قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی

روز ہزاروں واقعہ دیکھنے کے باوجود ہم زندہ ہیں سانس لے رہے ہیں چاروں طرف قفس ہی قفس ہے پھر بھی ہم ہیں کے چلتے جا رہے ہیں محاورہ تھا کہ نا برا بولو نا برا دیکھو نا برا سوچو ہم نے الٹ ہی لے لیا کہ بس جو بھی دیکھو کہو یہی سوچو کہ میں کیا کروں میرا کیا واسطہ میں نے ٹھیکہ تھوڑی لیا پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ رکیے زرا سوچئیے کیا ہم لوگ اس کے حقدار ہیں کیا یہ اسلامی جمہوریت ہے اﷲ نے تو مرد کا رتبہ عورت سے بلند رکھا ہے اﷲ نے انسان کو بھیجا انسان کے لیے اﷲ نے تو نبی بھی ہم انسانوں میں سے چنا ملائکہ کو کہا ہمیں سجدہ کریں کیا میں یہ کہوں کے ابلیس نے ہمیں سجدہ نا کر کے بہت درست کیا یا میں یہ کہوں کہ اشرف ہونے کے اقتدار نے ہم انسانوں کو حیوان بنا دیا دکھ ہے کہ کم ہی نہیں ہوتا میں ایک ایسی لڑکی ہوں جو کرائمز سے بھر پور مار پیٹ والی موویز تک نہیں دیکھ سکتی جب کوئی قاتل کسی پہ حملہ کر رہا ہوتا ہے میں آنکھوں پہ ہاتھ دے دیتی ہوں تو سوچیں مجھے جب خبر سننے کو ملی ہوگی کے ایک مرد نے ایک بے بس نہتی عورت کا سر دھڑ سے جدا کر دیا اور کئی دیر اس سر سے کھیلتا رہا اور یہ کوئی فیکشن ناول نہیں ہے۔ یہ کوئی کرائم پیٹرول کی کہانی نہیں ہے یہ کوئی انور الیگی کا ناول نہیں ہے یہ سچ ہے میرے معاشرے کا جس معاشرے کو اﷲ نے بنایا امن کے لیے محبت کے لیے عبادت کے لیے بندگی کے لیے تو مجھ پہ کیا گزری ہوگی میں تو کوئی بھی نہیں ہوں سوچیے اس لڑکے پہ کیا گزری ہوگی جس کی ہونے والی بیوی کا کچھ لوگ اس کے سامنے ریپ کرتے ہیں گینگ ریپ پھر اسے کہتے ہیں وہ کہے مزا آیا سوچئیے اس پہ کیا گزری ہوگی جس ماں کو مزدوری کی لالچ میں بلا کے ریپ بھی کیا اس کے سامنے اسکا بچہ بھی قتل کیا اور اس کی گردن پہ بھی چھری مار دی اور سوچئے اس ماں پہ کیا گزری ہوگی جس کو گاڑی سے اتارنے کے لیے اس کے بچوں کو کھیتوں میں گھسیٹا گیا ہوگا یہ کوئی یورپ ملک کی باتیں نہیں ہیں یہ وہ دردناک حقیقتیں ہیں جو ہمارے ملک میں ہمارے لوگوں کے ساتھ ہمارے ہی بیچ کے لوگ کر رہے ہیں چلیں ایک منٹ کے لیے ہم چھوڑ دیتے ہیں نور مقدم کو اب آتے ہیں اس طرف کچھ کمسن لڑکے مل کر ایک بلی اور اس کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں کیا وجہ ہے کیا بلی کو اپنی حد میں رہنا چاہیے تھا یا پھر ان ننھی بچیوں کا کیا جرم تھا جن کو وہ انکل کہتی تھیں اور انہوں نے درندگی کی حد پار کر دی کوئی بھی جرم ہونے سے پہلے دستک دیتا ہے غلطیوں کو جب وہ ہونے لگیں وہی پہ روک تھام نا کی جائے تو وہ آگے جا کے گناہ بن ہی جاتی ہیں آج ہم لڑکیوں کو سہولت دینے سے ڈرتے ہیں کہ یہ بگڑ نا جائیں وہی پہ ہم بچوں کے ھاتھوں میں موبائل فونز تھما دیتے ہیں اور اس بات پہ فخر محسوس کرتے ہیں ہمارے بچے کو واٹس ایپ کا پتا ہے واٹس ایپ سٹیکر سیو کرنے کا پتا ہے یوٹیوب چلا لیتا ہے نمبر سیو کر لیتا ہے کیا یہ آپ کو احساس