نشانِ منزل کہاں ہے؟

ماضی قریب میں ہمہ مقتدرشخصیات کے چندہونہار،نونہال آج نہ صرف ارب پتی ہیں بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کا بھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں ۔کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پرفائز سرکاری افسر،سیاستدان اورٹیکنوکریٹ بیرونی ممالک میں دادِعیش دے رہے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بدعنوانی کے مقدمات زیرِالتواتھے جن کی این آر اوکے تحت گلوخلاصی ہوئی۔چند ایک مقدرکے سکندرایسے بھی ہیں جودوبارہ مملکتِ خدادادکی قسمت کے مالک بن گئے اور اپنے دورِ اقتدارمیں سب سے پہلاکام یہ کیاکہ سوئٹزرلینڈکی عدالتوں میں اپنے خلاف چلنے والے تمام مقدمات کوبندکرنے کے احکام کے ساتھ وہ فائلیں بمعہ ثبوت وشواہدجن پرمملکت نے کروڑوں روپے صرف کئے تھے ، کووصول کرکے ٹھکانے لگادیئے گئے اورآج تک کسی کوان مقدمات کے بارے میں نہ تو لب کشائی کی ہمت ہوئی اورنہ ہی میڈیایاعدالت میں اس کاکبھی ذکر ہوا ۔بعدازاں اس قوم کویہ نویدبھی سنائی گئی کہ جلدہی سوئٹزرلینڈکے بینکوں سے مملکت خداداسے لوٹی ہوئی دوسوارب ڈالرکی رقوم واپس لانے کامعاہدہ ہوگیاہے لیکن یہ بہروپئے اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستانی قوم کونسیان کامرض ہے،اس لئے”ڈھنگ ٹپاؤاورمٹی پاؤ”کافارمولہ پہلے بھی استعمال ہوتارہا،اب بھی ہورہاہے اورآئندہ بھی ہوتارہے گا۔

کچھ توایسے تھے جومملکتِ خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اورپالیسی سازبھی،جب تک ہواکارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفیدکے مالک بنے رہے۔ان کو اپنااوران مہربانوں کامفاد،جن کے وہ ممنونِ احسان تھے،اس قدرعزیزتھا کہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک بھلابیٹھے،ملک توکیا،آنے والی نسلوں تک کوگروی رکھتے گئے۔اشرافیہ کو عیش و عشرت کی لت ڈال گئے۔پنڈت جواہرلال نہرونے ہندوستان میں سادگی،کفائت شعاری اورخودکفالت کورواج دیا۔سنہرے مستقبل کیلئے وہ عارضی محرومیوں کوبرداشت کرتے رہے۔یہی روّیہ ہمارے عظیم دوست چین کے عظیم ترین انقلابی قائدماؤزے تنگ اورچواین لائی نے اپنایا۔وہ اوران کے ساتھی سختیاں جھیلتے رہے،جن اصولوں پر قائدین خودکاربندہوں،عوام کیلئے ان کودل وجان سے قبول کرنااوران پربخوشی عمل کرنانہائت آسان ہوجاتاہے۔انقلاب کے بعدپہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اورچین اب دنیاکادوسراعظیم ترین ملک بن گیاہے۔

پچھلے چندبرسوں میں ہمارے ہمسایہ ممالک باوجوداندرونی اوربیرونی مشکلات کے،اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہی وہ کہاں پہنچ گئے ہیں،پاکستان دولخت ہونے کے بعد بنگلہ دیش کودیکھ لیں کہ وہ اقتصادی ترقی میں کہاں کھڑاہے،اس کے پڑوس میں نیپال اورسری لنکامعاشی طورپرکہاں پہنچ گئے ہیں اورہم …….. ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔سات دہائیوں سے امریکاکی بارگاہ میں سربسجودہیں،جس کے منشی اور کارندے حکم چلاتے ہیں اورہم بلاچوں چراں حکم بجالاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اورخوب کھاتے ہیں مانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک سے لکیریں کھنچ کر،جوقرضہ ہم غیر ممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس میں سے یہ ”فرشتے”مشاورت اور خدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت ”میں سے کچھ سکے وہ”مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپارہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہارکے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔

حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیرکیلئے اس طرح خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگر جلد ہی پھرنکل آئیں گے۔راگ پھرشروع ہو گامگرسرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکرہوگا،ستیاناس اوربربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے والا توبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ حسین ملک کتنابد قسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک اعلی مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ طالع آزما ایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتمادکی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص وہوس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی،نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی”جرأت وبہادری”پرفخرکرتے ہیں۔ بعدمیں پکڑے جائیں توبھی اپنے کئے پرنادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کراپنادفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کوبھی یہ کہناپڑجاتاہے کہ”کرپٹ عناصر شرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑکربڑے فخرکے ساتھ اپنے پروٹوکول اوردرجن بھرذاتی باڈی گارڈزکے ساتھ کروڑوں کی گاڑیوں کے جلوس کے ساتھ چلتے ہیں تاکہ عام شہری پران کے مال ودولت کے ساتھ ان کی طاقت کی دھاک بھی بیٹھ سکے……….ان سے کئی کئی ملین ڈالر عدالتوں کے حکم پرحکومت نے وصول بھی کئے،اربوں لوٹ کرلاکھوں واپس کرکے بھی کسی خسارہ میں نہیں رہے اوراس کے باوجود وہ گالف بھی کھیل رہے ہیں،ٹی وی پروگرامزمیں قوم کودانش وسیاست کاسبق بھی پڑھارہے ہیں۔معاشرہ کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے تھااوران کابائیکاٹ کرناچاہئے تھالیکن وہ اب پیچھے بیٹھ کردھوکہ بازی اورکرپشن کے سارے داؤپیچ اپنی اولادوں کوسکھاکرمیدان میں اتاردیتے ہیں اورہماری قوم کے پڑھے لکھے نونہال الیکشن کی سرگرمیوں میں ان کی گاڑیوں کے ساتھ بھاگ بھاگ کرخودکواس امید پرہلکان کرتے ہوئے ان کے زندہ بادکے نعرے لگارہے ہوتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان کے اقتدار میں ہمیں نوکری مل سکے تاکہ ہم اپنے بوڑھے ماں باپ کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنی جوان بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے قابل بن جائیں۔

خطاتومعاشرہ کی بھی ہے۔اچھائی برائی میں تمیزکمزورپڑجائے،عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے،برائی سے بچنابزدلی ٹھہرے اورچور ڈاکورہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کاکرداراداکریں۔عموماًکہاجاتاہے کہ انسان کی سرشت میں مضمرہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اور بدی کاواضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہدکے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبورکردیتاہے۔ روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتاہے کہ خواہ مخواہ ”پنگا”لیناسراسرحماقت ہے ۔جوسرپھرے پرائی آگ میں کودپڑتے ہیں ان کے نہ صرف پاؤں جھلس جاتے ہیں، بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لے جاتی ہے۔

عقلمندی،انہیں ناانصافی،ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ ”پی جانے”کی ترغیب دیتی ہے،یوں ان کی قوتِ برداشت کادائرہ پھیلتا جاتا ہے جس سے برخودغلط ظالموں کاحوصلہ بڑھتاہے۔وہ چنگیزخان کے لشکریوں کی طرح ہرمرغزارپرچڑھ دوڑتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اور بے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کا ساتھ چھوڑدیتی ہے۔آٹھوں پہرگردش کرنے والا آسمان پھر عجیب و غریب منظر دیکھتا ہے مفتوحہ شہرمیں ایک ممتازشہری کسی غیرمسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے،اسے وہی لیٹ جانے کا حکم ہوتاہے جس کی بلاچوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر ”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوارلا کر تمہارا گلانہ کاٹ دوں”چلاجاتاہے۔معزز شہری بے حس وحرکت پڑارہتاہے،نہ اسے فرارکاخیال آتاہے،نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیرکے بعد تاتاری آتاہے،اس کاگلاکاٹ دیتاہے۔اسی لئے توکہاگیاہے کہ :یقیناًہم نے انسان کوبہترین شکل وصورت(احسن تقویم )میں پیدا کیاہے اورپھراسے نیچوں سے نیچا(اسفل سافِلِین) کردیا،ماسوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اورنیک عمل کئے،ان کیلئے نہ ختم ہونے ولااجرہے۔

