افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(علامہ اقبال)
*ہم گندم کی کاشت کرتے ہیں ،تو اس کے لیے ہماری سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی
ہے ،کہ بیج بہت ہی اچھی قسم کا استعمال کیا جائے تاکہ ہماری فصل جب پک کر
تیار ہو جائے تو ہمیں ہماری محنت کا پھل خوب ملے۔اگر ہم کاشت کے لئے کمزور
بیج استعمال کریں گے تو چاہے ہم لاکھ ادویات استعمال کر لیں وہ فصل کبھی
بھی اچھی اور اعلی قسم کی نہیں ہوگی۔
*اسی طرح جب ہم کوئی عمارت تیار کرتے ہیں، تو اُس کی بنیاد مظبوط بنائی
جاتی ہے، تاکہ عمارت طاقت ور ہو۔
بلکل اسی طرح کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اس کے نوجوانوں کا بڑا کردار
ہوتا ہے۔ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ہی نوجوان نسل ہے یہ کہنا بھی غلط نہیں
ہوگا۔
معاشرے کی تشکیل میں نوجوان ایک بنیاد کی حثیت رکھتے ہیں ،جس معاشرے کی
بنیاد کمزور ہوگی ،وہ طاقت ور معاشرہ نہیں بن سکتا۔
ہماری نوجوان نسل ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے، نوجوان افراد کو چاہیے ،کہ
اعلی تعلیم حاصل کریں، صرف تعلیم ہی نہیں، بلکہ با مقصد تعلیم حاصل کریں ۔
بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے،جس طرح
ایک عمارت کی تعمیر میں ایک ایک اینٹ بنیادی حیثیت رکھتی ہے ،اور ایک اینٹ
غلط جگہ پر لگ جانے سے بنیاد درست نہیں بنتی، مظبوطی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ
اینٹ سے اینٹ مل کر ہی ایک طاقت ور عمارت وجود میں آتی ہے، اسی طرح ملک کی
تعمیر و ترقی میں ہر نوجوان اپنی الگ اہمیت رکھتا ہے، جس سے انکار ممکن
نہیں۔
معاشرہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نوجوانوں کے تعاون کا
ہمشیہ سے محتاج رہا ہے اور رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کی کوشش ہوتی ہے،
کہ ایسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیونکہ کسی بھی ملک،
قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان
مخلص اور ایمان دار ہوکر اپنے ملک و قوم کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے
ہیں، تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کا
مقدر بن جاتی ہے۔ نوجوان ہی وہ قوت ہیں، جو اگر ارادہ کرلیں تو ملک کی باگ
ڈور سنبھال کر ملک کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ کامیابی
بھی انہی اقوام کا مقدر بن جاتی ہے، جس کے نوجوان مشکلات سے لڑنے کا ہنر
جانتے ہیں۔ خوش حالی ان اقوام کی منتظر ہوتی ہے ، جن کے نوجوانوں کے عزائم
آسمان کو چھوتے ہیں۔
نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہو، اور نوجوان نسل قومی مفادات کو
ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ
کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں، اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں
تبدیل کرنے کی ٹھان لیں ،تو یقین کیجیے، کہ ترقی و خوشحالی کی راہ میں آنے
والی ہر رکاوٹ دریا میں ایک چٹکی نمک کے برابر بن جائے گی، بات میں شک کی
گنجائش نہیں کہ نوجوان نسل ہی ملک میں مثبت تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت
رکھتی ہے۔
ضرورت اب صرف اس امرکی ہے ،کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور مظبوط منصوبہ
بندی ہو کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کرتے ہوئے
کیسے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔۔؟
یہ کام حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوں کو مل کر کرنا ہے۔
اس لیے ضروری ہے،کہ سب بہترین تعلیم کے حصول کو اولین ترجیح دیں۔اس کا مطلب
مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ہرگز نہیں ہے ،بلکہ
اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق ہم جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں، ہمارا
ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو، ہمارے ارد گرد کا تقریباً سارا
ماحول ہمارے تعلیم حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو، اس لئے اس وقت کو اور اپنے
والدین کی انتھک محنت کو ضائع نہ ہونے دیں،ایسا علم جو آپکو بہترین مسلمان
اور اچھا انسان بناۓ اور ہماری صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو،
ہمارا علم صرف ڈگریوں کے حصول تک ہی محدود نہ ہو،بلکہ ہمارا علم ہمیں عمل
کی جانب راغب کرنے والا ہو اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل دے، ہمارے اندر شعور
و احساس کو جگانے والا ہو۔کیونکہ اگر ہم میں لکھنے، پڑھنے،بولنے اور
سمجھنےکی بہترین استعداد ہو گی ،تب ہی ہم ملکی معملات میں اپنا کردار بہتر
طور پہ ادا کر سکیں گے۔
انسان کو انسان سمجھ کر عزت دیں ،نہ کہ اس کے پیشے و دولت کو دیکھ کر ۔ہم
معاشرے کے کچھ لوگوں کو ان کے پیشوں سے ہٹ کر اپنے جیسا انسان سمجھنے کے
لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی
کوشش کرنی ہے، گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی ہمارا اخلاق ایسا ہو کہ
لوگ ہم سے خوش ہوں، اور ہماری صحبت میں رہنا پسند کریں۔
قوم کی تعمیر و ترقی اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا سارا انحصار ہم پر
ہے، لہذا ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہوگا ،اپنے دین کی خاطر ،اور اپنے اس ملک
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کے دائرے میں رہ کر یعنی اللہ اور رسول کے
بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھال کر ایک اچھے معاشرےکو قائم کر سکتے
ہیں۔اپنی نسلِ نو کو جہالت کے اندھیرے سے نکال سکتے ہیں۔اپنے آپ کو تاریخ
کے روشن صفحوں میں نمایاں کر سکتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی
تبدیلی خود بخود نہیں آتی اس کے لیے محنت لگن اور قربانی کی ضرورت ہوتی
ہے۔جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی کا بیج نہ بوئیں چاہے وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ
ہو ہم اپنی قوم کے اندر تبدیلی کے درخت نہیں اگا سکتے۔
اللہ پاک ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
|