شریعت کے مطابق پسندیدہ ہے وہ شخص جس کے اندر قناعت ہو
اور قناعت کوئی لمبی چوڑی راکٹ سائنس نہیں بس اﷲ نے جو دیا بندہ اس پہ
مطمئن اور خوش جبکہ دوسروں کی جیب دوسروں کے مال سے صرف نظر، اگر کوئی
سمجھے تونہایت ہی سادہ اور آسان اصول.خود بھی مطمئن ذہن و دل بھی شاداور
بندوں کے ساتھ رب کی نظر میں بھی مقبول.شرط قناعت اور صرف قناعت.حرام
طریقوں سے مال نہ کماے حلال کمانا اور کھانا بھلے کم ہی سہی بظاہر تنگدستی
ناکامی مگر کامیابی ہی کامیابی بلکہ دائمی فلاح.اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ
کامیاب ہو گیا وہ جس نے اسلام کو قبول کیااور اس کو اﷲ نے کفایت کے برابر
روزی دی یعنی جتنی ضرورت تھی اور مالک کی عطا پر قناعت کر گیا توفلاح پا
گیا.اتنی سادہ سی بات مگر سمجھے کون؟ سچ کہا گیا کہ انسان کا پیٹ قبر کی
مٹی ہی بھر سکتی ہے افسوس صد افسوس.قناعت پسندی عطا ہو جاے تو عبدالستار
ایدھی نہ عطا ہو تو میاں نواز شریف آصف علی زرداری پرویز مشرف یا بابا ڈیم
سامنے نظر آتے انجام مگر نہ کوئی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہ عبرت ہی
پکڑنے کو رضامند ہر کوئی پے درپے لوٹ مار میں مصروف، پتہ بھی کہ ساٹھ ستر
سال بعد چل چلاو ہونا یعنی انشا جی نے کوچ کر جانا مگر حرص حوص طمع ، لالچ
اور زیادہ اور زیادہ کی خواہش کئی ایک کو پاتال تک پہنچا چکی مگر حیرت ہے
کہ اب بھی کبھی قسمت پر شاکی تو کبھی اپنے چاہنے والوں سے شکوہ کناں.یو ں
تو ہر شخص ذمہ دار ہر شخص جواب دہ مگر وہ کہ جنہیں مقبولیت کا زعم کچھ
زیادہ ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ان پر ذمہ داری ذرا زیادہ عائد ہو
تی ہے کہ قوم کی راہنمائی کا فریضہ انہیں سر انجام دینا ہوتا ہے اور لوگ
اپنے روز مرہ مسائل و معاملات کے لیے انکی طرف ہی دیکھتے ہیں مگر مسیحا
اکثر جلاد نکلتے ہیں اور اس لحاظ سے میں اور میری قوم بدقسمت ہیں شاید،کچھ
توکچھ کرتے نہیں اور کچھ کو کچھ بھی کرنے نہیں دیا جاتامگر اگر سمت واضح ہو
اہداف کا بروقت تعین کرلیا جائے اور صرف اپنی ذات سے بالا تر ہو کر کچھ
کرنے کا عزم و ارداہ باند ھ لیا جائے تو کوئی چاہ کر بھی آپ کی راہ میں روڑ
ے نہیں اٹکا سکتا ایک اکیلا چلنے والا ماؤزے تنگ صرف ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا
سفر کرنے کے بعد لاکھوں اور کروڑوں کے کارواں کا لیڈر بن چکا ہوتا ہے ،
میری مراد جناب میاں نواز شریف صاحب ہیں، کاش آپ بھی وقت سے پہلے سمجھ جاتے
ووٹ کو عزت بہت ضروری مگر ووٹر کی عزت نفس بھی کسی شے کا نام ہے کبھی آپ نے
سوچنے کی زحمت گوارا کی ہوتی فی الوقت آپ اور آپ کی جماعت کی سیاست کیا ہے
کنفیوژن ہی کنفیوژن.باپ کچھ کہہ رہا تو بیٹی کچھ چاچا کچھ فرماتا تو ایک
اور چاچا شاہد خاقان کہیں دور کی کوڑی لے آتا ہے آپ ایک ہی بار سمجھا تو
دیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں مدعا کیا ہے آپ کے چاہنے والے دائیں چلیں یا بائیں
کو ئی سمت تو واضح کریں دوراہے بلکہ چوراہے پہ کھڑے ہو کے ایک ادھر بلاتا
ایک ادھر، کوئی اپنی طرف تو کوئی دوسری طرف اور کچھ بلانے والے خوددائیں
بائیں ہو کے طاقتوروں کے چرن چھونے کو بے تاب، کچھ خوف خدا کریں اور کسی
جگہ بریک لگائیں اور سوچیں کہ ملک کدھر جا رہا ہے عام آدمی کس بری طرح کچلا
مسلا جا رہا ہے آپ طاقت کے مراکز کا طواف بھلے جاری رکھیں ووٹ کی عزت کا
بھی ڈھنڈورہ زورو شور سے پیٹتے رہیں مگر مزدور بندے کے تلخ اوقات کا بھی
مداوا کرنے کی کوئی تو سبیل ہو ہم تو کہتے ہیں یہ ووٹ کو عزت یہ روٹی کپڑا
اور مکان اور اب اوے میں کسے نوں نئیں چھڈاں گا سب نورا کشتی ہے بھائی نورا
کشتی، مقصد سب کا ایک یعنی غریب کا کمبل چرالیا جائے بلکہ تن بدن پر پہنے
کپڑے تک نوچ لیے جائیں.عدالت تھانہ کچہری سے لیکر پٹواری اور ڈی سی تک ہر
