رامپورکی محمد علی جوہر یونیورسٹی اس وقت خطرے کے نشان پر
ہے۔جوہر یونیورسٹی آزادی کے بعد ملک میں قائم ہونیوالی ایسی پہلی یونیورسٹی
ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طرز پر بنائی گئی تھی۔بْرانہ مانیں ،اس
یونیورسٹی اور حالات حاضرہ کے تعلق سے اس مضمون میں جو کچھ لکھاجارہاہے اور
جو بولاجارہاہے وہ بھلے ہی کڑوا سچ ہے،لیکن اس کڑوے سچ کو سماج کو قبول
کرناہی ہے،خصوصاً مسلم سماج کو اس معاملے میں غورکرنے کی ضرورت ہے۔آزادی کے
بعد قائم کی گئی اگر کوئی عالیشان وہ دانشگاہ بنائی گئی ہے تووہ جوہر
یونیورسٹی ہے۔جو ہر یونیورسٹی کے تعلق سے مسلسل مسلم سماج میں یہ رائے
سامنے آرہی ہے کہ یہ یونیورسٹی نجی یونیورسٹی ہے،اعظم خان کی یونیورسٹی
ہے،اس کافائدہ ونقصان اعظم خان کو ہوگا،یہ اعظم خان و اس کے اہل خانہ کی
ملکیت ہے،اس لئے اس یونیورسٹی کے خلاف اگر قانونی کارروائی ہورہی ہو تو اس
کیلئے خود اعظم خان ہی مقابلہ کرلیں،عام مسلمانوں کو اس میں مداخلت کرنے کی
بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔یقیناً یہ یونیورسٹی اعظم خان کی ہے اوراس کا
فائدہ ونقصان اس کے اہل و عیال کو ہی ہوگا۔کچھ لوگوں کا کہناہے کہ اعظم خان
نے اوقافی املاک پر قبضہ کرتے ہوئے یونیورسٹی بنائی ہے،یاپھر ملت اسلامیہ
کی املاک کو ہڑپنے کی کوشش کی ہے۔بعض منفی سوچ رکھنے والے اہل علم حضرات کا
کہناہے کہ اعظم خان نے یہ یونیورسٹی دنیاؤی تعلیم کیلئے بنائی ہے اور دین
کی تعلیم سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔جوہر یونیورسٹی غیروں کے ساتھ ساتھ اپنی
قوم کیلئے بھی کانٹے سے کم نہیں ہے۔قوم میں یہ رونا رویاجارہاہے کہ ا?زادی
کے بعد مسلمانوں کی طرف سیایک بھی یونیورسٹی ملک میں قائم نہیں ہوئی ہے اور
مسلمان تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں۔چلئے اب جواب دیتے ہیں مندرجہ بالااْن
تمام سوالات اور الزامات کا جو ہمارے اپنے ہی اٹھارہے ہیں۔سب سے پہلا الزام
یہ ہے کہ اعظم خان نے جو یونیورسٹی بنائی ہیاْس کا فائدہ ونقصان اْس کے اہل
وعیال کو ہوگا،اس سے قوم کاکوئی سروکار نہیں ہے۔ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ
اعظم خان نے اپنوں کیلئے ہی یہ یونیورسٹی بنائی ہوگی اور اس کے مالکان اس
کے اہل وعیال ہی ہونگے۔لیکن اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنیو الاطبقہ سب
سے زیادہ مسلمانوں کاہی ہے اورمسلمانوں کے ہی زیادہ تر اساتذہ ودیگر املاک
یہاں درس وتدریس سمیت دیگر خدمات پر مامور ہیں،تو بتائیے کہ جو ہر
یونیورسٹی کا فائدہ اعظم خان اور ا سکی بیوی کوہورہاہے یا پھر ملت اسلامیہ
کو؟۔رہی بات اس املاک کی،ملک میں کئی ایسے اوقافی اداریہیں جن پر علماء
،دانشوران،سیاستدان ،دلت،برہمن،یادو یہاں تک کہ خود حکومت بھی قبضہ
جمائیہوئے ہیاور وقف کی املاک پر ہوٹل،لاڈج،بار،کمپنیاں،چندہ وصولی کرنے کا
دھندہ کرنے والے کچھ مدرسے،وارثت کی شکل میں چلائے جانے والے مدرسے،خاندانی
مسجدیں بنائے ہوئیہیں،باپ کے بعد بیٹا مہتمم وہ ایسے مدرسے قائم کئے گئے
ہیں تو کیا ان اداروں،کاروباری مراکز پر قومِ مسلم سوال نہیں اٹھائیگی؟۔اگر
اعظم خان کے چہرے پربھی داڑھی،لباس جبہ،سر پرٹوپی ڈالے ہو تواور یونیورسٹی
کے بجائے ایک مدرسہ بنایاہوتا تو آج قوم مسلم تلملاجاتی اور پورے ملک میں
یہ ہنگامہ ہوتاکہ مدرسے کے دروازے پر بلڈوزر چلانے کے احکامات جاری ہوئے
ہیں۔جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں دنیاؤی تعلیم نہیں دی جارہی
ہے،نہ کہ دینی تعلیم وہاں کا مرکز ہے، تو یہ جان لیں کہ تعلیم کو دنیاؤی
اور دینی زمروں میں تقسیم کرنے والے ہم ہی ہیں۔خدانے اپنی مقدس کتاب میں
انسانوں کو اقراء کے ذریعے پڑھنے کاحکم دیاہے اورپڑھائی کے تعلق سے دینی
