بارش‘ جو کہ ہر جاندار کے لیے نہایت ضروری ہے، جس سے زمین
پر ہریالی اگتی ہے، جس سے انسان و حیوانات کی پیاس بجھتی ہے اور جو اس زمین
پر حیات کو باقی رکھنے کے لیے جزوِ لا ینفک کی حیثیت رکھتی ہے، کبھی کبھی
یہی بارش بہت سی زندگیوں کو مفلوج و تباہ بھی کر دیتی ہے۔ اس کا سبب جو بھی
ہو، اس وقت ہمیں اس پرکلام سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی آزمائش مختلف طریق سے ہوا کرتی ہے، نیز اس وقت سیلاب سے جو
حالات ملک کے بعض حصوں خاص کر مہاراشٹر میں بنے ہوئے ہیں، اس سے متاثرہونے
والوں کی ہر ممکن مدد کرنا ہم سب کی ذمّے داری ہے۔
حال ہی میں آئے تباہ کن سیلاب سے مہاراشٹر کے متعدد اضلاع متاثر ہیں اور
اس سیلاب سےجونقصانات ہوئےہیں اس کاصحیح اندازہ ابھی لگاپانامشکل معلوم
ہوتا ہے۔ اس موقع پر وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آفت سے محض اپنے فضل
و کرم سے محفوظ رکھا ، ان پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ان مصیبت زدہ
بندوں اور حالات کے ماروں کے غم میں شریک ہوں اور ان کی ہر ممکن مدد و
تعاون کریں، نیز ان کے حق میں بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ
انھیں اس کا نعم البدل عنایت فرمائےاور صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین
حکومتی سطح پر اس جانب بعض اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ جن کی
دنیا اجڑ گئی ان کے لیے یہ چند چیزیں کچھ اہمیت نہیں رکھتیں، ایسے میں
ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ذاتی طور پر بھی خدمات فراہم کرنے کے لیے خود کو پیش
کریں۔ وقت کی مانگ ہے کہ ہم مذہبی رواداری اور انسان دوستی کا ثبوت دیں اور
اپنے بھائیوں کی مصیبت میں ان کا دست و بازو بن کر کھڑے ہوں اور اس بات کا
خصوصی خیال رکھیں کہ اس خیر کے کام کے لیے جنھیں وکیل بنائیں، وہ خوفِ خدا
کے حامل اور قابلِ اعتماد افراد ہوں، اس لیے کہ ایسے تباہی کے موقعوں پر
بھی بعض بے ضمیر لوگ اپنی جیب گرم کرنے اور گاڑی بنگلے بنانے کی فکر میں
لگے رہتے ہیں!اس موقع پر ہم سیرتِ محمدیﷺ کے ایسے چند گوشوں کا ذکر کرنا
مفید سمجھتے ہیں، جن سے لوگوں میں مصیبت زدوں اور حالات کے ماروں کے تئیں
ہمدردری اور تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ان شاء اللہ
اگر آپ بہ غور سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ سیرتِ رسولﷺ
کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے بہ حیثیت پیغمبر اپنے پیروکاروں کو جو
نصیحتیں فرمائیں ان سب پر اولاً خود عمل کر کے دکھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک
ملاقات میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کے اس سوال پر کہ بہ قول آپ کے ہندو
مذہب اتنا قدیم و پرانا ہے اور ہمارا مذہبِ اسلام جسے تقریباً چودہ سو سال
قبل رو نما ہوا، دنیا میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر رائج کیوں ہے؟ربندر
ناتھ ٹیگور نے کہا تھا ’مولانا آپ کو ہیرو ملے ہیں، جنھوں نے جو کہا پہلے
اس پر خود عمل کرکے دکھایا، ہمیں ایسے ہیرو نہیں ملے۔ ہمارے یہاں تھیوری تو
ہے، اس پر عمل کی مثال مفقود ہے‘۔واقعی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار
نہیں کیا جا سکتا، لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم اس پر فخر تو کرتے ہیں
مگر خود اس کی ادنیٰ مثال پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔جب ضرورت پڑتی تو رحمۃ