طرف بھول چوک کا لین دین جاری تھوک کے حساب سے بولیاں ، عزت محفوظ نہ جان
نہ مال کہاں جاے ووٹر، فکر ہے جناب کو تو ووٹ کی عزت کی جہاں اپنی عزت داو
پر لگی ہو وہاں ووٹ جاے بھاڑ میں.تین سو پچاس روپے کلو گھی ایک سو د روپے
چینی اور اسی پچاسی روپے کلو آٹا کیا مٹی سے بچوں کا پیٹ بھرا جاے اب۔جس
ملک میں پانی کی بوتل بھی ستر روپے کی ملے جو فقط چار گلاس پانی فراہم کرے
وہاں کیسے ووٹ کیسے ووٹر اور کیسی عزت.اگر ووٹ کو عزت دلوانے کا اتنا ہی آپ
کو شوق اور درد ہے تو پھر تشریف لائیے قوم کو اس وقت لیڈر کی ضرورت ہے مگر
کیا لیڈ کرنا آپ نے ،معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کو لیڈ کی بجاے ڈیل آتی ہے
اور آپ اس کے ماہر ہیں جب بھی وقت آتا ہے نجانے کیسے بڑے بڑے اصول پسندوں
طرم خانوں ڈکٹیٹروں اور تبدیلی خانوں کو آپ شیشے میں اتار لیتے ہیں اور ان
سمیت قوم کو بھی پتہ تب چلتا ہے جب آپ پتلی گلی سے نکل سب کی پہنچ سے دورکر
ٹھنڈے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں وہاں جا کے آپ کو قوم کی حالت عوام کا درد
اورووٹ کی عزت یاد آ جاتی ہے اور جب یہاں ہوتے ہیں تو نہ ووٹ نہ ووٹر ہی آپ
کو کہیں نظر آتا ہے آپ تین بار وزیر اعظم رہے گلہ تو بنتا ہے کہ عدالتی
نظام پولیس ریفارمز تھانہ کلچر کی تبدیلی صحت و تعلیم کی بنیادی سہولت عام
آدمی کو کم از کم کچا مکان ،بے روزگار نہ سہی معذوروں کا کوئی وظیفہ بزرگوں
کو کوئی سہولت ناداروں بیواوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی ادارہ،مگر آپ
کی بنائی گئی موٹر ووے پر جاری لوٹ مار کہیں تو انقلابی کام کر ہی گذرتے
مگر آپ کی سیاست کے بھی کیا ہی کہنے، والد صاحب فوت ہوے تو آپ آ سکے نہ آپ
کی آل اولاد والدہ کی وفات پر بھی یہی کچھ اب اگلی نسل جوان ہو چکی اور ان
کی شادیاں مگر آپ ادھر اہل خانہ ادھر یہ بھی کوئی زندگی ہے نہ صرف اربوں
کھربوں کے مالک بلکہ ملک و بیرون ملک کروڑوں چاہنے والے اور سکون کا ایک
سانس ایک لمحہ میسر نہ ہو کبھی سوچیں تو سہی کہ کیا کھویااور کیا کمایا ایک
دن تو سب نے مر جانا ہے چند ماہ یا چند سال نہ سہی تو دس بیس پچاس سال بعد
،آج دو ہزار اکیس ہے میں پورے دعوے اور کامل یقین سے کہتاہوں اکیس سو اکیس
میں نہ آپ ہوں گے نہ ہم نہ یہاں اقتدار پہ فرعون بنے بیٹھے لوگوں کاکرو فر
باقی ہو گا تو پھر دیر کس بات کی بسم اﷲ کیجئیے فلائٹ پکڑئیے اور پاکستان
آئیے تاکہ پتہ چلے کہ اپ کو واقعی مالو مسلی اور خیرو ماچھی کا درد ہے خضر
ارائیں،شوکت اعوان ،حنیف راجہ ،چوہدری قمر اور ماسی بھاگا ں کے لیے اب آپ
واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں ووٹ کے ساتھ ووٹر کو بھی عزت دلوانا چاہتے ہیں
یاد رکھیئے بندہ مزدور کو جب تک عزت کا نوالہ نہیں ملے گا آپ بھی چین سے
نہیں بیٹھیں گے پیسہ آپ کے پاس بہت شہرت کی بلندیوں پر آپ اس سب پر مستزاد
لاکھوں کروڑوں چاہنے والے اور کیا چاہیئے یاد رکھئیے گا شریعت کے مطابق
پسندیدہ ہے وہ شخص جس کے اندر قناعت ہو اور قناعت کوئی لمبی چوڑی راکٹ
سائنس نہیں بس اﷲ نے جو دیا بندہ اس پہ مطمئن اور خوش جبکہ دوسروں کی جیب
دوسروں کے مال سے صرف نظر، اگر کوئی سمجھے تونہایت ہی سادہ اور آسان
اصول.خود بھی مطمئن ذہن و دل بھی شاداور بندوں کے ساتھ رب کی نظر میں بھی
مقبول.شرط قناعت اور صرف قناعت.حرام طریقوں سے مال نہ کماے حلال کمانا اور
کھانا بھلے کم ہی سہی بظاہر تنگدستی ناکامی مگر کامیابی ہی کامیابی بلکہ
دائمی فلاح.اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ کامیاب ہو گیا وہ جس نے اسلام کو قبول
کیااور اس کو اﷲ نے کفایت کے برابر روزی دی یعنی جتنی ضرورت تھی اور مالک
کی عطا پر قناعت کر گیا توفلاح پا گیا.اتنی سادہ سی بات مگر سمجھے کون؟ سچ
کہا گیا کہ انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے افسوس صد افسوس.۔۔۔۔۔۔
|