جب بھی سال میں اگست کا مہینہ آتا ہے تو میری
طرح اور بہت سے فہم و شعور کی صلاحیت رکھنے والے افراد کے ذہن میں کم سے کم
ایک بار تو یہ سوال ضرور اپنا جواب مانگتا ہوگا کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا جو
جناح نے اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمیں آزاد کروا کر دیا تھا ہم اسی میں رہ
رہے ہیں؟ کیا جو ذہنی آزادی ہمیں لیاقت علی خاں، علامہ اقبال اور دیگر
راہنماؤں نے دلائی تھی وہ آج بھی موجود ہے؟ کیا آج بھی پاکستان "اسلامی
جمہوریہ پاکستان"ہی ہے؟ لیکن پتا نہیں کیوں جب بھی یہ سوال میرے ذہن میں
اٹھتا ہے مجھے ایک لامحدود مایوسی کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے ایسی مایوسی
کہ جس میں، میں ذہنی، دلی اور روحانی طور پر اپنے اسلاف کے سامنے ہمیشہ
شرمندہ ہوکر رہ جاتا ہوں، لیکن اس سوال کا جواب نہیں دے پاتا!
جی ہاں، کہنے کو تو ہم پچھلے کافی سالوں سے آزاد ہیں لیکن یہ آزادی ہمیں
صرف 14 اگست کو ہی نظر آتی ہے یا یوں کہوں کہ دنیا کو دکھانے کےلئے ہمیں 14
اگست کو آزادی کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے کہ جی پاکستان بھی ایک آزاد مملکت
ہے، لیکن جب اس آزاد لفظ کی تہہ میں جائیں تو ہمیں وہ خوفناک حقائق کا
سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کیوں نہ یہ دکھاوا ہی کرتے رہیں اور
حقیقت سے آنکھ نہ ہی ملائیں تو بہتر ہے کیوں کہ ہم میں اتنی ہمت ہی نہیں!
جس ملک میں پانی کی ٹینکی کے ساتھ زنجیر سے لٹکتا ہوا گلاس چیخ چیخ کر کہہ
رہا ہو کہ ہم آزاد ہیں! جس ملک کے نوجوانوں کے موٹر سائیکل آزادی کے دن
سڑکوں پر گلہ پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہوں کہ ہم آزاد ہیں، جس ملک کے غرباء کو
انصاف کے تقاضے پورے کرنے کےلئے ساری زندگی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑیں اور
ان سے پوچھنے پر وہ کہیں کہ جی ہم بھی آزاد ہیں، جس ملک میں کہنے کو تو
جمہوری نظام ہو لیکن وہی جمہوری نظام جب عوام الناس کے بنیادی حقوق دینے سے
قاصر نظر آئے تب کہیں خیال آتا ہے جی ہم آزاد ہیں؟ کیا یہی آزادی ہمیں
ہمارے شہداء نے دلوائی تھی، کیا ہم صحیح معنوں میں اپنے شہداء کو خراجِ
تحسین پیش کر رہے ہیں کیا ہم ان کی شہادتوں کا حق ادا کر رہے ہیں؟ یہ وہ
حقائق ہیں جو دل کو چیرنے والے اور تلخ ضرور ہیں لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی ہم
ان حقائق کو چھپا نہیں سکتے.
ہم سب آزاد ہیں لیکن ہم آج بھی ذہنی طور پر غلامی کی ہی زندگی گزار رہے
ہیں، اگر یہی پاکستان جو آج ہمارے پاس ہے ، جس کی آزادی کے لئے ہمارے اسلاف
نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں، اپنا گھر بار سب کچھ لٹا دیا، جس
کےلئے لوگوں نے اپنے بہن بھائیوں، بزرگوں بچوں کو پیچھے چھوڑ کر حریت یا
شہادت کا نعرہ بلند کیا، اگر یہی جناح کا پاکستان ہے تو پھر میں اپنے اسلاف
سے معذرت کے ساتھ یہی کہوں گا کہ پھر تو ہم غلام ہی اچھے تھے لیکن ابھی بھی
میرا دل اور ذہن یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ جہاں ہم رہ رہے اسی ریاست
کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور اسی خواب کی تعبیر قائد اعظم محمد
علی جناح اور دیگر راہنماؤں نے کی تھی اور اسی کےلئے ہمارے بزرگوں نے بے
انتہا قربانیاں دیں اور مظالم سہے!
لیکن ابھی بھی مجھے میرے سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ "کیا ہم آزاد ہیں۔۔۔۔؟" |