معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور دن بدن بڑھتی لاقانونیت کے اآگے بند باندھا جا سکتا ہے جس کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے اور اسلام کا نظام زندگی اور اور معاشرت اس کا اآسان اور واھد حل ہے |
|
پھر بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جائے؟؟؟ شفیق ملک [email protected] جس مرد کے ہوتے عورت اپنے آپ کو محفوظ سمجھے وہی اصلی مرد اور جس کے ہوتے صنف نازک کو اپنی جان و متاع کی فکر پڑ جائے تو وہ مرد نہیں جانور ہے اور جانور بھی نجس ترین،بیٹی اللہ کو بھی اتنی پسند کے اپنے محبوب کی نسل کو بھی اسی سے آگے بڑھایا،جنہوں نے بیٹی سے محبت اور پیار کر کے سمجھا دیا کہ بیٹی رحمت ہی رحمت اور رحمت تو صرف اسی گھر میں آئے گی جس سے اللہ راضی ہو گا،نہ صرف بیٹی بلکہ عورت کی تکریم کی عظیم مثال یوں پیش کی کہ بیٹی کا استقبال کھڑے ہو کر اور مائی حلیمہ کیلیے اپنے کندھے سے کملی اتار کر نیچے بچھا دی، جنہوں نے اس بات کو پلے باندھا دنیا جہاں کا سکون پا لیا،،کبھی ایک بیٹی کی پکار پر محمد بن قاسم ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے دیبل یعنی کراچی آن پہنچا اور یہاں اسی ہزار افراد کی موجودگی اور ایک عورت چارسو افراد کے نرغے میں مگر خاموشی و بے حسی، افسوس کہ شاید سارے بانجھ کیوں کہ چنری بھیگی ساری بستی چھتری لیکر نکل پڑی،آنچل جب پامال ہوا شہر میں تب سناٹا تھا،صحابی رسولﷺ غالبا حضرت وھیہ قلبی داستان سنا رہے تھے اور وجہ وجود کائناتﷺ روے جا رہے تھے،صحابی بولے یا رسول االلہﷺ میں کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا میرے جانے کے کچھ عرصہ بعد اللہ نے بیٹی دے دی میری بیوی نے سب سے چھپا لی اور چپکے چپکے پرورش کرتی رہی رواج تھا کہ اولاد بیٹا ہو ٹھیک مگر بیٹی ہوتے ہی مٹی میں دبا دی جاے میری بیوی نے کسی کو بھی میری بیٹی کو یوں زندہ گاڑنے کی اجازت نہ دی میں دو سال بعد واپس پلٹا تو میری بیوی نے بیٹی کو چھپا دیا رات کو بیٹی کے رونے کی آواز سنی بیوی سے پوچھا بیوی نے سارا ماجر ابیان کر دیا اور ساتھ ہاتھ بھی جوڑے منتیں بھی کیں کہ خدا را مجھے بھی اور بیٹی کو بھی معاف کر دیں اور اسے کچھ نہ کہیں،لیکن مجھ پر وحشت طاری ہو چکی تھی برادری اور خاندان میں ناک کٹنے کا ڈر تھا سو میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اپنی روایات پر حرف نہ آں ے دوں گا صبح سویرے اٹھا بیٹی کو ساتھ لیاکدال اٹھائی بیوی روتی پیٹتی رہ گئی بیٹی کو لیکر جنگل میں پہنچا گڑھا کھودنا شروع کیا بیٹی حیرانی اور معصومیت سے دیکھتی رہی کہ بابا کیا کر رہے ہیں اس معصوم کو نہیں پتہ تھا کہ اس کاجاہل بابا اسی کی لحد کھود رہا ہے جس میں اسے زندہ دفن کیا جانا ہے تھوڑی دیر بعد،واقعہ سناتے جب وھیہ قلبی نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کھودتے کھودتے میرے سر اور چہرے پر مٹی پڑ گئی تو