للعالمین حضرت محمدﷺ لوگوں کے بہت سارے کام کردیا کرتے تھے، بازاروں سے ان
کا سودا لا دیتے، غریبوں کی امداد کرتے،ضرورت مندوں کو قرض دیتے یا اپنی
سفارش پر کسی سے دلوا دیتے، بسا اوقات ان کے قرض خود ادا کردیتے، بھوکوں کو
کھانا کھلاتے، یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے، بیواؤں کی کفالت کرتے،
غلاموں کی آزادی کی تدبیریں کرتےاور کمزور طبقوں کو اونچا اٹھانے کی ہر
ممکن کوشش کرتے تھے۔مختصر يہ کہ آپﷺہر وہ کام کرتے تھے جس کی صالح معاشرے
کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو
ہماری زندگیاں ان بلند و بالا اخلاق سے یک سر خالی ہیں۔
رحمۃ للعالمینﷺ نے اپنے امتیوں کو جن اعلیٰ تعلیمات سے نوازا من جملہ ان کے
ایثار و ہمدردی بھی ہے، آپﷺ نے اس کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ اپنی ذاتِ
مبارک میں اس کا بہترین نمونہ بھی پیش کیا۔ جگر گوشۂ رسول سیدہ فاطمہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا سے آپﷺ کو جو محبت تھی جگ ظاہر ہے مگر انھوں نےنہایت
عسرت و تنگ دستی میں جب کہ چکی پیستے پیستے ہتھیلیوں پر نشان اور مشک میں
پانی بھر بھر کر لانے سے سینے پر نیل پڑگئے تھے، حاضرِ خدمت ہو کر ایک
خادمہ کی خواہش ظاہر کی تو ارشادِ رحمتﷺ ہوا‘ اے فاطمہ! اب تک صفہ کے
غریبوں کا انتظام نہیں ہوا ہے، میں تمھاری خواہش کیسے پوری کروں؟ ایک روایت
میں ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ یتیمانِ بدر تم سے زیادہ مستحق ہیں۔
ان سچے واقعات کو پڑھیں اور غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس قدر نعمتوں
سے نوازا ہے، کیا ایسے میں ہماری یہ ذمّے داری نہیں بنتی کہ ہم اپنے
بھائیوں کے کام آئیں۔ گھر کے پُرانے برتن اور اُترن نکال کر دے دینا زیاہ
مشکل نہیں، اسی بہانے گھر کی صفائی بھی ہو جایا کرتی ہے، لیکن کیا صرف اتنا
ہی کرلینے سے کسی ایک گھرانے کی زندگی بھی بدل سکتی ہے؟جس خدا نے ہمیں اتنا
سب دیا ہے کیا ہم اس کے بندوں کے لیے کچھ ایثار نہیں کر سکتے؟آج لوگ
معاشرے میں ناک اونچی کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، کیا خدا کے قرب کے
لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا؟
ایک المیہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نیک و بہتر انسان اسے سمجھتے
ہیںجو زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرتا ہو، بلاشہ یہ ایک مستحسن عمل
ہےلیکن صرف یہی تو دین نہیں!اسلام تو ہمیں اس شاہ راہ پر چلنے کی دعوت دیتا
ہے جس پر بہ نفسِ نفیس محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین ﷺ گامزن تھے، دیکھیے
اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح انداز میں نیکی کی تعریف بیان فرمائی:نیکی صرف
یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو
یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی
نازل کردہ) کتاب پر اور نبیوںپر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں(اپنا) مال
قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں(یعنی ضرورت مندوں)
اور غلاموں کی آزادی میں خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں،
زکاۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں، سختی، مصیبت
اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی
ہیں۔(البقرہ)اس ارشادِ ربانی ہے نے اصل نیکی کے مفہوم کو پورے طور پر اضح
