ذکرِ مَحشر و قُرآن اور ذکرِ مرکزِ قُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنمل ، اٰیت 83 تا 93 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یوم نحشر
من کل امة فوجا
ممن یکذب باٰیٰتنا فھم
یوزعون 83 حتٰی اذاجاءو
قال اکذبتم باٰیٰتی ولم تحیطوا
بھا علما اماذاکنتم تعملون 84 ووقع
القول علیھم بما ظلموافھم لاینطقون 85
الم یروااناجعلناالیل لیسکنوافیه والنہار مبصرا
ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یؤمنون 86 ویوم ینفخ فی
الصور ففزع من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الّا من شاء
اللہ وکل اتوه دٰخرین 87 وتری الجبال تحسبھا جامدة وھی
تمر مرالسحاب صنع اللہ الذی اتقن کل شئی انه خبیر بما تفعلون
88 من جاء بالحسنة فله خیر منھا وھم من فزع یومئذ اٰمنون 89 و
من جاء بالسیئة فکبت وجوھھم فی النار ھل تجزون الّا ماکنتم تعملون
90 انما امرت ان اعبد رب ھٰذه البلدة الذی حرمھا وله کل شئی وامرت ان
اسلم لرب العٰلمین 91 و ان اتلواالقراٰن فمن اھتدٰی فانما یھتدی لنفسهٖ ومن ضل
فقل انماانا من المنذرین 92 وقل الحمد للہ سیریکم ا ٰیٰتهٖ فتعرفونھا وما ربک بغافل
عما تعملون 93
اے ھمارے رسُول ! جب کبھی بھی ھمارے عالَم میں ھمارے عالَم کے انسانوں کو جمع کرنے کا مقررہ کیا ہوا دن آجاتا ھے تو ھم ہر اُمت کے اُن اَفراد کو جمع کرتے ہیں جو ھمارے اَحکام کی تکذیب کرتے ہیں اور ھم اُن کے درجہِ اعمال کے مطابق اُن کی درجہ بندی بھی کر دیتے ہیں اور پھر جس انسان نے ھمارے جس حُکم سے بے رُخی کی ہوتی ھے تو اُس انسان کی سزا کا حتمی فیصلہ بھی صادر کر دیا جاتا ھے اور ھمارے اُس فیصلے کے خلاف ھمارے سامنے کوئی انسان بھی لَب کشائی نہیں کر سکتا اور جب بھی ھمارے اِس وعدہِ جزا و سزا کا یہ مقررہ دن آجاتا ھے تو عالَم میں وہ عالَم گیر آواز لگادی جاتی ھے جس آواز کو سُن کر زمین کی پستی اور آسمان کی بلندی میں موجُود ہونے والے ہر مُتنفس کا دل خوف سے دہل جاتا ھے سواۓ اُس وجُود کے کہ جس وجُود کو اللہ خود ہی اُس ہولناک آواز کی ہولناکی سے بچانا چاہتا ھے اور اللہ کے اُس تابع فرمان وجُود کے سوا جہاں بھر میں جو بھی نافرمان وجُود ہوتا ھے وہ وجُود وہیں پر بے دَم ہو کر سر بخم ہو جاتا ھے یہاں تک کہ تُم زمین کے جن سر بفلک پہاڑوں کو زمین میں گڑا ہوا دیکھتے ہو وہ دیکھتے ہی دیکھتے خاکِ غبار بن کر بادلوں کے ساتھ اُڑ رھے ہوتے ہیں ، عالَم میں ہونے والا خالقِ عالَم کا یہ وہ انقلابی عمل ہوتا ھے جو اُس خالقِ عالَم کے حُکم پر اُس خالقِ عالَم کے عالَم میں ہوتا رہتا ھے جو خالقِ عالَم وقت کے ہر ایک لَمحے میں تُمہارے جُملہ اعمال و افعال