رعایا خوشحال ہو۔ نظام تعلیم اسلام کے مطابق ہو “مہد سے لحد تک “
علم سب کی پہنچ میں ہو۔غریب کا علاج معالجہ حکومت کی ذمہ داری ہو۔ ملکی
وسائل کو وزیروں اور مشیروں کی بجائے عوام کی حالت بدلنے پہ صرف کیا جائے۔
خارجہ پالیسی امت مسلمہ کے مفاد کی ضامن ہو کہ سب مسلمان ایک جسم کی مانند
ہوں۔ نظام سیاست و حکمرانی بھی اسلام کے مطابق ہو جس میں قوم کا حاکم ،قوم
کو جواب دہ ہوتا ہے ۔ عوام الناس کے لئے اپنی زندگیاں گزارنا آسان ہوں ،قانون
کی حکمرانی ،عدل اور سکون کا ماحول ہو ۔یہی اس وطن کے قیام کا مقصد تھا اور
یہی اس کی تشکیل کا لائحہ عمل ہے ۔ ہم سب کو مل کر اس میں اپنا کردار ادا
کرنے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان کی تشکیل اور تکمیل کی بنیاد اسی اساس یعنی کلمہء طیبہ پر ہے جس کے
نظام کی مثال ہمیں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی
اللہ عنہ کے دور میں دکھائ دیتی ہے جہاں ایک حکمران ،رات کو عوام کے درمیان
خبر گیری کے لئے گشت کرتا رہتا ہے کہ ایک بکری کا بچہ بھی بھوکا رہ گیا تو
اللہ تعالیٰ اس سے حساب لے گا ! ایک ایسی خوش حال ریاست جہاں لوگ اپنی
دکانیں کھلی چھوڑ کے مسجد نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں کہ بے فکری ہے کہ چور کا
ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ جہاں کوئ پڑوسی تو کیا دور کی ریاست بھی کسی مسلمان
خاتون پر ظلم کا نہیں سوچ سکتی کہ محمد بن قاسم کے وارثین موجود ہیں۔ جہاں
کوئ ہمسایہ دوسرے ہمساۓ کو کھانا کھلاۓ بغیر نہیں سو سکتا ۔جہاں کسی مقدمے
کا فیصلہ اسی وقت سنادیا جاتا ہے ،قاضی کی نظر میں امیر اور غریب دونوں
برابر ہیں ۔ایسے پاکستان کی تشکیل ہمارے بزرگوں کا خواب تھا جس کی تکمیل
میں ہم سب کو اپنا عملی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحفہء الٰہی
ہے اور رب العالمین نے ہمیں پاکستان کی صورت میں ہر نعمت عطا فرمائ ہے ،بات
صرف قدرتی و ملکی وسائل کے دیانت دارانہ استعمال کی ہے ۔یہ وطن ہماری پہچان
ہے۔ جن قوموں کے پاس اپنی دھرتی نہ ہو انھیں کوئ اپنا ماننے پہ تیار نہیں
ہوتا۔ لہذا ہر پاکستانی شہری کا ذمہ ہے کہ وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے
لئے محنت ،دیانت داری اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے کام کرے اور
خواہ وہ کسی عہدے پر ،کسی منصب پر ہو لیکن وطن کے مفادات پہ کوئ سمجھوتہ نہ
کرے۔ رنگ ،نسل،زبان،مسلک ،خطے کے امتیازات سے بالاتر ہوکر ایمان اور اخوت
کی بنیاد پہ اتحاد اور یکجہتی قائم کرکے ملت کو مضبوط کرے اور جب ملک کے
لئے نمائندے اور حکمران منتخب کرنے کا وقت آۓ تو ایسے افراد کو ووٹ دے جو
پاکستان کی حکومت سنبھالنے کے قابل ہوں ،جن کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک
ہو ،جن کے کردار کی پاکیزگی روز روشن کی طرح عیاں ہو !
میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کردوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کردوں
میرے وطن میرے بس میں ہوتو تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں ،بہار تجھ پہ نثار کردوں ! |