خَطِ سلیمان و اَحکامِ قُرآن !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{{{ سُورَةُالنمل ، اٰیت 28
تا 37 }}}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذھب
بکتٰبی ھٰذافالقه
الیھم ثم تول عنھم
فانظر ماذا یرجعون 28
قالت یٰایھاالملؤاانی القی الیَ
کتٰب کریم 29 انه من سلیمان وانه
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 30 الّا تعلواعلیَ
واتونی مسلمین 31 قالت یٰاھاالملؤ افتونی فی
امری ماکنت قاطعة امرا حتٰی تشھدون 32 قالوا
نحن اولواقوة واولواباس شدید والامر الیک فانظری
ماذا تامرون 33 قالت ان الملوک اذادخلواقریة افسدوھا
وجعلوااعزة اھلھااذلة وکذٰلک یفعلون 34 وانی مرسلة الیھم
بھدیة فنٰظرة بم یرجع المرسلون 35 فلما جاء سلیمٰن قال اتمدونن
بمال فمااٰتٰنی اللہ خیر مما اٰتٰکم بل انتم بھدیتکم تفرحون 36 ارجع
الیھم فلناتینھم بجنودلاقبل لھم بھا ولنخرجنھم منھا اذلة وھم صٰغرون 37
سلیمان نے جب اپنے ذرائع سے ھُد ھُد کے بیان کی تصدیق کر لی تو اُس کو طلب
کر کے یہ حُکم دیا کہ اَب تُم میری یہ کتاب میرے اِس تعارفی خط کے ساتھ لے
کر قومِ سبا کے پاس جاؤ اور اُس کو یہ خط و کتاب دونوں پُہنچا کر اپنے مرکز
میں واپس آجاؤ اور اِس کے بعد تُم خود ہی اِس اَمر کا بھی جائزہ لیتے رہو
کہ قومِ سبا کے ذمہ دار عھدے دار تُمہارے اِس سفارتی مشن کے بارے میں کیا
کہتے یا کیا کرتے ہیں اور دُوسری طرف قومِ سبا کی اُس حُکمران خاتون نے بھی
سلیمان کا پیغام ملتے ہی مشورے کے لیۓ اپنے ارکانِ حکومت کا ایک ہنگامی
اجلاس بلایا اور اپنے ارکانِ حکومت کو یہ بتایا کہ میرے پاس سلیمان کی طرف
سے ایک عزت مآب کتاب اور اُس کے ساتھ ایک توجہ طلب خط آیا ھے اور اُس خط کے
ساتھ جو کتاب آئی ھے اُس کا عُنوان { بسم اللہ الرحمٰن الرحیم } ھے اور اُس
کتاب کے اِس عُنوان کا ماحصل یہ ھے کہ تُم تک ھمارے قاصد نے ھماری کتاب کے
ساتھ ھمارا جو پیغام پُہنچایا ھے یہ کتاب و پیغامِ کتاب اُس بالا دست ہستی
کی طرف سے آیا ھے جس کا نام اللہ ھے اور اُس بالا دست ہستی کا اعلٰی تر وصف
یہ ھے کہ وہ اپنے اَحکام ماننے والوں کے لیۓ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ایک
مہربان ہستی ھے اِس لیۓ تُم اُس کی اِس کتابِ ھدایت کے سامنے سرنگوں ہو جاؤ
اور سلامتی کا یہ پیغام ملتے ہی میرے پاس آجاؤ ، سلیمان کا یہ پیغام سنانے
کے بعد قومِ سبا کی اُس حُکمران خاتون نے اپنے ارکانِ حکومت سے کہا کہ تُم
تو یہ جانتے ہی ہو کہ میں اپنی مملکت کا کوئی قطعی فیصلہ تُمہارے مشورے کے
بعد ہی کیا کرتی ہوں اِس لیۓ تُم مُجھے سلیمان کے پیغام اور اُس کی ارسال
کی ہوئی اِس کتاب کے بارے میں اپنی بے لاگ راۓ دو تاکہ میں سلیمان کے پیغام
کا اور اُس کے اُن کتابی اَحکام کا ایک مؤثر و مناسبِ حال جواب دے سکوں ،
قومِ سبا کے عمائدین نے کہا کہ ھم ایک طاقت ور قوم کے وہ طاقت ور لوگ ہیں
جو تُمہارے مزاحمت کے مزاحمتی حُکم پر ایک بھر پُور مزاحمت بھی کرسکتے ہیں
اور تُمہاری مفاہمت کے مفاہمتی حُکم کے مطابق ایک بھر پُور مفاہمت بھی کر
سکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ تو تُم نے خود ہی کرنا ھے کہ تُم نے سلیمان کے ساتھ
