تحریر عائشہ کوثر
دنیا کے نقشے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریے کے تحت وارد ہوا
تھا۔ہندوستان کی تقسیم آوری کا خواب علامہ اقبال نے مسلمانان ہند کے لیے
کسی مقصد اور نظریہ کے تحت دیکھا تھا۔ مقصد اور نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں
کے لیے ایک ملک بنایاجائے جہاں وہ اپنے اقتدار اور روایات کی پاسداری کر
سکیاور اسلامی اصولوں کو اپنانے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرے۔
جب پاکستان بنا ایک طرف اسلامی نظریہ اور دوسری طرف سوشلسٹ طبقہ تھا ۔اس
سوشلسٹ طبقہ نے پہلے پاکستان بننے کی مخالفت کی تب ان کی ایک نہ چلی۔
پاکستان تو بن گیا لیکن اب ان کے بھی ارادے بدل گے۔پہلے پاکستان کے بننے
میں رکاوٹ رواں رکھنا اور اور اب یعنی(پاکستان کے بنے کے بعد) پاکستان کے
نظریے کو پاکستان کے اندر کچلنے کی کوشش کرنا۔ جی ہاں یہ عمل اب تک جاری
اور ساری ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے ہی اس نظریہ(نظریے پاکستان میں
پاکستان کی سوچ، فکر، اصول، قوائد، آئین سب شامل ہے) کو پاکستانیوں کے
ذہنوں سے نکالنے کی ناکام کوششیں جاری رکھیں۔لیکن ان کو ایسے ہی ناکامی کا
ہی منہ دیکھنا پڑتا رہا۔ویسے، جیسے پاکستان نہ بننے کے خواب انہوں نے اپنے
ذہنوں میں سجائے تھے۔ لیکن ناکامیوں کے باوجود ہر طرح سے پاکستان کے نظریہ
کو نشانے پر رکھنا جاری رکھا۔ میرے کہنے کا مطلب آپ سیاسی، سماجی، معاشی،
ادبی سطح پر نظر دوڑایں آپ کو خود سوشلسٹ طبقے کیافعال کا اندازہ ہو گا کہ
یہ ہر میدان میں کس طرح کار فرما رہے۔ لیکن ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا
گیا۔ کیسے کامیاب نہیں ہونے دیا؟ کیوں کہ یہ منصوبہ بندی کر کے کوئی بھی
کام کرتے تھے تو ان کے متبادل بھی منصوبہ کیتحت کام کا آغاز ہو جاتا تھا۔
ترقی پسند تحریک ایک ادبی تحریک ہے جس میں لکھنے والوں نے ادب کے ذریعے
لوگوں لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی اس کے متبادل اسلامی ادب کی
تحریک فعال ہوئی جسں کی بنیاد نعیم صدیقی نے رکھی اس طرح ان کو ناکام کیا
جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پختگی آتی
گی۔اور یہ آہستہ آہستہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوتے گے اور دوسری طرف عزائم
پھیکے پڑتے جارہیتھے۔آج کے دور میں اگر ان کے مقاصد کاجائزہ لیں تو سوشلسٹ
کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔
دور حاضرہ میں ملک کے جو حالات ہیں یہ سب ان کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ان میں
سب سے اہم بیحیائی، ان دس سالوں میں جو اضافہ ہوا آپ کے سامنے ہے کبھی عورت
مارچ کی صورت میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگوانا ۔ کبھی اداکاروں کو
پیسے دے کر ان سے فحاشی کی داستان رقم کروانا۔ ہمارے ڈراموں کے اندر کس قسم
کی بیہودگی دکھائی جاتی ہے سوشل میڈیا پر دیکھے تو ادھر اس سے بھی بدتر حال
ہے۔ اس طرح ہم اپنے شہروں کا رخ کریں شہروں میں بازار، تعلیمی اداروں میں
جامعات کو دیکھیں ہر طرف یہی صورت حال ہے۔اب جسے جسے بیحیائی پھیل رہی ہے
ویسے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے آئے دن ریپ کے کیس لڑکیوں کو ہراساں
کرنا لڑکیوں کو کیا یہاں کسی بھی عمر کی عورت محفوظ نہیں ہے۔ عورتوں کے لیے
گھروں سے باہر نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ کچھ دن پہلے کاواقعہ
لاہور مینار پاکستان پر ایک عورت اپنے چند دوستوں کے ساتھ اپنے ہی بلائے
ہوئے ہجوم کا نشانہ بنی. اور سوشل میڈیا پر اب پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کے
اس نے شہرت کے لیے ایسا کیا یا اس نے کپڑے ایسے زیبتن کیے ہوئے تھے جس کی
وجہ سے لوگ اس کی طرف بڑھے جو بھی اس کی سوچ تھی یا اس نے جو کیا لیکن وہاں
پر تمام مسلمان تھے۔ہمارا دین تو یہ سیکھتا ہے نظریں نیچے رکھ کر چلو چاہیے
وہ عورت ہے یامرد۔عورت نے اگر بیہودہ لباس پہنا بھی ہے تو بھی آپ کو اس کی
طرف دیکھنے کا کوئی حق نہیں یہ اﷲ کا حکم ہے اسی طرح عورت کو چار دیواری سے
باہر نکلتے وقت جسم کو ڈھانپ کر نکلنے کا حکم ہے۔
ان سب جرائم کی وجہ انٹرنیٹ ہے جہاں پر لوگ بیہودگی دیکھ دیکھ کر اس کی
پریکٹس راہ چلتی ہوئی خواتین کے ساتھ کرتے ہیں۔ دوسری وجہ ہمارے ملک میں
قانون تو ہے لیکن قانون پر عمل نہیں ہونے دیا جاتا۔ جنہوں نے قانون پر عمل
کروانا ہے۔ وہ خود ایسے کاموں میں ملوث ہیں وہ قانون پر عمل پیرا ہونے ہی
نہیں دیتے۔پھر سوشلسٹ طبقہ ہے جو پہلے ایسے جرائم کرواتا ہے پھر پاکستان کو
بدنام کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں اور جب سزا دینے کی باری
آتی ہے تو وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو سامنے لے آتے ہیں۔ جرنل ضیاء کے
دور میں دس مجرموں کو سرعام پھنسی دی گی تھی۔اس کے بعد لمبے وقت تک ایسے
واقعات تھامے رہے لیکن اب آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کیوں کہ
سزا نہیں ہے۔
ان حالات پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے یہ ہم عوام تک ہے جو اداکاریں
بیہودگی کو ہوا دے رہی ہیں ان کا بیکاٹ کریں کپڑوں کے نام پر جو فیشن کیا
جارہا ہے( فیشن) جو بیہودگی کا باعث بن رہا ہے اس کو بازار کے اندر آنے ہی
نہ دیا جائے اس طرح کے کئی اور عمل کر کے قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہاں پر یہ
بات عرض کرنا ضروری ہے کہ سوشلسٹ طبقے کے پیچھے ایک پورا گینگ موجود ہے جس
میں زیادہ حصہ دار مغرب اور امریکہ ہے یہ لوگ ہمارے خاندانی نظام کو تباہ
کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارا نظریہ آج بھی ہماری زیادہ تر عوام کے ذہنوں
بستا ہے اس کو ہمارے ذہنوں سے نکال باہر پھینکنا ہے.............
اصلاح کی گنجائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|