عالمی دنیا پر کرونا وائرس کے اثرات

دسمبر 2019 میں چین کے شہر وہان سے ایک وباء جس کو کرونا وائرس کہا گیا نمودارہوا۔ جسے سائنسدانوں نے بعد میں COVID-19 کا نام دیا۔ یہ وائرس انتہائی خطرناک ثابت ہوا جس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ یہ وائرس دن بدن پھیلتا گیا اور آہستہ آہستہ اس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا یہ وائرس 198 ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس وائرس نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

کرونا وائرس کی ابتداء چین سے ہوئی ۔جس نے چین کے شہر وہان میں کافی لوگوں کی جان لی۔اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں ٹوٹل کیسسز کی تعداد89378 ہیں اور اموات 4636 ہوگئے ہیں اور جس میں سے 82940 صحتیاب ہوئے ہیں اور جن کی صورت حال بہت خراب ہیں ان کی تعداد50 ہیں۔

اسی طرح آہستہ آہستہ پور ی دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ چین کی حکومت نے 76 دن کے لاک ڈاؤن کے بعد اس وباء یعنی کرونا وائرس پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔اور وہ اب کافی حد تک حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ لیکن چین کے بعد امریکہ ،سپین،اٹلی ،انگلینڈ،فرانس، جرمنی، روس، ترکی،برازیل اور بہت سے ممالک جو سہر فہرست ہے ۔

دنیا میں ٹوٹل کرونا وائرس کے کیسسز
جن ممالک میں کرونا وائرس نے تباہی مچا دی ہے۔یہ سارے ممالک اس وائرس سے لڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کو لوگوں کی جان بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔اس وائرس سے نپٹنے کے لیے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کردیا گیا اور حالاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے لڑنے کے لیے پوری دنیا میں وقتاًفوقتاً لاک ڈاؤن میں مزید اضافہ کر دیا گیا تا کہ حالات بہتر ہو سکیں۔

حالات بدتر سے بدتر ہوتے گئے۔ کیونکہ اس وائرس کی کوئی ویکسی نیشن فی الحال تیار نہیں کی جا سکی اور نہ ہی کسی ملک کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں ٹوٹل کیسسز کی تعداد26 Millions ہیں اور اموات 447000ہوگئے ہیں اور جس میں سے 16 Millions صحتیاب ہوئے ہیں اور جن کی صورت حال بہت خراب ہیں ان کی تعداد24963 ہیں۔

اسی طرح سپین میں ٹوٹل کیسسز کی تعداد 283047 ہیں اور اموات 58319 ہوگئے ہیں اور جس میں سے 7015 صحتیاب ہوئے ہیں اور جن کی صورت حال بہت خراب ہیں ان کی تعداد4723 ہیں۔ اسی طرح تیسرے نمبر پر اٹلی ہے جس میں ٹوٹل کیسسز کی تعداد 2.53 Millions ہیں اور اموات 87858 ہوگئے ہیں اور جس میں سے 1.97 Millions صحتیاب ہوئے ہیں اور جن کی صورت حال بہت خراب ہیں ان کی تعداد 2270 ہیں۔

اسی طرح باقی ممالک کے اعدادوشمار بھی دن بدن زیادہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ٹوٹل کیسسز کی تعداد 808446181 ہیں جس میں سے اس وقت جن کی حالت خطرناک ہیں ان کی تعداد103103 ہیں اور اموات 1762319 ہوگئے ہیں اور جس میں سے 56619736 صحتیاب ہوئے ہیں۔

اس وقت دنیا میں ٹوٹل کرونا وائرس کے کیسسز کی تعداد 76691318 ہیں اور اموات 2219064 ہوگئے ہیں اور جس میں سے 74472254 صحتیاب ہوئے ہیں جن کی صورت حال بہت خراب ہیں ان کی تعداد 109021 ہیں۔ اسی طرح موجودہ حالات کے پیشِ نظر پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی حالات اور کاروبار بھی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جس سے چھوٹے آبادی والے ممالک جن کی معشیت اتنی مظبوط نہیں ہے سب سے زیادہ فرق ان ممالک کو پڑا ہے۔

جس سے ان ممالک کی عوام پر بھی بہت بُرا اثر پڑا ہے ۔کاروبار اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بھوک کے لالے پڑ گئے ہیں اور لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ اسی طرح بڑے ممالک کی بھی معشیت کو بہت بُرا اثر پڑا ہے ۔اسی طرح دوسرے ممالک میں مقیم اوور سیز یعنی غیر ممالک کے لوگوں کو اُن ممالک میں اس وقت بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ کاروبار اور ملازمت کے مواقعے مہیا نہیں ہیں ۔ جس سے ان کے حالاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور وہ اپنے اپنے ممالک کو واپس جانے کے لیے بھی اُن ممالک کی حکومت سے اپیل کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے ملک واپس جا سکے اور اپنی زندگی گزار سکے۔

لیکن اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس سے لڑ رہے ہیں اور اس کی ویکسی نیشن تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کے سائنسدان اس وائرس سے لڑنے کے لیے ویکسی نیشن تیار کرنے اور مختلف تجربات کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اس وائرس سے لڑنے کے لیے دواء جلد از جلد بنائی جا سکے تاکہ ساری دنیا کو اس جیسی خطرناک وباء جو کے نظر بھی نہیں آتا ہے سے لڑا جا سکے اور پوری دنیا پھر سے پہلے جیسے حالات پر آ سکے۔اور پوری دنیا واپس نارمل حالات پر آ سکے اور پھر سے پوری دنیا واپس اپنے آمدورفت اور کاروبار شروع کر سکے اور پوری دنیا کی معشیت پھر سے بہتر ہو سکے۔ ساری دنیا کے ممالک اور ان کی عوام ایک بار پھر سے خوشحال زندگی گزار سکے۔ انشاء اللہ

Rana Umar Asghar
About the Author: Rana Umar Asghar Read More Articles by Rana Umar Asghar: 3 Articles with 2948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.