نور مقدم اور نظام انصاف

 اولاد کے فعل سے والدین بری الذمہ ہر گز نہیں ان سے بھی ضرور باز پرس ہو جو اپنی اولاد پر نظر نہیں رکھتے اور انہیں ہر جائز ناجائز سرگرمی کی اجازت دیتے ہیں عمومہ تاٗثر مگر یہی کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوایقین کیجیے ہم یرغمال ہیں یرغمال ،کہیں شدت پسندوں کے ہاتھوں تو کہیں لبرلز اور مو م بتی مافیا کے ہاتھوں،جب کہیں ظلم ہوتا ہے بڑے شہر کے مال روڈز پر ڈیکوریٹڈ آنٹیاں ہاے واے کرتی وائی تبائی بکتی مذہب اور اسلام کو گالی دینا شروع کر دیتی ہیں.انصاف دو انصاف دو کے نعرے اور چیخ و پکار جب دوسری طرف سے بھی کوئی مطالبہ کر دے کہ جی ہم آپ کے ساتھ قاتل اور ریپسٹ کو سرے عام لٹکایا جاے تو اس جینز مافیاکی رگ انسانیت پھڑک اٹھتی ہے ہاے ہائے یہ تو ظلم ہے، یہ ظلم نہیں منافقت ہے پرلے درجے کی منافقت کہ مطالبہ بھی کیا جاے اور کرنے بھی کچھ نہ دیا جاے مگر حاکم کدھرہیں جو ریاست مدینہ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے دو قانون کب تک یہاں لاگو رہیں گے بس کریں خدا کا واسطہ ،معصوم بچوں اور بچیوں کی فریاد ہی سن لیں کوئی نور ہو اجالا ہو زینب ہو ساہیوال کے مقتول یا ماڈل ٹاؤن کے مظلوم.شاہ زیب ہو سرفراز شاہ مشال خان زین ستی یا نقیب اﷲ دو سے چار دن رولا رپا اور بس، پھر کوئی ایم پی اے کسی سارجنٹ کو کچل دے یا کوئی امیر زادہ کسی پولیس والے پر گاڑی چڑھا دے یا موٹر ووے پر کسی خاتون کا ریپ ہو جاے قانون چونکہ اندھا لہذا اسے کچھ نظر نہیں آتا.خدا کی پناہ ایک سال میں ریپ اور جنسی تشدد کے ڈھائی ہزار واقعات ،یہ تو وہ جو رپورٹ ہوئے اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ مگر ڈھٹائی اور بے حیائی بلکہ بے غیرتی ملاحظہ ہو سب کچھ اسی طرح روٹین میں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں قیامت کا اندازہ صرف ان کو جن پر یہ قیامت گذرتی جن کے معصوم بچے بچیاں ظلم و درندگی کا شکار ہوتی ہیں اگرآپ طاقتورہیں مال پانی وافر موجود ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں آپ کو سات قتل بھی معاف؟کیا ایسی ہوتی ہے ریاست مدینہ.نہیں ہر گز نہیں وہاں تو معیار یہ تھا کہ دنیا کے سب سے عظیم منصف نے فرمایا تھا کہ اگرفاطمہ بنت محمد صل اﷲ و علیہ وسلم چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاے گا جی ہاں خلیفہ وقت کا بیٹا بھی مجرم ہو گا تو کوڑے لگاے جائیں گے اور کوڑے کھاتے کھاتے مر گیا توبھی تعداد پوری کی جاے کہ کہیں بعد میں آنیوالے یہ نہ کہیں بیٹے پر رحم آگیا تھا.ملک بنانے والوں نے کیا ایسے ملک کا خواب دیکھا تھاکیا وقت آن پڑا ہے کہ کوئی گھر میں بھی محفوظ نہیں یہ کیسا نظام اور کیسا ملک ہے کتنی دیر لگتی ہے ایک ایسا قانون بنانے اور اس پر عملدرآمد میں کیوں نہیں بنائی جاتیں مخصوص عدالتیں دہشت گردی کورٹس کی طرح یہاں بھی جنسی جرائم کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں جو دنوں میں فیصلہ کریں اور مجرموں کو نشان عبرت بنائیں کیوں انصاف کا اتنا کال پڑا ہوا ہے کہ کسی کو ذرا سابھی خوف یا خطرہ نہیں ایمانداری سے بتائیے نور مقدم کے قاتل کے ذہین کے کسی گوشے میں کہیں یہ خیال تھا کہ اگر میں نے ایک معصوم لڑکی کا سر تن سے جدا