کیا ہراسمنٹ کا سبب صرف بےحیائی ہے؟

کیا ہراسمنٹ کا سبب صرف بےحیائی ہے؟

کیا ہراسمنٹ کا سبب صرف بےحیائی ہے؟

ابو افنان ۔

جس حکمران کی حاکمیت کے زیر سایہ رہنے والا ہر شخص خود کو محفوظ تصور نہ کرے ، جہاں ہر شخص کو ایک انجانے خوف نے ہر آن گھیرے رکھا ہو، جہاں ڈر انسان کا سایہ بن کر دفتر، مارکیٹ ، پارک ، سڑک ، تفریحی مقامات حتی کہ مسجد میں بھی ساتھ نہ چھوڑے ، جہاں دیہاتوں کی معصوم کلیاں محفوظ ہوں اور نہ ہی شہروں کے معصوم پھول ، حیاء کی دھجیاں اڑانے والی خوبرو دوشیزاوں کو تو ایک جانب رکھ دیں ، قبر میں دفن شدہ لاشیں بھی محفوظ نہ ہوں مگر اس کے باوجود آکسفورڈ کا پڑھا ہوا وزیر اعظم اپنی ذمہ داری نبھانے اور اپنی رعایا کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ہر پلیدی اور درندگی کو عورت اور اس کے لباس کا شاخسانہ قرار دے تو پھر وہاں یہ بحث ہی فضول بن جاتی ہے کہ قصوروار مرد ہے یا عورت؟ انسان نما درندوں کے درندہ نما کردار کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں اور وہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوتے بلکہ مہذب اور باشعور قومیں انہیں تلاش کرکے ان کا سد باب کرتی ہیں ، بحیثیت مسلمان میں بھی یہ مانتا ہوں کہ عریانی ، فحاشی اور ناشائستہ لباس بھی عورت کی ہراسمنٹ کا ایک سبب ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم نے اس قسم کے دواعی پر قدغن لگاتے ہوئے عورت اور مرد دونوں کو زندگی جینے کے کچھ آداب بتائے ہیں ، لیکن نہ تو یہ پہلا نہ آخری اور نہ ہی واحد سب ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اسباب ہیں ، اس لیے ہراسانی کے کسی بھی بھیانک واقعہ کے بعد سارے اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے سکرین پر نمودار ہو کر فقط عورت کے لباس کو اس کی وجہ قرار دینا اور وہ بھی وزیر اعظم کی طرف سے کم از کم میرے ہاں تو ویکٹم بلیمنگ( متاثرہ شخص کو ملامت کرنے) کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی تو بتایا جائے کہ بیروزگاری جو آنجناب کے دور میں ریکارڈ پر پہنچ چکی ہے وہ بھی نوجوانوں کو چوری ، ڈکیتی، نشہ اور ریپ جیسے بھیانک جرائم کی طرف لیکر گئی ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ پہلے تو بحیثیت قوم ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ہمارے ہاں بھی یہ مسئلہ شدت کے ساتھ موجود ہے، حالانکہ سب سے ابتدائی اور ضروی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعی کوئی جرم معاشرے میں عام ہے تو اسے مان لیا جائے، پھر اس کے اسباب عوامل اور وجوہات تلاش کردی جائیں اور پھر سنجیدگی کے ساتھ اس کا ٹھوس حل تلاش کردیا جائے۔ ریپ کی ایک وجہ عریانی اور فحاشی کا عام ہونا ضرور ہے لیکن بیروزگاری طاقت ، تسلط ، عدم احساس ، منفی سوچ ، مرد و عورت کے قلب ونگاہ کا حیاء سے خالی ہونا اور مجرم کو سزا نہ ملنا بھی بہت بڑے عوامل ہیں ۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے آداب بھی دونوں کے لیے بیان کیے ہیں ، نگاہوں کی حیاء بھی دونوں کے لیے ہے اور دل ودماغ کی پاکیزگی کا تعلق بھی مرد وعورت دونوں سے ہے ۔ پھر کیوں کر دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل مقابل لا کھڑا کیا جاسکتا ہے؟ اختلاف اس پر نہیں کہ عریانی اور فحاشی ہراسمنٹ یا ریپ کی وجہ ہے یا نہیں ، بلکہ اس پر ہے کہ اس کا سد باب کون کرے گا؟ وزارت عظمی سے بڑا وہ کونسا عہدہ ہوتا ہے کہ جس پر پہنچ کر وزیر اعظم صاحب بےحیائی اور عریانی کی روک تھام فرمائیں گے؟ کیا صرف وجہ بتانے سے ان کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے؟ یا اس کو روکنے کے لیے کچھ کردار ادا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ؟ ایسا کیوں ہے کہ ملک عزیز میں مجرم خوش باش رہتا ہے اور متاثرہ شخص کو تکلیف سہتے ہوئے زندگی گزارنی پڑتی ہے ؟ کیوں نہ مجرم کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے اور کیوں نہ اسے عبرتناک سزا دی جاتی ہے؟ بےحیائی ، عریانی اور بےپردگی صرف اس ملک کا ہی المیہ نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کا المیہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود اگر کہیں حکومت کی رٹ قائم ہے تو وہاں پہلے تو اس قسم کے وحشی پن کی جرات کوئی نہیں کرسکتا اور اگر کر لیتا ہے تو وہ سزا کے بغیر رہتا نہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم بھی کم ہوجاتے ہیں اور متاثرہ شخص کو انصاف بھی مل جاتا ہے ، جبکہ ہمارے اندھیر نگر میں مجرم کو سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے جرائم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے بےقابو مسٹنڈوں کا ابلتا جوش یو اے ای میں آکر ٹھنڈا پڑ جاتا ہے؟ کیوں کہ یہاں چوپٹ راج نہیں بلکہ حکومتی رٹ قائم ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ صرف اس وجہ سے دیگر وجوہات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ لبرلز لوگوں کی بیان کردہ ہیں ، چنانچہ ہمارے ہاں دیہاتوں میں اب بھی اللہ کے فضل سے بےحیائی کا طوفان نہیں پہنچا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پر بھی اس قسم کے واقعات عام ہیں ، پھر کیسے مان لیا جائے کہ فقط عریانیت ہی ریپ کی وجہ ہے؟ میں کیسے اس لمبی ریش والے ٹھرکی بزرگ کے لیے عذر لنگ تلاش کروں جو ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر بازار میں لڑکیوں کو ٹکٹکی باندھ کر گھورتا رہتا ہے اور جس کی ناشائستہ حرکتوں پر کئی بار ٹھکائی بھی ہوئی ہے ، پرسوں کا واقعہ ہے کہ سوات میں ایک شخص نے اپنی ہی سگی بہن کے ساتھ زیادتی کر ڈالی، اس کے بارے میں کیا کہاجائے ؟ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے ہوئے فرشتوں کی طرف دوڑ پڑی تھی اور ہمارے ہاں جو بعض لفنگے مرد و عورت دونوں کی طرف لپکتے ہیں ، ان کی اس خسیس حرکت کے لیے کیا عذر ڈھونڈا جائے؟ اور بعض علاقوں میں جو بعض بااثر لوگ بعض اوقات کسی دشمنی کی بنیاد پر باپردہ عورت کی عزت لوٹ لیتے ہیں ، کیا اس کی وجہ بھی بےحیائی ہی ہوتی ہے؟ نہیں ، بلکہ وہ اپنی طاقت ، تسلط اور رعونت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ناقص تربیت اور منفی سوچ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ حدیث کے مطابق اصل مسلمان وہ ہے جو اپنے لیے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لیے پسند کرتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اگر ہماری اپنی ہی بہن مختصر لباس پہن کر باہر نکلے تو ہم یہ پسند کریں گے کہ اس کو ہراساں کیا جائے یا اسے سمجھانا پسند کریں گے؟ کوئی ہاتھ میں بغیر شاپر کے ننگا گوشت لا رہا ہو تو اس پر کتا ہی جھپٹ سکتا ہے انسان تو اسے شاپر میں ڈالنے اور چھپانے کا ہی کہے گا۔