میری بیٹی نے اپنے ننے دوپٹے سے میر اچہرہ صاف کیا تو ساری محفل زارو قطار رونے لگی،اللہ کے نبی ﷺکی داڑھی مبارک آنسووں سے تر ہو گئی،محفل میں موجود صحابہ غصے میں آگئے کہ تم نے کیسا واقعہ سنایا کہ ہمارے آقا ومولا کو دکھی کر دیا،کملی والے نے روک دیا فرمایا اسے بولنے دو کہنے دو جو کہتا ہے اور پوچھا وحیہ تمھارا دل ذرا بھی نہیں پسیجا ذرا بھی نہیں تڑپا جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ عقل جو نہیں تھی جہالت کا دور دورہ تھا،یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنی بیٹی کو گھڑے میں بٹھایا اسے کھلونے دیے وہ کھیلنا شروع ہو گئی میں ساتھ ساتھ مٹی دالتا گیا وہ اسے بھی کھیل ہی سمجھتی رہی جب اس کا دم گھٹنا شروع ہوا تو وہ ابو ابو کر تی چیختی رہی میں مٹی ڈالتا رہا اور اسے اس کی چیخوں سمیت زندہ دفن کر کے واپس آگیا،یا رسول اللہ ﷺ ا س دن سے لیکر آج تک سکون سے سو نہیں سکا ایک پل چین میسر نہیں دعا فرما دیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تجھے معاف کرے تو نے بڑا ظلم کیا،وہ نبی جس نے فرمایافاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اگر آج ہماری حالت کو دیکھتے تو کیا سوچتے ایک دن کا قومی اخبار میرے سامنے جس میں صرف ایک صفحے پرعصمت دری کی سات خبریں کبھی کہیں ایک واقعہ ہو تا تھا تو لوگ کانپ جاتے تھے مگر اب تو ہم ہر حد ہی کراس کر چکے،پہلے واقعے میں فیصل آبا دسے اپنی منگیتر کو مری لیکر جانے والے نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر لڑکی کو اجتماعی زیادتی کانشانہ بنا ڈالا،دوسرے واقعے میں ماں بیٹی رات کو لاہور لیٹ پہنچی گیارہ بجے رکشے پر سوار ہوئیں راستے کا علم نہ تھا رکشے والا ویرانے میں لے گیا اور ایک دوست کے ساھ مل کر ماں کو بیٹی اور بیٹی کو ماں کے سامنے بے آبرو کر دیا،راولپنڈی میں مالک مکان نے غریب کرایہ دار کے پاس کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی معصوم بیٹی کو چھت پر لیجا کر اس کی عزت لوٹ لی،لاہو رمیں نوکری کا جھانسہ دیکر خاتون کی متاع لوٹ لی گئی،مظفر گڑھ میں خاتون کو بے لباس کیا گیا شکایت کرنے تھانے گئی تو تھانے میں لٹ گئی،ذہنی معذور بچی سے لاہو ر میں مولوی کی ذیادتی جبکہ پتوکی میں بارہ سالہ بچہ درندگی کا نشانہ بن گیا،پنڈی ہی میں نوجوان طالبہ مدرسے میں مولوی کی حرس و ہوس کا نشانہ بن گئی اور حیرت کی بات یہ کہ یہ تمام واقعات نور مقدم اور چودہ اگست مینار پاکستان کے واقعے کے بعد کے ہیں پے درپے واقعات کیوں ہو رہے ہیں اس لیے اور محض اس لیے کہ کسی کو کسی بھی سزاکا ڈر ہے نہ خوف نہ خطرہ،پولیس بھی اپنی قانون بھی اپنا اور معذرت کے ساتھ کسی حد تک عدلیہ کے ایوان بھی اب اپنے،دو چار جی ہاں صرف دو چار لٹک جاتے مردار بنا دیے جاتے یقین کریں معصوم بچوں عورتوں کی جان خلاصی ہو جاتی مگریہاں نہ کوئی بچہ محفوظ نہ عورت نہ بچی،کوئی موٹر ووے پر لٹ رہی تو