سے خبر دار ہوتا ھے ، اُس مَحشر کے دن جو انسان جسم و جان کے اعمالِ خیر کے ساتھ اُس مَحشر میں جاتا ھے تو اُس کے لیۓ خیر ہی خیر ہوتی ھے اور جو انسان جسم و جان کے اعمالِ شر کے ساتھ اُس مَحشر میں جاتا ھے تو اُس کو دہکتی آگ کے دہکتے دائرے میں دھکیل دیا جاتا ھے اور اُس وقت اُس کو یہ بھی بتادیا جاتا ھے کہ یہ تُمہارے اُس حسابِِ اعمال و احتسابِ اعمال کی وہی جزا و سزا ھے جس جزا و سزا کو تُم جُھٹلایا کرتے تھے ، اے ھمارے رسُول ! آپ زمین کے ہر ایک مکین کو یہ بھی بتادیں کہ مُجھے تو خالقِ عالَم کی طرف سے اِس بات کا ایک دائمی حُکم دے دیا گیا ھے کہ میں اپنے اُس خالق کے اَحکام پر عمل کروں جس نے شہرِ مکہ کو عالَم کی تمام ملتوں کے اُس مرکزِ ملّت کی وجہ سے شہرِ مُحترم بنایا ھے جو مرکزِ ملّت اُس نے شہرِ مکہ میں بنایا ھے اور مُجھے حُکم دیا گیا ھے کہ میں اُن لوگوں کے ساتھ رہوں جو اِس مرکزِ ملّت کو تسلیم کریں اور اِس مرکزِ ملّت کو اپنی ھدایت کا محور بنائیں اور مُجھے یہ حُکم بھی دیا گیا ھے کہ میں خود بھی صرف قُرآن کی پیروی کروں اور زمین کے ہر مکین کو بھی صرف قُرآن کی پیروی کی تعلیم دیتا رہوں اِس لیۓ جو انسان صرف قُرآن کو اپنا راہ نُما بناۓ گا وہ انسان اپنا ہی بَھلا کرے گا اور جو انسان صرف قُرآن کو اپنا راہ نُما نہیں بناۓ گا وہ انسان بھی صرف اپنا ہی نقصان کرے گا ، میرا کام تو تُم کو صرف آگاہ کرنا تھا جو میں نے کردیا ھے اور اے ھمارے رسُول ! آپ زمین کے ہر مکین کو یہ بات بھی بتادیں کہ زمین و اہلِ زمین پر قُرآن کا ہر فرمان خواہی و نا خواہی بہر حال نافذ ہو کر رھے گا اور اِس کتاب کے اَحکام کے نفاذ اور نفوذ کی نشانیاں بھی تُم پر اُس خالقِ جہان کی طرف سے ظاہر ہوتی رہیں گی جو خالقِ جہان تُمہارے جُملہ اعمالِ جان و افعالِ جان کے بارے میں سدا سے سدا کے لیۓ باخبر ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے قبل قُرآنِ کریم میں وارد ہونے والے اِس مَنظرِ مَحشر پر ھم سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 111 ، سُورَةُ الکہف کی اٰیت 47 ، سُورَہِ مریم کی اٰیت 85 ، سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 102 میں بالعموم اور سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 22 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 28 اور سُورَةالاَسراء کی اٰیت 97 کے ضمنی مضامین میں بالخصوص یہ بات بقدرِ ضرورت واضح کرتے ہوۓ آۓ ہیں کہ مَحشر انسانی اعمال و افعال کے حساب و احتساب کا وہ طے شُدہ دن اور وہ طے شُدہ زمانہ ھے جس طے شُدہ دن اور زمانے کا لَمحہِ اِبتداء "الساعة" اور لَحظہِ اِنتہٰی"القیٰمة" کا وہ طویل المیعاد زمانہ ھے جس طویل المیعاد زمانے کے درمیان مَحشر کا بھی وہ طویل زمانہ ھے جس زمانے کے مَنظر کو قُرآنِ کریم بار بار انسانی خیال و نظر کے سامنا لاتا رہتا ھے تاکہ انسان خُدا فراموش و مَحشر فراموش ہو کر زندگی بھر زندگی کی اُس اَندھے راستے پر نہ چلتا رھے جو اَندھا راستہ انسان کو جنت کے بجاۓ جہنم کی طرف لے جاتا ھے بلکہ انسان زندگی بھر زندگی کے اُس روشن راستے پر ہی چلتا رھے جو روشن راستہ انسان کو جہنم کے رَنج سے بچاکر جنت کی راحت میں لے جاتا ھے ، اسی طرح ھم مُتعدد مقامات پر یہ اَمر بھی واضح کر چکے ہیں کہ عالَمِ خلق میں عالَمِ خلق پر وارد ہونے والا یومِ مَحشر بھی وہی ایک یومِ محشر نہیں ھے جو آنے والے زمانے میں عالَم و اہلِ عالَم پر آنا ھے بلکہ عالَمِ خلق میں اِس طرح کے محشر خیز یومِ محشر ہر اُس زمانے میں آتے رھے ہیں جس زمانے میں اِن اَیامِ محشر کی اُس زمانے کو ضرورت رہی ھے ، اٰیات ھٰذا کے اِس مقام پر چونکہ ھم اُس مَحشر کے اُس بیانیۓ کو دُھرانے سے قاصر ہیں اِس لیۓ اِس مقام پر شاید اتنا عرض کر دینا ہی کافی ہو گا کہ قُرآنِ کریم اپنی اٰیات میں جہاں پر ماضی و حال اور مُستقبل کے صیغے لاتا ھے تو اُن صیغوں کے وہاں پر لانے کا ایک طے شُدہ مقصد ہوتا ھے اور اُس طے شُدہ مقصد کے تحت جب وہ صیغے لاۓ جاتے ہیں تو اُن کے وہ طے شُدہ نتائج بھی سامنے لاۓ جاتے ہیں جن نتائج کے حصول کے لیۓ وہ صیغے لاۓ جاتے ہیں ، مثال کے طور فاتحہ کی معروف اٰیت { ایّاک نعبد و ایّاک نستعین } کا جو قابلِ فہم ترجمہ مُمکن ھے وہ یہ ھے کہ اے ھمارے پروردِگار ! ھم صرف تیری غلامی کرتے ہیں اور صرف تیری غلامی کرتے رہیں گے اور اے ھمارے پروردِگار ! ھم صرف تیری مدد چاہتے ہیں اور ھم صرف تیری مدد چاہتے رہیں گے ، چونکہ "نعبد" اور "نستعین" دونوں فعل مضارع کے صیغے ہیں جن میں زمانہ حال و زمانہِ استقبال کے دونوں مطالب پاۓ جاتے ہیں اِس لیۓ اِس اٰیت کے ترجمہ کار پر لازم ھے کہ وہ صیغہِ "نعبد" میں زمانہِ حال کی رُو سے اللہ تعالٰی کی بندگی میں ہونے کا وہ ترجمہ کرے جو بندہِ مومن کے ارادہِ دل کا ترجمان ہوتا ھے اور زمانہِ مُستقبل کی رُو سے اللہ تعالٰی کی بندگی میں رہنے کا وہ ترجمہ کرے جو بندہِ مومن کے اپنے رَب کے ساتھ کیۓ ہوۓ معاہدہِ مُستقبل کا بھی آئینہ دار ہوتا ھے اور اسی طرح وہ صیغہِ "نستعین" میں بھی زمانہِ حال کی رُو سے اللہ تعالٰی سے مدد مانگنے کا اور زمانہِ مُستقبل کی رُو سے اللہ تعالٰی سے مدد مانگتے رہنے کا ترجمہ کرے جو اُس مقام پر کرنا لازم ھے کیونکہ زمانہِ حال کی رُو سے جو ترجمہ کیا جاتا ھے وہ انسان کا اللہ تعالٰی کے سامنے اپنے ایک