مزاحمت کرنی ھے یا مُفاہمت کرنی ھے ، قومِ سبا کی اُس حُکمران خاتون نے
اپنے ارکانِ حکومت کی یہ راۓ سن کر کہا کہ میرے نزدیک جنگ اِس معاملے کا
عقل مندانہ حل نہیں ھے کیونکہ جب بادشاہ جنگ کرکے دُشمن کی زمین میں داخل
ہوتے ہیں تو اُس کے عزت دار لوگوں کو ذلیل و خوار کر کے اُن کی اُس زمین سے
باہر نکال دیتے ہیں اِس لیۓ فی الحال تو میں تُمہارے مشورے کے بعد سلیمان
کے پاس کُچھ ہدیۓ اور تحائف بھیج رہی ہوں جو بادشاہوں کے مزاج کو سمجھنے کے
سفارتی طریقوں میں سے ایک سفارتی طریقہ ھے اور جب اُس کے بہیجے ہوۓ وہ
سفارت کار اُس کے تحائف لے کر سلیمان کے پاس پُہنچے تو سلیمان نے کہا کہ
تُم اپنا جو مال و اسباب لے کر میرے پاس آۓ ہو تو میرے رَب نے مُجھے اُس سے
کہیں زیادہ بہتر مال دیا ہوا ھے اِس لیۓ مُجھے تُمہارے اِس مال سے کوئی بھی
دلچسپی نہیں ھے ، تُم خوشی سے اپنا مال اپنے پاس رکھو اور یہاں سے واپس
جاکر اپنی حکومت کو میرا یہ پیغام دے دو کہ اَب ھم جلد ہی تُمہارے مقابلے
کے لیۓ اپنی وہ سپاہِ لے کر آئیں گے جو جلد ہی تُم کو تُمہارے ملک سے باہر
نکال دی گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات میں ھُد ھُد کے گُم ہو جانے ، واپس آنے اور سلیمان علیہ السلام
کو اپنی مُشاھداتی سرگزشت سنانے کا وہ واقعہ بیان ہوا تھا جس واقعے کو سُن
کر سلیمان علیہ السلام نے ھُد ھُد سے کہا تھا کہ میں پہلے تُمہارے اِس بیان
کی تصدیق کروں گا جو تُم نے سنایا ھے اور اُس کے بعد تُم کو وہ نئی ھدایات
دوں گا جن پر تُم نے عمل کرنا ھے اور اُن اٰیات کے اُس مضمون کے بعد اَب
موجُودہ اٰیات کے موجُودہ مضمون کے مطابق سلیمان علیہ السلام نے ھُد ھُد کے
اُس بیان کی تصدیق بھی کر لی ھے اور ھُد ھُد کو بلاکر اُس کو یہ سفارتی مشن
بھی سونپ دیا ھے کہ وہ اُن کی یہ کتاب اور کتاب کے ساتھ اُن کا یہ تعارفی
خط لے کر اُس قوم کے پاس جاۓ اور یہ خط و کتاب اُس قوم کو دے کر واپس آجاۓ
اور اِس سفارتی ھدایت کے ساتھ سلیمان علیہ السلام نے ھُد ھُد کو یہ اختیار
بھی دے دیا ھے کہ وہ اپنے اِس سفارتی مشن کے بارے میں اِس اَمر کا بھی خود
ہی جائزہ لیتا رھے کہ اُس کے اِس سفارتی مشن کے بعد وہ قوم اپنے کس مُثبت
یا کس مَنفی رَدِ عمل کا اظہار کرتی ھے ، اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون کے بعد
اٰیاتِ بالا کے اِسی مضمون میں ھُد ھُد کے اِس مشن کی کامیابی کے بعد اُس
قوم کی قومی مشاورت اور قومی مشاورت کے بعد سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اُس
قوم کے رابطے اور سلیمان علیہ السلام کی طرف سے اُس قوم کو دیۓ جانے والے
اُس حتمی جواب کی وہ ساری تفصیلات بھی اسی مضمون میں آچکی ہیں جو اٰیاتِ
بالا کے مفہومِ بالا میں اپنے پُورے سیاق و سباق کے ساتھ موجُود ہیں ، اِن
اٰیات کے اِس مُفصل مفہوم کے بارے میں ھم نے اپنی جو چند مُجمل گزارشات
کرنی ہیں اُن گزارشات میں سے پہلی گزارش یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام نے
ھُد ھُد کے اِس سفارتی مشن کے ذریعے قومِ سبا کو اِس حُکم اور اِس مضمون کا
ایک خط ہی نہیں دیا تھا کہ تُم میرا یہ خط ملتے ہی اور اِس کا یہ مضمون
