کبھی زینب تو کبھی فرشتہ تو کبھی ملک کے دائیں حصے اور
کبھی بائیں حصے سے چیخوں پکار کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
ملک میں گینگ ریپ کی ایک وباء پھوٹ پڑی ہے۔یہ وباء تو کررونا وائرس سے بھی
زیادہ خطرناک ہے۔کررونا وائرس تو صرف انسانوں پر حملہ کرتا ہے،یہ تو پوری
انسانیت کو شرمندہ کر دیتا ہے۔ایک کے بعد ایک
سانحہ ہو رہا ہے۔اب کشمور میں ماں اور بیٹی سے زیادتی کے دلسوز واقعے نے
نرم دل رکھنے والے انسانوں کے دل ہلا کر رکھ دے ہیں،اس واقعے نے پوری
انسانیت کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ اب جس کا نہ تو قلم کے ذریعے
کوئی مواد کیا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دلاسہ کی دو چار لائنوں کے لکھنے سے
اس ماں ،بیٹی پر گزرنے والی قیامت، ظلم و بربریت ،دکھ و تکلیف کو کم کیا
جاسکتا ہے۔بچوں کے ساتھ ایسے درد ناک، شرمناک واقعات و سانحات اکثر رونما
ہوتے ہیں جن کو لکھتے ہوئے قلم بھی خون کے آنسو روتا ہے۔نہ مجھ میں ہمت تھی
نہ قلم میں کہ کچھ لکھوں ان درندا صفت انسانوں پر،ایسے درندوں کو انسان
کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں یہ انسانیت کے نام پر سیاہ دھبہ ہیں۔جنگل سے
نکل کر یہ درندے اب انسانوں کی شکل میں پاۓ جائے ہیں جو معصوم بچوں کو مسل
کر رکھ دیتے ہیں ،بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔اس واقعے پر لکھتے ہوئے
میرے ہاتھ کانپ رہے تھے نہ جانے وہ کیسے بھیڑیے درندے ہیں جو ایسے معصوم
بچوں کو حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس واقعے نے جہاں شرافت اور انسانیت کا
لبادھا اوڑھ کر لوگوں کی عزتوں سے کھیلنے والے درندوں کو بے نقاب کیا وہاں
کچھ حقیقی انسان نرم دل رکھنے والے فرشتہ صفت محمد بخش جیسے پولیس افسر کی
غیرت، بہادری، جوانمردی،عقل مندی،ہمدردی کی قابل فخر مثال نے لاکھوں،کروڑں
لوگوں کے دلوں کو جیت لیا ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔جہاں
انسانی روپ میں حیوانوں کا بصرا ہے۔وہاں کچھ فرشتہ صفت انسان بھی موجود ہیں،
جو محبت و شفقت،ہمدردی اور انسانیت کی اعلیٰ مثال بن کر لوگوں کے دلوں میں
گھر کر جاتے ہیں ۔کراچی سے ایک خاتون کو نوکری کا جھانسہ دے کر 4 سالہ بیٹی
کے ہمراہ کشمور لایا گیا۔وہاں تین ملزمان نے عورت کو مسلسل چار روز تک
زیادتی کا نشانہ بنایا۔پھر ملزمان نے بچی کو اپنے پاس روک لیا اور خاتون سے
کہا کہ کراچی میں تمہارے ساتھ جو دوسری خاتون تھی،اس کو اپنے ساتھ واپس لے
کر آؤ تو بچی تمہیں واپس مل جائے گی۔خاتون وہاں سے نکل کر پولیس کے پاس جا
پہنچی ڈیوٹی پر موجود اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش نے اس کی درخواست سنی اور
ملزمان تک رسائی کا فیصلہ کیا جو ایک انتہائی مشکل اور نازک مرحلہ تھا۔اس
نے گینگ ریپ کا شکار بننے والی کمسن بچی کو بازیاب کروانے کا فیصلہ کیا تو
پولیس افسر محمد بخش نے رضا کارانہ طور پر اس آپریشن کے لیے اپنی بیٹی کا