ارداہِ طیبہ کا اظہار ہوتا ھے اور زمانہِ مُستقبل کی رُو سے جو ترجمہ کیا جاتا ھے وہ انسان کا اللہ تعالٰی کے ساتھ کیا گیا وہ دائمی معاھدہِ اقرار ہوتا ھے جو معاھدہِ اقرار انسان کی زندگی سے لے کر انسان کی موت تک اور انسان کی موت سے لے کر یومِ مَحشر تک اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ر ہتا ھے لیکن عُلماۓ روایت چونکہ اپنے حال میں مَست ہوتے ہیں اِس لیۓ وہ کبھی بھی اپنے حال سے آگے نہیں بڑھتے بلکہ وہ بندہِ مُسلم کو حال میں رکھ کر کنویں کا ایک ایسا مینڈک بنا دیتے ہیں جس میں نہ تو کوئی خاک کا ناز ہو سکتا ھے اور نہ ہی کوئی پرواز کا آغاز ہوسکتا ھے بلکہ اُس کا تو زمانے بھر کی دُھتکار اور پِھٹکار ہی ایک طرہ امتیاز ہوتا ھے ، قُرآن فہمی کا یہ وہ ابتدائی اصول ھے جس اصول کے تحت ھم نے "نحشر" کا معنٰی حال مُسلسل کے مطابق اِس طور پر کیا ھے کہ اِس کے ایک پہلُو میں گزرے ہوۓ سارے زمان و مکان بھی موجُود ہیں اور دُوسرے پہلُو میں گزرتے اور آتے ہوۓ سارے زمان و مکان بھی موجُود ہیں جو اِس کے مفہوم کو دُنیا سے عُقبٰی تک مُمتد کر دیتے ہیں ، اِس سُورت کے اِس خاتمہِ کلام پر مِن جُملہ دیگر باتوں کے اللہ تعالٰی نے جو تین باتیں زیادہ نمایاں کر کے ارشاد فرمائی ہیں اُن تین باتوں میں پہلی بات تو یہی قصہِ مَحشر ھے جس کا ھم نے ذکر کیا ھے اور دُوسری بات یہ ھے کہ زمانے کے ہر گزرے ہوۓ لَمحے ، ہر گزرتے ہوۓ لَمحے اور ہر گزرنے والے لَمحے کے بعد آنے والے ہر لَمحے میں پڑھی جانے اور پڑھائی جانے والی کتاب صرف قُرآن ھے ، سیدنا محمد علیہ السلام کو صرف قُرآن ہی پڑھنے اور صرف قُرآن ہہ پڑھاۓ جانے کا حُکم دیا گیا ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کے بعد اللہ تعالٰی کا وہی حُکم سیدنا محمد علیہ السلام کی اُمت کو مُنتقل کر دیا ھے اور تیسری بات یہ ھے کہ اِس کتاب کی تعلیم کا مرکز کعبہِ مکہ کو بنایا گیا ھے جو زمین کے وسط میں ھے اور اسی قُرآنِ مُحترم کا تعلیمی مرکز ہونے کی وجہ سے اُس کعبہ و اُس شہرِ کعبہ کو اہلِ عالَم کے لیۓ ایک مقامِ مُحترم بنایا گیا ھے ، جس روز اُس مقامِ مُحترم کو قُرآنِ مُحترم کا عملی لحاظ سے ایک علمی مرکز بنایا جاۓ گا عالَم میں اُسی روز قُرآن کا وہ عالم گیر انقلاب آجاۓ گا جس عالم گیر انقلاب کے لیۓ قُرآن نازل ہوا ھے لیکن جب تک زمین کے کعبے سے لے زمین کے ہر بُت خانے تک اِس تنزیل کی تعلیم عام نہیں ہوگی اُس وقت تک عالَم میں کسی علمی و فکری انقلاب کا خواب ایک دیوانے کا خواب ہو گا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558079 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More