حدسے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کوجنم دیتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانانہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کاجمِ غفیر توپ وتفنگ سے مسلح لشکرکے سامنے کیسے ٹھہرسکتاہے، خصوصاً جب قتل عام کااذن ہوچکاہویاہوسکتاہو۔ہلاکوخان نے اہلِ بغدادکوتہ تیغ کیاتودریاکاپانی گلرنگ ہوگیا،نادرشاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔1857میں بارباراجڑنے والی دلی کوپھرویساہی المیہ پیش آیا۔ شہزادگان کی لاشیں کئی دن درختوں سے لٹکتی رہیں،نازونعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہلِ ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے،جوبچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کوبڑھے۔اپنی وفادای کایقین دلانے کیلئے ایڑھی چوٹی کازورلگایا،تابعداری کوشرطِ استواری سے یوں سنواراکہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔

عرب کے خیمے میں اونٹ گھسنے کی روایت بہت پرانی ہے۔سردی میں ٹھٹھرتابیچارہ عرب کرہی کیاسکتاہے۔اونٹ کی ناک میں نکیل ہوتی اوررسی کوسوارنے مضبوطی سے تھاماہوتاتو یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔اترنے پراونٹ خیمے سے باہر زمین میں گاڑے کھونٹے سے باندھ دیاجاتا۔ایک دفعہ وہ خیمے میں گھس جائے توبازی مالک کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، اب وہ بے بس اورلاچارہے۔انحصاراب اونٹ کی خصلت پرہے،اگرنیک طینت ہے تومالک کیلئے بھی خیمے کے اندرگنجائش پیداکرے گا،اگرکینہ پروری پرتل گیاتومالک کیااس کاباپ بھی آجائے پرنالہ وہی رہے گاجہاں تھا۔فاتح طبقے روایتی اونٹ کی طرح ہوتے ہیں،ان کی شرافت،رعایا پروری اوربندہ نوازی کے گن گاتے ہوئے التماس کی جاسکتی ہے کہ شرفِ انسانی کی لاج رکھیں اورغلاموں کوآزادی کی نعمت لوٹادیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آزادی توکبھی بھی التجاؤں اوردرخواستوں سے نہیں ملی:
جسٹس مرحوم محمدرستم کیانی نے1959 میں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سرشاعر کے اس شعرکاحوالہ دیا تھا
دیکھتاکیاہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

جسٹس مرحوم محمد رستم کیانی اس وقت حکومت کے قانونی مشیرتھے۔ان سے رائے طلب کی گئی تھی کہ اس پرکون سی دفعہ لگتی ہے۔انہوں نے کہاتھا کہ”خدا کے بندو!وہ توصرف یہ کہتا ہے کہ میرے منہ کی طرف کیادیکھتے ہو،پاکستان کی طرف دیکھو،کیایہ وہی ملک ہے جوقائداعظم نے تراشاتھا……اب توغالباًروح پاکستان بھی اپنے”جانثاروں”سے یہ سوال کرتی ہو گی۔کیاہم سے کوئی جواب بن پاتاہے؟ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یا معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خداداد پاکستان کیونکر صفحہ ہستی پرنمودارہوا؟ بانیانِ پاکستان کے خواب کیا تھے؟آرزوئیں،تمنائیں اورآدرش کیاتھے؟بابائے قوم نے کیا سوچاتھا،کیاچاہاتھا،کون سی منزل متعین کی تھی؟کیسے وہاں تک پہنچناتھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی، کبھی کوئی دکھائی پڑتاہے یانہیں؟

صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکنے کے بعد حضرت موسیٰ کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگر دامن گیرہوجائے توکیاخبر ہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِنوپا لیں۔ اپنی اپنی ذات کی قیدسے آزادہوجائیں۔ذاتی مفادکوہی زندگی کاواحدمقصدسمجھناترک کردیں۔ملک وقوم کی فلاح وبہبودکونہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیارہوجائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔کتناہی خوشگواراجالاہوگاجب جماعتی وفاداریوں سے بالاترہوکر،یاری دوستی اوربرادری کی زنجیروں سے آزادہوکرہمارے اربابِ اختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائد اعظم کے حسین چہرہ پرجمی گردجھڑنے لگے گی۔

ملک کی عدلیہ ملک کے دووزیراعظموں کوگھربھیج کراپنی آزادی اورقانون کی سربلندی کانعرہ بلندکرچکی لیکن کیاوجہ ہے کہ اب بھی انصاف طلب کرتے کرتے کئی نسلیں راہِ عدم کوسدھارجاتی ہیں،اعلیٰ عدلیہ ملزمان کوبے گناہ قراردیکربری کرنے کاحکم دیتی ہے توپتہ چلتاہے کہ وہ برسوں قبل پھانسی پرلٹک کرمنوں مٹی کے نیچے پہنچ گیا،وہ توپھانسی گھاٹ جاتے ہوئے چلاچلاکراپنی بے گناہی کی فریاد کررہاتھالیکن کسی نے اس کی بات پریقین نہیں کیااوررسہ گلامیں پہنتے ہوئے نجانے اس کے دل سے کیاکیابددعائیں اس نطام اوراس کے چلانے والوں کودیکررخصت ہوگیااوراس کے لواحقین اوربچے اب دربدرگلیوں کی خاک چھان رہے ہیں۔

ملک میں تبدیلی کے نعرہ کاچلن جاری ہے۔پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کامبارک عزم کیاگیا،بڑی دھوم کے ساتھ دعوے کئے گئے لیکن ملک کے تمام بڑے شہروں میں ایک مختصرگروہ نے”میراجسم میری مرضی ”کے ساتھ انتہائی توہین آمیز نعروں،بیہودہ مطالبوں کے ساتھ شاہراہوں پررقصِ دیوانگی اوربے حیائی کاکھلے عام مظاہرہ کیا لیکن ریاست اسے شہری آزادی کے نام پران کادفاع کرتی رہی،آخرکاراس کاانجام یہ نکلاکہ اس گروہ میں آزادی کے نام پربڑابینراٹھانے والی لڑکی کاملک کے دارلحکومت میں اپنے عیاش وبدکار سرمایہ دارساتھی کے ہاتھوں تین گھنٹے شدیدترین اذیت دینے کے بعدبہیمانہ اندازمیں سرتن سے جداکردیاگیا اوراس لرزہ خیزقتل پر”میرا جسم ،میری مرضی”والوں کوتوگویاسانپ سونگھ گیااور کوئی موم بتی مافیابھی توکسی قسم کے احتجاج کیلئے ان شاہراہوں پرنہ آیاجہاں وہ سارادن جنسی گندگی کے ساتھ ہڑبونگ مچایا کرتے تھے۔یقیناً اس تازیانے کے بعدوہ ماں باپ بھی دم بخودہوں گے جنہوں نے اپنی اولادوں کی ایسی پرورش کی ہے کہ ”میراجسم،میری مرضی”کے نام پر دی گئی بے مہار آزادی کاانجام کیسانکلا۔ایک کڑا امتحان ہے اور قوم بھی ہاتھوں میں پھندہ لئے منتظر ہے۔دیکھیں کون کون جھولتاہے!
رہے نام میرے رب کا جو علیم و خبیر ہے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.