ایک بار پھر سے آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب
ہے کہ 14 اگست 1947 ء کو ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک الگ
اور آزاد ملک بنایا تھا۔ مگر کیا ہم واقعے ہی آزاد ہے اگر اس بات کو سمجھا
جائے تو ہم بلکل بھی آزاد نہیں ہے۔ ہم سب آج تک انگریزوں کی ہی غلامی میں
ہیں۔ ہمارے ملک میں چلنے والے قانون اور ہمارے حکمران آج تک انگریزوں کے
بنائے ہوئے قانون پر چلاتے آ رہے ہیں۔ کسی بھی حکمران میں اتنی ہمت نہیں ہے
کہ وہ خود سے کوئی قانون بنا کر اس قانو ن کا نفاذاس ملک میں کر سکے۔ جبکہ
خدا تعالیٰ نے قرآن میں اور ہمارے حضور اکرم نے آج سے 1400 ء سال پہلے سب
عملی طور پر بتا دیا۔ کہ ہم کو کس طرح سے اپنے تمام معملات کو سر انجام
دینا چاہئے۔ اور کن باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم خود کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
یوں تو ہم مثالیں دیتے ہیں۔ غیر مسلموں کی کے وہ ہم سے بہتر ہے۔ وہ اس لئے
بہتر ہے کیوں کہ انہوں نے ان باتوں کو اپنایا جو اسلام نے بتائی۔ مگر ہم سب
میں انا ہے ۔ اور ہم نے اسلام کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر خود کے قانون
بنانے میں لگے ہیں۔ یا غیر مسلموں کے بتائے ہوئے قانون پر چلتے ہیں۔ سب
باتیں آخر وہی آ کر ختم ہوتی ہیں کیا ہم واقعے ہی آزاد ہے، اور خود مختار
ہے۔ ایک الگ ملک بنانے کی وجہ یہی تھی کہ ہم خود مختار ہو کر اسلام کے
بتائے قانون پر چلے ۔ مگر افسوس ہم آج بھی انگریزوں کے قانون پر ہی خود کو
چلا رہے ہیں۔ اور انہی کو اپنا آقا سمجھتے ہیں۔ یاد رکھو جب تک ہم اسلام کے
مطابق خود کو نہ چلائے گئے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ اور اس غلامی کی وجہ سے
ہم مقروض ہی رہے گئے۔ ہم اگر خود کا قانون چلانا چاہے تو اس بات کا ڈر ہوتا
ہے کہ غیر مسلم ناراض ہو جائے گئے اور ہمیں جو مدد ملتی ہے چند پیسوں کی
صورت میں وہ ملاخ بند ہو جائے گی۔ ہم اگر کسی میٹنگ میں جاتے ہیں۔تو ان کے
سامنے غلاموں کی طرح سر جکا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود
مختار ہو اور خود کو اس قابل بنائے کہ ہمیں کسی کے بنائے ہوئے قانون پر
چلنے کی ضرورت نہ رہے۔ خود کو اسلام کے مطابق چلائے تب ہی ہم ترقی کر سکتے
ہیں۔ اور پھر سے سب سے ایک ہی سوال کرتا ہے کہ کیا ہم آج بھی آزاد ہیں۔ اگر
ہم خود کو آزاد نہیں سمجھتے تو ہم ہر سال آزادی کا دن کیوں مناتے ہیں ۔ 14
اگست منا کر ہم خود کو بس اس بات کی تسلی دیتے ہیں۔ کہ ہم نے اس دن
انگریزوں سے آزاد ی حاصل کی تھی۔ مگر حقیقت میں تو ہم آج بھی آزاد
نہیں۔ہمیں اگر کوئی بیماری وغیرہ ہو یا کسی ادویات کی ضرورت ہو تو ہم غیر
مسلموں کی ہی بنائی ہوئی تمام اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ آج اتنا عرصہ گزر
جانے کے بعد بھی ہم نے خود کوئی سائنسی ایجاد نہیں کی۔
اور نہ کر سکے گے کیوں کہ ہم انگریزوں کے غلام کے اور وہ جو بات کہے گے بس
وہی بات مانے گئے۔اور یہ سب اس لئے بھی کہ غیر مسلموں کی اشیاء خردنوش
استعمال کر کر ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ وہ ملک ہے
جس کیلئے ہمارےہمارے بزرگوں نے اپنی جان کی قربانیاں دے کر حاصل کیا۔ اس
ملک کی حفاظت کرنا ہم سب کا اہم فرض ہے۔آج کل ہر کوئی یہی کہتا ہے۔ کہ
پاکستان نے ہمیں کیا دیا لیکن کوئی یہ نہیں کہتا ہے۔ ہم نے پاکستان کیلئے
کیا ہے۔ اگر ملک کے لئے کوئی کام کرنا پڑھ جائے تو کہا جاتا ہے۔ کہ یہ
ہماری ذمہ داری نہیں ، کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول نہیں بلکہ اپنا کام
دوسروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کے محتاج ہو کر رہ جاتے
ہیں۔
|