ودنیاؤی تعلیم کے زمروں کو خدانے نہیں بنایاہے۔ہم نے اپنے مفادات کی تکمیل
کیلئے تعلیم کا بٹواراکیاہے۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب کسی مدرسے پر صرف
الزام لگایاجاتاہے تو پوری قوم پریشان ہواٹھتی ہے اور اس کے تحفظ کیلئے
جابجا میمورنڈم دئیے جاتے ہیں،جابجا جلوس نکالے جاتے ہیں،اسٹیج سے لیکر سے
منبر تک تحفظِ مدارس کی آواز بلند ہوتی ہے،لیکن جو ہر یونیورسٹی
کاقصورکیاہوگیا جو قوم مسلم اس یونیورسٹی پر خطرے کے بادل منڈلانے کے
باوجود خاموشی اختیارکررہی ہے۔جو ہر یونیورسٹی تو ایک بنیادہے تعلیمی
اداروں کو ختم کرنے کیلئے۔یہ آغاز ہے مسلمانوں کے اْن تمام تعلیمی اداروں
کوختم کرنے کا،یہاں سے مسلمانوں کے بچے تعلیم یافتہ ہوکرنکل رہے ہیں۔پہلے
بابری مسجد کو شہید کرکے دیکھاگیاکہ کس طرح سے مسلمانوں کا ردِ عمل ہوگا۔جب
محسوس ہواکہ یہ چار دن کی چاندی ہے،پھر مسلمان خاموش ہوجائینگے،تو اس کے
بعد کاشی ،متھورا ،گیان واپی سے لیکر گجرات و دہلی کے مساجد کی تہہ میں تک
مندروں کی تلاشی شروع ہوئی وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔پھر مسلم پرسنل لاء پر
ہاتھ ڈالاگیا،پہلے طلاق ثلاثہ کا مدعہ اٹھایاگیاتو صرف چند ایک جماعتیں اس
مدعے کو لیکر اْٹھ کھڑی ہوئیں،باقی ساری قوم اطمینان سے سوتی رہی۔اسے دیکھ
کر فرقہ پرست حکومتوں نے فائدہ اٹھاکر قانون بنایا،پھر لوجہا د کا مسئلہ
اٹھایا،پھر قانون بنا ،اب یکساں سیول کوڈ کا مدعہ زیر بحث ہے اور ہماری
خاموشی فرقہ پرستوں کیلئے راہیں ا?سان کرنے والی بات ہوگی۔کچھ عرصہ قبل
مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کے مراکز بتائے گئے تھے،مگر جیسے ہی سارے ملک
میں اس نظام کے رد میں تحریک شروع ہوئی تو سنگھیوں نے مدارس پر سے شکنجہ
کسنا چھوڑدیا۔مگران کی نظروں میں وہ نسل ہے جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہورہی
ہے،اسی لئے یہ فرقہ پرست پبلک سرویس کمیشن میں مسلمانوں کی شمولیت کو سرویس
جہاد کا نام دے رہے ہیں۔جب اس پر بھی انہیں ملک کے غیر مسلم دانشورطبقے کی
جانب سے سرزنش ہوئی تو یہ لوگ اب سیدھے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی طرف
ہاتھ ڈالنے کی پہل کی گئی ہے جس کی شروعات جو ہر یونیورسٹی سے ہوئی ہے۔ممکن
ہے کہ کل یہ ہاتھ اے ایم یو،ہمدرد،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،مولاناآزاد
یوینورسٹی،الامین تعلیمی تحریک،دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی،عثمانیہ
یونیورسٹی سمیت ہر اْس مسلم تعلیمی ادارے پر شکنجہ کساجائیگا جہاں پر ہماری
نسلیں تعلیم حاصل کرینگی۔یہاں بات عصری یا دینی تعلیم کی نہیں ہے بلکہ بات
اْن تعلیمی اداروں کی ہے جو مسلمانوں کے تحت مسلمانوں کیلئیمسلمانوں نے
قائم کئے ہیں۔آج اعظم خان ہوسکتے ہیں تو کل کوئی اور نشانہ ہوگا۔اس لئے اس
سنگین مرحلے میں مسلم تنظیموں واداروں کو آگے آنا ہوگا۔اکثر ہم دیکھتے ہیں
کہ کس طرح سے حکومتوں کو مسائل سے آگاہ کرنے اور حکومت کی غلطی کو بتانے
کیلئے کس طرح سے مکتوب لکھے جاتے ہیں،کس طرح سے پریس کانفرنس کئے جاتے ہیں
اور کس طرح سے وفد کی شکل میں ایوانِ اقتدار سے ملاقاتیں کرتے ہیں،لیکن
ہمارے پاس موجود اہل علم کا طبقہ ،تنظیموں کے گروہ اور ملت اسلامیہ
کیدردمندوں کے جھنڈ لاتعداد موجودہیں،ہمارے پاس امام الہند بھی ہے،نبیرہ
ملت بھی ہے،ہمارے پاس شعلہ بیان مقررین بھی ہیں اور ہر ریاست میں شیر دل
خطیب بھی ہیں،ہمارے پاس اہل مناظر بھی ہیں،ہمارے پاس باطل کا سرنگون کرنے
والے دانشوران بھی ہیں۔تو کس بات کی دیرہے اور کس کا انتظارہے جو
مجاہدآزادی محمد علی جوہرکے نام سے قائم کردہ ایک یونیورسٹی کو زیرزمین
ہوتا دیکھاجارہاہے۔قوم سوئی ہوئی نہیں ہے بلکہ سونے کاناٹک کررہی ہے،اب اس
ناٹک سے بازآنے کی ضرورت ہے۔
|