نہیں دلاتا کہ یہی موبائل کتنے گند سے بھرا ہوا ہوتا ہے ہمارا لڑکا شام کو کھانے کے بعد فورا باہر نکل جاتا یے پوچھنے پہ کہتا ہے یہی پاس کی گلی میں دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں کبھی آپ نے سوچا ٹھیک کھانا کھانے کے بعد ہی اسے جانا کیوں یاد آیا کہیں وہ سگریٹ پینے تو نہیں گیا ہر گناہ کا کوئی نا کوئی عینی شاہد ضرور ہوتا ہے بس ہم میں غلط کے خلاف کٹ مرنے کی ہمت نہیں ہے ارے تصور کیجیے وہ بچے جو امیروں کے گھر کام کرتے ہیں رہتے بھی وہیں ہیں انکو کیسے کیسے تشدد کا سامنا ہوگا ہزاروں کیس تو چار دیواروں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کیا یہ بھی کوئی جینا ہے اتنی غفلت اپنے ہی مسلم بہن بھائیوں سے شوہر بیوی پے ھاتھ اٹھا رہا ہے اسے نمک کم ہونے پہ گالیاں بک رہا ہے پھوہڑ کام چور اور پتہ نہیں کیسے کیسے الفاظ استعمال کر رہا ہے گھر میں موجود لوگ چپ چاپ سن رہے ہیں کہہ رہے ہیں میاں بیوی کا معاملہ ہے ہم کیوں بولیں تو شرم کرو یار کچھ تو شرم کرو جو بات غلط ہے وہ غلط ہے حدیث ہے کہ سب سے بہترین انسان وہ ہے جس کی زبان سے بھی آپ کو نقصان نا پہنچے اور ہم لوگوں کو مار کھاتا دیکھتے رہتے ہیں کبھی کوئی شاپ کا مالک بچے کو لیدر کی بلٹ سے مار مار کے لہولہان کر دیتا ہے کبھی کوئی امیر زادہ غبارے بچنے والے بچے پہ کتا چھوڑ دیتا ہے کبھی کوئی ریڑھی والا سام دیتے عورت کے ھاتھ کو ٹچ کرتا ہے فوراً بولیں چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی گناہ ہی ہوتا ہے چپ مت رہیں آواز بلند کریں روک تھام کریں چیز کو نظر انداز کر کے اسے بڑھاوا مت دیں مرد کا عورت پہ ھاتھ اٹھانا اس کے کردار پہ بات کرنا اپنے چار یار دوستوں میں بیٹھ کر اسے ڈسکس کرنا کسی صورت درست نہیں ہے ہم اپنی غلطیوں کو کب تک جسٹیفائی کرتے رہیں گے کب تک آخر کب تک اور کتنا انسانیت کے درجے سے گریں گے ہم کتنا یار پتا چلتا ہے فلاں جگہ ایک ٹک ٹاکر کا قتل ہو گیا پتا چلتا ہے غیرت میں آکے بھائیوں نے بہن مار دی غیرت کے نام پہ بیٹی ہی قتل کیوں مارا ہو کسی باپ نے بیٹا مثال دو ابھی حال ہی میں ملتان میں ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو مجرم کے گھر والوں نے لڑکی کے بھائی کو اپنی بیٹی پیش کر دی کے لو بدلا لے لو خدا کے بندو زمین کانپ جاتی ہے تم لوگوں کا دل کیوں نہیں کانپتا استغفراﷲ کچھ تو شرم کرو کچھ تو اپنے حال پہ رحم کھاؤ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے ہمارے نبی رو رو کے دعا مانگتے رہے کیا ہم قابل رحم ہیں نجانے کتنے عثمان مرزا روز ہمارے گرد ہی گھومتے ہیں ہمیں تاڑتے ہیں ہم نظراندز کر کے گزر جاتے ہیں یہی ہی تو نہیں کرنا وہی کھڑے ہو کے پوچھنا ہے خیر ہے بھائی اتنی بڑی بازار ہے اتنا بڑا مال ہے آپ کو گھورنے کے لیے ہم ہی ملے ہیں کب تک عزت کی ٹوکری عورتوں کے سروں پہ رکھ کر آپ خود کھلے سانڈھ کی طرح گھومتے رہیں گے کعبے کس منہ سے جاؤ گے یار شرم تم کو مگر نہیں آتی...