یاد رکھیے! ہر بےپردہ عورت بدکار نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی نیت سے نکلی ہو ۔ پردہ بھی اللہ تعالی کا ایک حکم ہے جیسے ہم مرد بہت سارے احکامات پر اپنی نااہلی اور سستی کی وجہ سے عمل نہیں کرپاتے یا دل میں خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے جان بوجھ کر عمل نہیں کرتے اسی طرح اسے بھی سمجھ لینا چاہیے ، کسی معصیت کی بنا پر کسی کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اللہ اور اس کے دین کا دشمن ہے۔ چنانچہ حدیث کے مطابق جب ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں شراب پینے پر مارا گیا اور حاضرین میں ایک شخص نے اس پر لعنت کی تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا: اس پر لعنت نہ کرو اللہ کی قسم میں نے اس کے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ بخاری) معلوم ہوا کہ ایک گناہ گار شخص کی بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ نہ تو یہ کالم لاہور واقعہ کے پس منظر میں لکھا جا رہا ہے اور نہ ہی پردے کی اہمیت کو کم کرنا مقصد ہے ، بلکہ مقصد فقط یہ ہے کہ عام ہوتے درندگی کی وجوہات اور بھی بہت ساری ہیں، جب تک ہم مل کر ان سب کا تعین نہیں کریں گے ، سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کریں گے، ہر بچے کو اپنا اور ہر عورت کو اپنی ماں بہن کی طرح محترم نہیں سمجھیں گے تب تک اس طرح کے جرائم کا ختم ہونا بھول جائیں۔ اور یہ تب ممكن ہے کہ ہم میں سے ہر ایک جرم کی حوصلہ شکنی کرے اور اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرے۔ واللہ ہو الموفق۔
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 36732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.