پڑھتے ہی بھاگتے ہوۓ میرے پاس چلے آؤ بلکہ اِس خط کے ساتھ اُن کو ایک کتاب
بھی دی گئی تھی کہ اِس خط کے بعد تُم اِس کتاب کو پڑھو اور سمجھو اور پڑھ
کر سمجھنے کے بعد اپنی آزادانہ مرضی کے ساتھ میرے پاس آنے یا نہ آنے کا ایک
آزادانہ فیصلہ کرو ، قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام نے اُس قوم
کو وہی کتاب دی تھی جس کتاب کے اَحکام کے مطابق وہ اپنے قومی فیصلے کیا
کرتے تھے اور یہی وہ کتاب تھی جس کی تحریر نے قومِ سبا کی تقدیر کا فیصلہ
کرنے سے پہلے ماضی کی دیگر اَقوام کی تقدیر کے فیصلے کیۓ تھے اور یہی وہ
کتاب تھی جو قومِ سبا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے بعد زمانہِ بعد کی قوموں
کی تقدیر کے فیصلے کرنے کے لیۓ دُوسرے زمانوں میں آتے آتے اور نازل ہوتے
ہوتے ھمارے زمانے میں آئی ھے اور ھمارے زمانے میں نازل ہوئی ھے ، اِس اَمر
کی دلیل یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام نے پہلے { اذھب بکتٰبی } کے الفاظ کہہ
کر ھُد ھُد پر اُس حقیقی کتاب کا حقیقی طور پر موجُود ہونا واضح کیا ھے جو
کتاب ھُد ھُد نے اپنے ساتھ لے جانی تھی ، اِس پہلی کے وضاحت کے بعد سلیمان
علیہ السلام نے { انه من سلیمٰن } کے الفاظ اَدا کرکے ھُد ھُد کو اپنے اُس
خط و مضمونِ خط کی طرف متوجہ کیا ھے جو اُس کی ایک سفارتی دستاویز کے طور
پر اُس کے ساتھ جانا تھا اور پھر ھُد ھُد نے اپنے مقصدِ اَولٰی کے طور پر
جو کتاب اپنے ساتھ لے کر جانی تھی اُس کا علامتی عُنوان { بسم اللہ الرحمٰن
الرحیم } لکھا ہوا تھا جو قُرآن کے سوا کسی آسمانی کتاب کا سرنامہ نہیں ھے
اور یہ عُنوان اِس بات کی دلیل ھے کہ سلیمان علیہ السلام نے قومِ سبا کو
پڑھنے کے لیۓ ، سمجھنے کے لیۓ اور سمجھ کر ایمان لانے کے لیۓ جو کتاب بہیجی
تھی وہ قُرآن کے سوا کوئی اور کتاب نہیں تھی اور یہ ایک الگ بات ھے کہ
قُرآن کی صورت میں اُن پر نازل ہونے والی وہ کتاب اتنی ہی تھی جتنی اُس
زمانے کے زمانی اَحوال کے مطابق اُن پر نازل ہوئی تھی اور اُن پر وہ کتاب
جنتی نازل ہوئی تھی وہ اُس وقت بھی کسی فرد یا کسی قوم کی ھدایت کے لیۓ
کافی تھی اور اُس کتاب کی اسی کفایت کی وجہ سے ہی قومِ سبا اُس پر ایمان
لائی تھی ، اِس ضمن میں ھم نے دُوسری گزارش یہ کرنی ھے کہ اٰیاتِ بالا کے
اِس مضمون سے جو دُوسری بات واضح ہوتی ھے وہ ھُد ھُد کا انسان ہونا ھے اور
اُس کے انسان ہونے پر مِن جُملہ دیگر دلائل کے سب سے قوی دلیل سلیمان کی
زبان سے اَدا ہونے والا قُرآن کا ارشاد { فانظر ماذا یرجعون } ھے جو ھُد
ھُد کے سفارتی مشن کے بارے میں قومِ سبا کے رَدِ عمل کا جائزہ لینے کے کام
پر ھُد ھُد کا مامُور کیا جانا ھے اور ظاہر ھے کہ اِس قدر عظیم اور حساس
کام پر کسی ذھین ترین انسان کا ہی مامُور کیا جانا قابلِ فہم ھے کسی پرندے
کا مامُور کیا جانا قابلِ فہم نہیں ھے اور تیسری بات ھم نے یہ عرض کرنی ھے
کہ عُلماۓ روایت نے اِس باب میں حسبِ روایت جو روایتی غلطی کی ھے وہ یہ ھے
کہ اُنہوں نے { انه من سلیمٰن } کو اور { وانه بسم اللہ الرحٰمن الرحیم }
کو یہ سوچ کر جمع کردیا ھے کہ جس طرح وہ روایتی طور پر حصولِ برکت کے لیۓ
