پاکستان کی بڑھتی آبادی،وسائل اور مسائل

تحریر۔۔۔مہر خضرحیات
نسل انسانی نے جس تیزی سے اپنی آبادی میں اضافہ کیا اسکی مثال تخلیق دنیا سے اب تک نہیں ملتی چشم انسانی وطیرہ حیرت میں ہے کہ اتنی تیزی سے آبادی کیونکر بڑھ رہی ہے آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کی آبادی بتدریج کیسے بڑھی۔ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں اس وقت دنیا کی آباددی 8ارب کے لگ بھگ ہے یہاں ایک چشم کشا انکشاف یہ ہے کہ دنیا کی آباددی ایک ارب ہونے میں 1800 اٹھارہ سو سال لگے اور دوسرے ارب کے تعاقب میں 70 سال کا قلیل عرصہ لگا اورہوشربا بات یہ ھے کہ11جولائی WPD کے مطابق 1985 میں انسانی تعداد تین ارب کا اشاریہ کراس کر گئی اور عقل انسانی کو وطرہ حیرت میں ڈالنے کو یہی کافی ہے کہ ایک طرف تو دنیا کی ابادی ایک ارب ھونے میں اٹھارہ سو سال لگے اور ایک ارب ابادی بڑھنے میں صرف اکیس سال لگے جو کہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔ دنیا نے اپنے وسائل کے مطابق اپنی ابادی کو محدود کیا۔جبکہ جنوبی ایشیا میں یہ بات لاگو نہ ہوسکی چائنہ دنیا کی سب سے بڑی ابادی لے لحاظ سے پہلے نمر پر براجمان ہے۔پھر انڈیا اور دیگر ممالک پاکستان کا نمبر اس دوڈ میں پانچواں اگر ہم 1.0کو ہی کوڈ کریں تو ہے ماہرین کے مطابق اگر پاکستان کی ابادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو پاکستان 2050 یعنی محض 30 سالوں پاکستان کی آبادی 45 کروڑ اور آسان الفاظ میں کہا جائے تو دو گنا ھو جائے گی اور اسی تناظر میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک انڈیا بنگلہ دیش وغیرہ کی آبادی 60 سال میں دگنی ھو گی اور ابادی کی اس دوڑ میں پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔جو کہ ہمارے محدود وسائل کے لحاظ سے انتہائی تشویشناک امر ہے یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ھے کہ اسلامی ممالک ایران ترکی ارجینٹینا وغیرہ کی آبادی 70 سال میں دگنا ھو گی۔ہمیں اپنے اسلامی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کہ اس مسئلے پہ باہمی تعاون اور مشاورت سے کوئی بہتر پالیسی مرتب کرنے میں پیش رفت کرنی چاہیے ۔پاکستان میں سالانہ 60لاکھ ابادی بڑھ رہی ہے یعنی ہم ملتان جیسا شہر آباد کر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح آبادی بڑھتی رہی تو پاکستان ان نامساعد حالات میں وسائل نہ ہونے کے سبب انتہائی غربت میں گھر جائے گا ہمارے ملک میں وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ہم آج بھی گندم چینی دالیں باہر سے منگواتے ہیں اور عوام پہ اس کے ٹیکس کا بوجھ پڑتا ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ھے تعداد میں زیادہ ہونا اہم نہیں قوت میں اضافہ اہم ہے پاکستان کی افرادی قوت اور قوت زر زبوں حالی کا شکار ہے۔۔اس بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے میں ایک جامع پلان مرتب کرنا ہوگا محکمہ پاپولیشن کو شبانہ روز محنت و جانفشانی سے کام کرنا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ عوام کو محکمہ پاپولیشن کا ساتھ دینا ہوگا۔اس کار خیر میں علماء ومشائخ کا کردار انتہائی اہم ہے۔کیونکہ ہم اسلامی ملک ہیں جہاں پر کچھ بادی النظر میں ہمیں تعداد میں زیادہ ہونا چاہیے۔۔جبکہ زمینی حقائق اس کے منافی ہیں ہمیں تعداد میں نہیں بلکہ افرادی قوت اور وسائل میں مضبوط ہونا چاہیے اس میں عوامی آگہی موثر طریقے میں کرنی ہوگی پیدائش ریٹ 1.3 پہ لانا ہو گا حکومت پاکستان کو ایک جامع پلان دینا ہوگا۔بچوں کی تعداد نہیں انکی تعلیم و تربیت پہ توجہ دیں دس بچے پیدا کر کہ انھیں اچھی تعلیم نہیں دیں گے تو وہ چائلڈ لیبر کا شکارہونگے۔کوئی عدم توجہی۔ سے منشیات کی طرف راغب ہو گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو مسائل سے بچانا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنا ہوگا ان محدود وسائل میں ناممکن ہے۔تیزی سے بڑھتی آبادی کے جہاں بہت سے نقصانات ہیں وہاں آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔۔شہروں سے درخت غائب ہوتے جارہے ہیں شہری آبادیوں کا پانی آلودہ ہوتا جارہا ہے جس سے مختلف بیماریاں بڑھ رہی ہیں بلخصوص ہیپاٹائیٹس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ہمارے شہر پھیلتے جارہے ہیں اور گاؤں کم ہوتے جارہے ہیں لاہور کے چاروں طرف لاہور ہے۔لاہور ایک طرف قصور تک پھیل گیا ہے اور دوسری طرف شیخوپورہ تک۔جہاں درخت نہ ہونے کے برابر ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اسی طرح کراچی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہا ہے۔لاہور میں کوڑا کرکٹ بڑھ رھا ھے۔فیصل آباد کو صنعتی شہر ھونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اسکی حالت بھی آلودگی کے لحاظ سے کافی تشویشناک ہے۔یہاں کے پانی میں کثافتیں ہیں جو شہریوں میں مسلسل بیماریاں تقسیم کررہے ہیں۔ملتان آموں کا شہر ہے لیکن جس بیدردی سے وہاں آموں کو کاٹا جارہا ہے وہاں آلودگی بھی تیزی سے پھیل رہی ہے ملتان میں بھی درخت نہ ہونے کے برابر ہیں۔سرائیکی خطے کا یہ جھومر بھی آلودگی اور زیادہ آبادی کے سبب اپنا حسن کھو رہا ہے ڈی ایچ ملتان میں ہزاروں آموں کے درختوں کا قتل عام ہے اور انسان دوست ماحول کی بجائے وہاں انسانی تعداد بڑھانے کا سامان ہو چلا پشاور میں بھی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے شہروں کے قریب دیہات بھی شہر میں شمارہو رہے ہیں اسلام آباد مری جیسا صحت افزا مقام بھی آبادی کی لپیٹ میں ہے اور اپنی خوبصورتی اور ٹھنڈک کھو رہا ہے۔کوئٹہ شہر کی ابادی ایک سروے کے مطابق چالیس ہزار ہونی چاہیے تھی تاکہ یہ صحت افزا مقام رہتا لیکن افسوس اس شہر کے حسن کو بھی آبادی تیزی سے نگل رہی ہے۔کچلاک کوئٹہ کا دیہی علاقہ تھا لیکن آج کوئٹہ بھی کنکریٹ کا شہر بنتا رہا ہے اور کچلاک تک شہر پھیل گیا۔اور کوئٹہ شہر کی آ ٓبادی 12لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جو کہ لمحہ فکریہ ہے ہم وسائل بڑھانے کی بجائے مسائل بڑھ رہے ہیں۔آبادی بڑھ رہی ہے روزگار کم ہو رہے ہیں ہم دن بدن غربت میں گھر رہے ہیں آئی ایم ایف کے بغیر چل نہیں سکتے اپنے فیصلے خود کریں گے تو ہی مسائل حل ہونگے۔آبادی کو کنٹرول کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔پاکستان کا درجہ حرارت بڑھنے کا ایک بڑا سبب بھی تیزی سے بڑھتی آبادی ہے جب شہری آبادی بڑھ رہی ہے تو درخت کاٹے جا رہے ہیں جس سے موسم کی حدت بڑھ رہی ہے۔ایک سروے کے مطابق کسی علاقے میں ایک کلومیٹر پہ اگر 500درخت ہونگے اور اس علاقے کا درجہ حرارت 40 ڈگری ھوگا تو درخت لگانے سے اس ایک کلومیٹر کا علاقہ کا درجہ حرارت 25ڈگری تک پہنچ جائے گا۔اسی بات سے درختوں کی اہمیت کا اندازہ لگا لیجئے۔میلن ٹری پرجیکٹ کو شہروں کی طرف کر دینا چاہیے نہروں اور اہم شاہراہوں پہ پھل دار درخت لگانے چاہیں محکمہ بلدیہ کے ملازمین کو اس کا ٹاسک سونپنا چاہیے۔اس سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہوگی اور ماحول کی آلودگی بھی کم ہوگی۔تعداد زیادہ ہونا اہم نہیں بلکہ آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق ڈھال لینا اہم ہے تاکہ ہم معاشی طور پہ مضبوط قوم بن سکیں اور ہم دنیا کہ شانہ بشانہ چل سکتے ہیں ورنہ زبوں حالی کی طرف چل نکلیں گے۔سوچیں نہیں عمل پیرا ہوں صحت مند بچے خوشحال گھرانہ۔


 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 524987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.