کیا تو بدلے میں میرا سر بھی الگ کر دیا جاے گا جو ظلم میں کر رہا ہوں مجھ سے اسی طرح اس کا بدلا لیا جاے گا یقینا آپ کا جواب نفی میں ہو گا اور یہی ظلم ہے کہ آج قاتل ڈاکو چور اور مجرم کو سزا کا یا ریاست کی عملداری کا ڈر خوف ہی ختم ہو گیا ہر مجرم کو پتہ ہے کہ بس پیچھے باپ ہے بھائی ہے پیسہ ہے تو موجاں ہی موجآں جو دل چاہے کرو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جیل بھی وی آئی پی ملے گی ایسی رہائش کہ کروڑوں پاکستانی جس کا تصور بھی نہ کر سکیں وی آئی پی پروٹوکول، تاریخ پیشی پہ آنا ہے تو سینکڑو ں پولیس اہلکار ساتھ اور آگے پیچھے ،لیکن اگر مجرم کو ء فقرا ہے تو پھرلانے لے جانے کا طریقہ الگ اگر کسی بڑی دکان مکان فیکٹری یا پلازے کا مالک تو پھر کون سا قانون اور کیسا قانون.ہمارا قانون اس معقولے کی صحیح تشریح ہے جس میں کہا گیا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور جالے کا ستیاناس کر کے نکل جاتا ہے ہر روز ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم مگر کہیں کسی طرف نہ پھانسی گھاٹ نہ کسی مجرم کو لٹکایا ہی جاتا ہے جب قتل کے بدلے قتل کو وحشیانہ عمل قرار دیا جاے گا تو یہی کچھ ہو گا جو اپنے ہاں جاری و ساری ہے سنا تھا کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مگر پتہ نہیں یہاں کیوں نہیں مٹ رہا اور مزید اور کتنا بڑھنا ہے کوئی نہیں جو اس کے آگے بند باندھے کوئی نہیں جو اس کو روکے یہاں الٹا الزام مظلوم کو دے دیا جاتا ہے موٹر ووے پہ خاتون گئی کیوں نور مقدم دوست کے گھرکیا لینے گئی تھی تو کیا زینب جیسی بچیاں اور زین ستی جیسے معصوم بچے پکے قید کر دئے جائیں کہ اگر ان کے ساتھ کچھ ہو گیا تو ریاست یہ جواب دے گی کہ مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر.حد ہے رہاست مدینہ کے دعویدارو خدارا کسی ایک کیس میں تو کسی کو عبرت کا نشان بنا دو چلو اپنے دور کے کیسوں کو نہیں چھیڑ سکتے ہو تو ماڈل ٹاون میں مارے گئے لوگوں اور ان کی انصاف کے لیے در بدر ٹھوکر کھاتی فیملیز کو ہی انصاف دے دو مگر شاید یہ آپ کی ترجیحات نہیں اب یا کبھی تھی ہی نہیں کیوں کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوایقین کیجیے ہم یرغمال ہیں یرغمال ،کہیں شدت پسندوں کے ہاتھوں تو کہیں لبرلز اور مو م بتی مافیا کے ہاتھوں،جب کہیں ظلم ہوتا ہے بڑے شہر کے مال روڈز پر ڈیکوریٹڈ آنٹیاں ہاے واے کرتی وائی تبائی بکتی مذہب اور اسلام کو گالی دینا شروع کر دیتی ہیں.انصاف دو انصاف دو کے نعرے اور چیخ و پکار جب دوسری طرف سے بھی کوئی مطالبہ کر دے کہ جی ہم آپ کے ساتھ قاتل اور ریپسٹ کو سرے عام لٹکایا جاے تو اس جینز مافیاکی رگ انسانیت پھڑک اٹھتی ہے ہاے ہائے یہ تو ظلم ہے، یہ ظلم نہیں منافقت ہے پرلے درجے کی منافقت کہ مطالبہ بھی کیا جاے اور کرنے بھی کچھ نہ دیا جاے مگر حاکم کدھرہیں جو ریاست مدینہ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے دو قانون کب تک یہاں لاگو رہیں گے بس کریں خدا کا واسطہ ،معصوم بچوں اور بچیوں کی فریاد ہی سن لیں کوئی نور ہو اجالا ہو زینب ہو ساہیوال کے مقتول یا ماڈل ٹاؤن کے مظلوم.شاہ زیب ہو سرفراز شاہ مشال خان زین ستی یا نقیب اﷲ دو سے چار دن رولا رپا اور بس،،،