اپنے خط کے شروع میں بسم اللہ لکھتے رہتے ہیں اسی طرح سلیمان علیہ السلام
نے بھی حصول برکت کے لیۓ اپنے خط کے مضمون سے پہلے تبرکا بسم اللہ لکھ دی
ہوگی اور پھر وہ مُختصر سا خط ھُد ھُد کے گلے میں ڈال دیا ہوگا جو ھُد ھُد
نے سبا کے محل پر جا کر ڈال دیا ہوگا جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ قُرآنِ
کریم کے اِس مضمون میں سلیمان علیہ السلام کا ارسال کیا گیا خط ایک الگ
حقیقت ھے اور قُرآن کی ارسال کی گئی تنزیل ایک دُوسری حقیقت ھے لیکن عُلماۓ
روایت نے اِن دو حقیقتوں کو اپنے جُھوٹے خیال کی جُھوٹی مالا میں ڈال کر
ایک بنا دیا ھے جس نے قُرآن کے اَصل مفہوم کو کُچھ کا کُچھ بنا دیا ھے ،
مولانا مودودی مرحوم جو روایت و عُلماۓ روایت کے ایک بڑے سرخیل ہیں اُنہوں
نے اپنی تفسیر کے مُتعلقہ مقام پر ھُد ھُد کو زور زبردستی کے ساتھ ایک
پرندہ ثابت کرنے کے لیۓ پہلے تو اِس مضمون کی پہلی اٰیت کے چوتھے لفظ {
فالقه } کا ترجمہ پھینکنا کیا ھے اور پھر اُس پر مزید مشقِ سُخن کرتے ہوۓ
یہ مزید حاشیہ چڑھایا ھے کہ { کُچھ دُور آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ حضرت
سلیمان اسی ہُد ہُد کو ملکہ سبا کے نام خطوط دے کر بھیجتے ہیں تو فرماتے
ہیں اسے ان کی طرف ڈال دے یاپھینک دے ( الق الیھم ) ظاہر ھے کہ یہ ہدایت
پرندے کو تو دی جاسکتی ھے لیکن کسی آدمی کو سفیر یاایلچی یا قاصد بنا کر
بھیجنے کی صورت میں یہ انتہائی غیر موزوں ھے } لیکن ھم نے اُن کی ھدایت کے
مطابق کافی آگے اور کافی دُور جا کر دیکھا ھے اور ہمیں قُرآنِ کریم کے 146
مقامات میں سے کسی ایک مقام پر بھی اِس مادے کا معنٰی مُطلقا پھینک دینا یا
ڈال دینا نظر نہیں آیا ھے بلکہ ہر جگہ پر اِس کا معنٰی پیش کرنا ہی نظر آیا
ھے کیونکہ اِس مادے کا بُنیادی معنٰی دو اَفراد یا دو اَشیاء کا باہَم ملنا
ہوتا ھے اور جب دو اَفراد باہَم ملتے ہیں تو بالفعل وہ ایک دُوسرے کے سامنے
پیش ہو رھے ہوتے ہیں ، اپنے آپ کو ایک دُوسرے کے آگے نہیں ڈال رھے ہوتے ،
اگر ھم مولانا محترم کے اِس ترجمے کو درست مان لیں تو پھر ہمیں قُرآن کی
اٰیت { لاتقولوا لمن القٰی الیک لست مؤمنا } کا یہ ترجمہ کرنا پڑے گا کہ جب
کوئی شخص تُم پر سلام پھینکے تو تُم اُس کو یہ نہ کہا کرو کہ تُم صاحبِ
ایمان نہیں ہو ، اسی طرح مرحوم ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ آخر اِن لوگوں کو
ہُد ہُد کے ایک پرندہ ماننے پر کیا اعتراض ھے مگر یہی سوال تو خود اُن سے
بھی کیا جاسکتا ھے کہ آخر آپ کو ایک انسان کو انسان مان لینے پر کیا اعتراض
ھے اور ایک انسان کو پرندہ ثابت کرنے پر کیوں اتنا اصرار ھے ، اسی طرح
موصوف ایک اور مقام پر پرندوں کا سلیمانی لشکر ثابت کرنے کے حق میں یہ دلیل
دیتے ہیں کہ { ممکن ھے حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے خبر رسانی ، شکار اور
اسی طرح کے دوسرے کام لیتے ہوں } بجا ارشاد فرمایا ھے اور بالکُل بجا ارشاد
فرمایا ھے لیکن زیرِ بحث پرندہ ھُد ھُد ھے اور اِس ضمن میں اُنہوں نے شکار
کا ذکر محض انسانی عقلوں کا شکار کرنے کے لیۓ کیا ھے کیونکہ کسی انسان نے
آج تک ھُد ھُد کا شکاری پرندہ ہونا کسی سے نہیں سنا ھے اور کبھی بھی نہیں
سنا ھے !!
|
|