کوئی گھر میں تو کوئی منگیتر کے ہاتھوں اور کوئی سماج کے ہاتھو ں میں کھلونا بنی پڑی چار سو لوگ ایک عورت جسے ایک دوسرے کی طرف اچھالا جا رہا آپ انداز ہ کریں اپنی اجتماعی غیرت بے حسی اور ڈھٹائی کا اور اس وقت گریٹر اقبال پارک میں اسی ہزار لوگ موجود چار چھ سو اس تماشے میں بھی مگر کوئی دو چار کیا ایک بھی ایسا نہی جو خم ٹھونک کے سامنے کھڑا ہو جا تا،ہزاروں گیدڑ ہوں شیر ایک ہی کافی ہوتا ہے مگر لومڑوں میں شیر کی تلاش کرنا بجائے خود پرلے درجے کی بے وقوفی ہے اس پر بے مثال سروس اور لاجواب لوگ بزدار سرکار کی پولیس جو سولہ کالز کرنے کے باوجود چار گھنٹے بعد موقع پر پہنچی اب تولگتا کہ ہم کسی بہت بڑے جنگل کے باسی جہاں نہ قانون نے اصول نہ کوئی ضابطہ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،جو جتنا زہادہ طاقتور وہ اتنا زیادہ بدمست اور رہی قانون کی بات تو اسے شاید اندھا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسے کوئی ظلم کوئی زیادتی کوئی جبر نظر ہی نہیں آتا، کیا اب پھر بے بس و بے کس لوگ بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے زمانہ جاہلیت کی طرح پھر زندہ دفن کر نا شروع کرد یں، سوچئیے خدارا سوچئیے حبس جب بڑھتی ہے تو طوفان آتا ہے اس حبس کو اس حد تک نہ بڑھائیں کہ کوئی طوفان آجائے کیوں جب طوفا ن آتے ہیں تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتی ہے،ایسے گھٹن زدہ معاشرے میں جب کوئی گروہ اٹھتا ہے تو طالبان کی طرح ایک گولی کی مزاحمت کے بغیر پورا ملک لے لیتا ہے سوچئیے اور اس بربریت کے سامنے بند باندھنے کی سبیل کیجئیے،نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کیا ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں آ ج ہماری ماں بہن بیٹی ہر وقت حالت جنگ میں ہے اور ذمہ دار کون میں اور آپ کیوں کہ جس مرد کے ہوتے عورت اپنے آپ کو محفوظ سمجھے وہی اصلی مرد اور جس کے ہوتے صنف نازک کو اپنی جان و متاع کی فکر پڑ جائے تو وہ مرد نہیں جانور ہے اور جانور بھی نجس ترین،بیٹی اللہ کو بھی اتنی پسند کے اپنے محبوب کی نسل کو بھی اسی سے آگے بڑھایا،جنہوں نے بیٹی سے محبت اور پیار کر کے سمجھا دیا کہ بیٹی رحمت ہی رحمت اور رحمت تو صرف اسی گھر میں آئے گی جس سے اللہ راضی ہو گا،نہ صرف بیٹی بلکہ عورت کی تکریم کی عظیم مثال یوں پیش کی کہ بیٹی کا استقبال کھڑے ہو کر اور مائی حلیمہ کیلیے اپنے کندھے سے کملی اتار کر نیچے بچھا دی، جنہوں نے اس بات کو پلے باندھا دنیا جہاں کا سکون پا لیا،،کبھی ایک بیٹی کی پکار پر محمد بن قاسم ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے دیبل یعنی کراچی آن پہنچا اور یہاں اسی ہزار افراد کی موجودگی اور ایک عورت چارسو افراد کے نرغے میں مگر خاموشی و بے حسی، افسوس کہ شاید سارے بانجھ کیوں کہ چنری بھیگی ساری بستی چھتری لیکر نکل پڑی،آنچل جب پامال ہوا شہر میں تب سناٹا تھا،،،،،،،،
|