یہ جو لوگ آج نور مقدم کے مر جانے پہ ہیش ٹیگ لگا رہے ہیں اگر وہ بچ جاتی تو اسے جینے ہی نہیں دیتے ایسے ایسے سوالات کرتے اسکی زندگی پہ اتنے انگلیاں اٹھاتے کے وہ زندہ ہو کے بھی مر جاتی میں نے اس گھر کی تصویر دیکھی ہے جس میں یہ جرم ہوا وہاں کھڑے گارڈز کیا انکے گھر میں ماں بہن بیٹی بیوی نہیں ہوگی ان کے کانوں نے کیسے دلخراش چیخیں سنی بھی سہی برداشت بھی کی اور تو اور منہ بھی پھیر لیا یا اﷲ رحم سوچیں زرا ایک بچی جان بچانے کے لیے کمرے کی کھڑکی سے کود جاتی ہے زخمی حالت میں گارڈز سے کہتی ہے دروازہ کھول دیں مجھے باہر نکلنے دیں ورنہ آپ کا مالک مجھے جان سے مار دے گا پر وہ گارڈز جو حفاظت کے لیے جانے جاتے چپ چاپ بت بن کے رکے رہتے ہیں مالک آکے لڑکی کو بالوں سے گھیسٹ کر لے جاتا ہے وہ مالک جس کے متعلق اس کے ماں باپ کا کہنا ہے ہمارا بیٹا زہنی بیمار ہے گھر کی معلومات جتنی نوکروں کو ہوتی ہے اتنی گھر کے ممبرز کو بھی نہیں ہوتی مالک پاگل ہے پھر بھی گارڈز چپ چاپ ایک لڑکی کو قتل ہو جانے دیتے ہیں محلے میں سے کوئی ہمت نہیں کرتا جب لڑکی کا قتل ہو جاتا ہے تو اب وکیل بھی مفت کیس لڑنے کو تیار ہیں دوست بھی فنڈز دینے کو تیار ہیں لیکن جب دوستوں کو پتا چل گیا تھا لڑکا نور جیسی کئی لڑکیوں کو دھمکاتا رہا ہے تب یہ دوست کہاں تھے چپ تھے کیوں کے اگر اسلام آباد میں ہوتی پارٹیز میں ان کا قاتل دوست انہیں دعوت نہیں دے گا عیاشی نہیں کروائے گا تو کہاں جائیں گے یہ بچارے چلیں مان لیا مجرم پاگل ہے جس کی اپنی ماں ڈاکٹر ہو اس کا بچہ پاگل ہے وااااااہ زبردست بات ہے میں تو کہتی ہوں ایسے والدین کو بھی سخت سے سخت سزا دینی چاہیے ہم نے اگر آج بھی ان سچائیوں سے نگاہیں پھیر لی تو پھر واﷲ اگر نمبر ہمارا ہے میرا بھی آپ کا بھی ظالم صرف وہ نہیں ہوتا جو ظلم کرتا ہے وہ بھی ہوتا ہے جو سہتا ہے۔
 

Mehwish Ahsan
About the Author: Mehwish Ahsan Read More Articles by Mehwish Ahsan: 10 Articles with 8805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.