نام دیا۔بہادر باپ کی دلیر بیٹی نے اپنے والد کی ہر ممکن مدد کرنے کا عزم
کیا۔اس طرح پولیس ملازم محمد بخش کی بیٹی کو دوسری خاتون بنا کر متاثرہ
خاتون کے ساتھ روانہ کیا گیا اور خود نفری لے کر پہنچ گئے،جیسے ہی دونوں
خواتین اندر گئیں پیچھے سے پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔ایک ملزم موقع پر
گرفتار ہو گیا اور دو بعد میں گرفتار ہو گئے۔ایک ملزم اگلے دن پولیس مقابلے
میں مارا گیا۔ مگر وہ درندے اس دوران 4 سال کی معصوم بچی کا بھی ریپ کر چکے
تھے۔ ان درندوں نے ماں اور اس کی 4 سالہ بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادہ کی۔ان
پر جانوروں کی طرح وحشیانہ اور بہیمانہ تشدد کیا۔انسانی شکل میں موجود ان
شیطانی درندوں کو اس معصوم پر ذرا ترس نہ آیا،اور اس معصوم کو اپنی حوس کا
نشانہ بناتے رہے۔
ہمارے پیارے اسلامی ملک میں آیے روز ایسے شرمناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں
۔زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ ملک جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر قائم
کیا گیا اس اسلامی ملک میں حوس کے پجاری اب پھولوں کی طرح کھلنے والی معصوم
کلیوں جیسی بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔بے حد افسوس اس بات کا ہے کہ جب
زیادتی و درندگی کا شکار ہونے والے معصوم بچے، بچیوں کے وارثہ قانونی چارہ
گوئی کے لیے انصاف کے دروازے پر جاتے ہیں تو ان کی بے بسی و غربت کی وجہ سے
انصاف تو کیا دادرسی تک نہیں کی جاتی۔ان کی آہوں،سسکیوں کو خاک میں ملا دیا
جاتا ہے۔سوشل میڈیا،اخبارات،ٹی وی،وغیرہ میں مذمتی بیان ہی دیۓ جاتے ہیں۔
جہاں ہمارے پیارے ملک میں مجرموں کی سرپرستی کرنے والے بڑے بڑے فرعون موجود
ہیں وہاں کچھ محمد بخش جیسے خود دار،غیرت مند،بہادر،نیک فرشتہ صفت انسان
بھی موجود ہیں۔جو اپنے فرائض کو باخوبی،ایماندری،اور احسن طریقے سے سرانجام
دیتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمور سے تعلق رکھنے والے پولیس
افسر محمد بخش اور ان کی دلیر بیٹی کے ساتھ فون پر بات کی اور کہا مجھے
بطور پاکستانی آپ پر فخر ہے اور پوری قوم کو آپ پر نازاں ہے۔سندھ حکومت نے
اس بہادر پولیس اہلکار کےلیے 10 لاکھ روپے انعام دینے اور ایواڈ دینے کا
بھی اعلان کیا اور اس کی دلیر بیٹی کے تمام تعلیمی اخراجات سندھ حکومت
برداشت کرے گی۔محمد بخش نے پاکستانی اداروں خاص طور محکمہ پولیس کے لوگوں
کےلیے ایک اعلی مثال قائم کر دی۔ انہیں اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے
۔مائیں، بہنیں،بیٹیاں دوسروں کی نہیں بلکہ ہماری اپنی ہوتیں ہیں سانجی ہوتی
ہیں۔جب وہ انصاف کےلیے آپ کے دروازے پر دستک دینے آئیں تو ان کی پہلی دستک
پر ہی انصاف کا دروازہ کھول دیا کریں اور ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔
میری اللہ پاک سے دعا ہے وہ ہم سب بہنیں،مائیں،بیٹیوں کو اپنی امان میں
رکھے اور ان درندوں سے ہماری حفاظت فرمائیں آمین ثم آمین
|