ڈھولک آہستہ بجائیں قسمت پھوٹ رہی ہے

‎کسی بھی لڑکی کی ذلت تبھی نہیں ہوتی جب وہ دلہن بنی بیٹھی ہو اور اس کا دولہا بارات لے کر نہ پہنچے عین وقت پر غائب ہو جائے ۔ یا بارات لے کر تو آ جائے مگر کسی معاملے پر اختلاف یا رنجش کی بناء پر دلہن کو رخصت کرائے بغیر ہی لوٹ جائے ۔ ایک لڑکی کی بہت بڑی توہین تب بھی ہوتی ہے جب دھوم دھام سے اس کی بارات بھی آئے رخصتی بھی ہو جائے اور شادی کے چند ہی روز بعد دولہا اسے چھوڑ کر چلتا بنے کسی نئے جہان کی تلاش میں نکل جائے نئی نویلی دلہن کو ایک دوراہے پر چھوڑ کر کہ وہ چاہے تو اس کا انتظار کر لے یا پھر وہ بھی اپنی راہ الگ کر کے کسی نئے ہمسفر کو چن لے ۔ ابھی تو ہاتھوں کی مہندی کا رنگ اور اس کی مہک بھی معدوم نہیں ہوئی ہوتی کہ کوئی زندگی میں آ کے نکل بھی جاتا ہے اور بھول بھی جاتا ہے کہ کوئی لڑکی سب اپنوں کو چھوڑ کر اس کے لیے آئی تھی ۔ اب سب تو ہوتے ہیں ایک وہی نہیں ہوتا نہ خود آتا ہے نہ پاس بلاتا ہے ۔ زندگی کے سارے سنہرے سال نصیب کی کالک میں گم ہو جاتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا انہی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہیں بنا تحقیق کسی پردیسی پنچھی کے پلے سے باندھ دیا جاتا ہے ۔

‎دو طرح کے کیس ہوتے ہیں زیریں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے پردیسی ان میں شامل نہیں ہوتے وہ نیم خواندہ محنت کش اور ہنر مند ہوتے ہیں اور عموماً سعودیہ اور عرب امارات میں معاش کی جد و جہد میں مصروف ہوتے ہیں ۔ ان بیچاروں کی پوسٹ اور تنخواہ ایسی ہوتی ہی نہیں کہ جہاں بیوی کو پاس بلانے اور ساتھ رکھنے کا سوال اٹھے ۔ کسی طرح شادی ہو گئی وہی غنیمت ہے اب جو دونوں ہی کو حالات کے قہر و جبر کا سامنا ہے تو یہ اپنی قسمت ہے ۔ بات ہے متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے اور کسی بھی شعبے میں سند یافتہ افراد کی ۔ جب کسی طرح ان کی بھی شادی کی باری آ ہی جاتی ہے تو دو طرح سے معاملات طے ہوتے ہیں ۔ ایک مقام وہ ہوتا ہے جہاں لڑکی والوں پر واضح کر دیا جاتا ہے کہ اسے شوہر کے بغیر سسرال میں رہنا ہو گا وہ ایک یا دو سال بعد سالانہ چھٹی پر چکر لگا لیا کرے گا ۔ یہ اور بات کہ یہ ایک دو سال کبھی کبھی سالہا سال بن جاتے ہیں وجہ وہی پردیسی بکرے کی ذمہ داریاں اور قربانیاں ۔ دوسرا مقام یہ ہوتا ہے کہ رشتہ طے ہی اس وعدے کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ لڑکا بہت جلد بیوی کو اپنے پاس بلا لے گا اور اسی بلاوے کے جھانسے پر اکثر ہی جھٹ پٹ نکاح بھی کر دیا جاتا ہے تاکہ ویزے وغیرہ کی کارروائی بلا تاخیر شروع کی جا سکے ۔ اب بات ان واقعات کی ہو رہی ہے جن میں لڑکے نے بیوی کو بالکل بھی نہیں بلایا اور کہیں سالوں سال وہ خود بھی نہیں آیا ۔ سب وعدے دعوے دھرے رہ گئے اور ظاہر ہے کہ ان حالات میں فریقین کے مابین بہت رنجشیں اور کشیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں ۔ کبھی نوبت طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہو کے بھی رہتی ہے ۔ مگر اس سے بھی زیادہ دلدوز اور اندوہناک صورتحال یہ ہوتی ہے کہ شادی کے بعد لڑکا اپنی دلہن کے ساتھ بمشکل ایک یا دو ہفتے رہا پھر کئی کئی سال تک پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کوئی شخص مشرق بعید کے کسی ملک میں دس سال گزارنے کے بعد پاکستان آیا کینیڈا کا ویزا ساتھ لے کر ۔ گھر والوں نے فٹا فٹ رشتہ طے کیا لڑکی والوں کو ان کی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سبز نیلے پیلے باغ دکھا کر نکاح کے ساتھ رخصتی بھی لے لی ۔ وہ شخص دو ہفتے بعد چلا گیا پھر چودہ سال تک تو وہ واپس نہیں آیا تھا نا ہی بیوی کو بلوایا تھا ۔ دوسرے بالکل ایسے ہی کیس میں ایک شخص نے بیوی کو بارہ سال بعد پاس بلایا شادی کے وقت دونوں ہی کی عمریں ذرا زیادہ تھیں ۔ چند روزہ رفاقت کے بعد ایکدوسرے سے بچھڑ گئے جب دوبارہ ملے تو دونوں کے سر میں چاندی اتر چکی تھی ایک دو دانت بھی گر گئے تھے ۔