کر دیا، جس میں حتی المقدور بلا تفریق ہر ایک ضرورت مند کی حاجت براری کرنا
بھی داخل ہے،نیز اس آیتِ مبارکہ میں محض عبادات کو نیکی تصور کرنے کی بھی
تردید کر دی گئی اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھ لینے کی بھی۔ممکن ہے کسی
کو اس موقع پر یہ اشکال ہو کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر ہے ان سے مُراد صرف
مسلمان ہیںتو واضح رہے کہ اسلام انسانیت کے ناطے تمام بندوں کے ساتھ حسنِ
سلوک کا حکم دیتا ہے بجز چند معاملات کے، جیسے اسلام میں زکاۃ کے ادا کرنے
کے لیے تو یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ جسے زکوٰۃ دی جائےوہ مسلمان ہو لیکن
نفلی صدقات کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی، اس لیے نفلی طور پر
اس مَصرف میں خرچ کرنا بھی کارِ ثواب ہوگا۔
اسلام کا یہ عام فلسفہ ہے کہ زکاۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقے غیر مسلموں کو
دیے جا سکتے ہیں، آں حضرتﷺ نے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا، ام المؤمنین
حضرت صفیہؓ نے اپنے دو یہودی رشتے داروں کو تیس ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا،
امام مجاہدؒ نے مشرک رشتے دار کا قرض معاف کرنے کو بھی ثواب کا کام بتایا
ہے ، ابن جریح محدثؒ کہتے ہیں کہ قرآن نےسورہ دہر میں ’اسیر‘ کے کھلانے کو
ثواب بتایا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے قبضے میں مشرک ہی قید ہوکر
آتے تھے۔ خود آں حضرت ﷺ نے بعض صحابہؓ کو اُن کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ
رحمی کی اجازت دی ۔ تفسیر کی روایتوں میں ہے کہ جب صحابہ کرامؓ مذہبی
اختلاف کی بنا پر غریب مشرکوں کی مدد سے کنارہ کرنے لگے تو یہ آیت اُتری
کہ ان کو راہ پر لے آنا تمھارے اختیار کی بات نہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا
ہے راہ پر لے آتا ہے اور جو بھلائی(مال) تم خرچ کرو وہ تمھارے لیے ہی
ہے۔(البقرہ)یعنی تم کو تمھاری نیکی کا ثواب بہ ہر حال ملے گا۔ مصیبت و آفت
کے وقت بلا تفریقِ مذہب ہر انسان کی مدد کرنا اور ہمدردری و تعاون کا
معاملہ کرنا مسلمانوں کا امتیازی وصف ہے، جس کی متعدد مثالیں رحمۃ
للعالمینﷺ کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہیں یہاں ایک کے ذکر پر اکتفا کیا
جاتا ہے، وہ یہ کہ ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط کا شکار ہوئے تو حضرت نبی
کریمﷺ نے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو درہم روانہ
کیے تاکہ وہ مکہ مکرمہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیں۔ (سیرۃ
النبی)
جو لوگ سیرتِ نبویﷺ کی ادنیٰ معلومات بھی رکھتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ اہلِ
مکہ نے آپﷺ پر کس قدر ظلم ڈھائے تھےلیکن یہ رحمۃ للعالمینﷺ کی رحمت تھی کہ
مصیبت کے وقت میں خود آگے بڑھ کر ان کی امداد کی۔ ہمدردی و رواداری کی اس
سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اہلِ اسلام پر مظالم کے مختلف النوع
پہاڑ توڑنے والوں کی یوں مدد کی جائے، اس لیے ہمیں بھی رحمۃ للعالمینﷺ کے
اس مبارک عمل کی اتباع کرنی چاہیےاور سیلاب متاثرین کی بڑھ چڑھ کر
امدادکرنی چاہیے۔ اس کے بعد بھی مذہبی و اعتقادی یا کسی اور اختلاف کے باعث
آپ کے دل پر کوئی کدورت چھائی ہوئی ہو تو دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیں؎
ؕوہ ظرف تمھارا تھا، یہ ظرف ہمارا ہے |