|
|
عام طور پر ہمیں گھر سے باہر نکلتے ہی ایسے پیشہ ور
بھکاریوں سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ ہر عمر کے ہو سکتے ہیں اور جن کا پیشہ ہی
بھیک مانگنا ہوتا ہے- ایسے لوگ درحقیقت ان لوگوں کی حق تلفی کا سبب بن رہے
ہوتے ہیں جو کہ حق دار ہوتے ہیں اور اپنی عزت نفس کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ
پھیلانے سے گریز کرتے ہیں- ایسے لوگ چھوٹے موٹے کام کر کے اور محنت کر کے
کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ ان کو بھی بھکاری سمجھ کر دھتکارنا شروع
کر دیتے ہیں- |
|
ایسی ہی ایک خاتون فوزيہ بی بی بھی ہیں جو اسلام آباد کے
مضافات میں ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتی ہیں ان کے شوہر کا دو سال
قبل دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ فوزیہ بی بی کے والدین بھی حیات
نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی بھائی ہے جو ان کی سر کی چھت بن سکتا۔ ان کی
تین بہنیں ہیں جو شادی شدہ ہیں اور ان کی غیرت نےاس بات کو گوارہ نہیں کیا
کہ وہ ان کے در پر بیٹھ جائیں- |
|
ان مشکل حالات میں اپنی تین سال کی بیٹی کے ساتھ فوزیہ
بی بی کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کسی اچھے انگلش میڈیم اسکول میں
تعلیم دلوائيں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے- مگر جب انہوں نے اس
حوالے سے معلومات حاصل کیں تو اسکول کی فیس ماہانہ چھ ہزار تک ہے جس کے لیے
پیسے جمع کرنا فوزیہ بی بی نے ابھی سے شروع کر دیے ہیں- |
|
|
|
فوزیہ بی بی کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے شوہر کی وفات کے
بعد لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا مگر وہاں بڑے بنگلوں میں جب
وہ کام کرتی تھیں تو ان بڑے گھروں کے مالکان کے مطابق اس گھر میں ان کی
چھوٹی بچی کو داخلے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ وہ جتنی دیر کام کرتی رہتیں ان
کی معصوم دو سالہ بیٹی باہر بیٹھ کر روتی بلکتی رہتی یہ دیکھ کر انہوں نے
وہ کام چھوڑ دیا- |
|
اس کے بعد انہوں نے ٹوپیاں اور تسبیح بیچنی شروع کر دیں
اس دوران وہ اپنی بیٹی کو ایک پرام میں بٹھا کر ساتھ رکھتیں مگر ان کے
مطابق آج کے دور میں لوگ ایسی اشیا کی خریداری کے لیے کم ہی تیار ہوتے ہیں- |
|
مگر اس سے پیسے جمع کر کے اور کچھ مخیر افراد کی مدد سے انہوں نے ایک پاپ
کارن بنانے کی مشین خرید لی اور اس مشین پر گھر میں بیٹھ کر پاپ کارن بنا
کر ٹریفک سگنل پر پاپ کارن فروخت کرنے شروع کر دیے- |
|
ابتدا میں ان کو اس کام میں کچھ خاص بچت نہیں ہوئی اس کے بعد انہوں نے یہی
پاپ کارن کا کام اسلام آباد کے بڑے شاپنگ مال کے سامنے کھڑے ہو کر کرنا
شروع کر دیے ان کے مطابق اس سے ان کو اچھی آمدنی ہونے لگی- ان کو فخر ہے کہ
وہ اپنی محنت سے اور کوشش سے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پال رہی ہیں- |
|
|
|
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ اپنی بچی کی
تعلیم کے لیے بھی پیسے جمع کر لیں گی- |
|
ان تمام باتوں کے ساتھ فوزیہ بی بی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ وہ بھکاری نہیں
ہیں بلکہ محنت کر کے روزی روٹی کمانا چاہتی ہیں- مگر پیشہ ور بھکاریوں کے
سبب لوگ ان کو بھی بھکاری ہی سمجھتے ہیں اور ان کو معاف کرو اماں جیسے
الفاظ کہتے ہیں جس سے ان کی عزت نفس سخت مجروح ہوتی ہے- |
|
فوزیہ بی بی جیسے لوگ معاشرے کے لیے ایک مثال ہیں جو محنت کر کے روزی کمانا
چاہتے ہیں اس وجہ سے پیشہ ور افراد کو بھیک دے کر ان کی عادتیں بگاڑنے کے
بجائے ہم سب کو یہ چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کی مدد کریں جو کہ اپنی محنت کے
بل بوتے پر معاشرے کے کام آسکیں- |