‎ایک شخص شادی کے چند روز واپس کسی یورپی ملک کو چلا گیا اور بیوی کو بلانے کی بجائے خود ہی وہاں دوسری شادی کر لی اور یہ لڑکی پچھلے بارہ سال سے اپنے والدین کے گھر پر ہے طلاق بھی نہیں لے رہی کہ مجھے کون سا دوسری شادی کرنی ہے ۔ یہاں ایک نوجوان پاکستان میں شادی کر کے دو ہفتے بعد واپس آیا اور گھر والوں نے غلط فہمیاں پیدا کر کے صرف پانچ مہینے بعد طلاق کرا دی ۔ یہیں ایک شادی شدہ شخص کو اس کی بہن نے بلایا وہ پانچ سال بعد تین ہفتوں کے لیے پاکستان گیا اور واپس آنے کے بعد مزید پانچ سال بیت چکے ہیں بیوی کو پاس بلانے یا دوبارہ وہاں جانے کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ بےاولاد بھی ہے ۔ ایسے ہی ان سے ملتے جلتے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں سارا نقصان صرف لڑکیوں کا ہؤا جس میں قسمت کے ساتھ ساتھ گھر والوں کا بھی برابر کا ہاتھ نظر آتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ وہ کوئی گری پڑی گئی گزری لڑکیاں تھیں سبھی پڑھی لکھی اور خوبصورت تھیں سیرت و سلیقے میں یکتا تھیں مگر اکثر ہی سسرالی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ وہ اپنے شوہروں کے دل قابو کرنے میں ناکام رہیں نا صورت کا جادو کام آیا نا سیرت کا ۔ وہ جب چند روزہ رفاقت کے بعد واپس لوٹ گئے تو ان کے دلوں میں نا تو نئی نویلی دلہن کی کشش تھی نا پروا ۔ انہوں نے صرف قربانیاں لیں اور دکھ دیئے انہیں ان کے ایک بنیادی حق سے محروم کر کے اپنے پورے خاندان کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ۔ آج بھی سفید پوش یا قدرے خوشحال گھرانے کی لڑکی کے لیے کسی باہر والے کا رشتہ اس خوشخبری کے ساتھ آتا ہے کہ وہ ساتھ لے جائے گا یا جلد پاس بلا لے گا تو سب کو اس کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے ۔ سکھی سہیلیوں کی ڈھولک پر تھاپ کچھ زیادہ ہی بلند ہو جاتی ہے کہ ان کی ایک ہمجولی اپنے پیا سنگ بہت دور دیس جا بسنے والی ہے ۔ جبکہ نوے فیصد کیسوں میں لڑکی نکاح نامے پر نہیں بلکہ اپنی بربادی کے پروانے پر دستخط کر رہی ہوتی ہے ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1681592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.