آج کل ہر چیز جو ہمیں مین اسٹریم میڈیاپر نظر آتی ہے، وہ
سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے۔ ایک ویڈیوسے کوئی منٹوں میں پوری دنیا میں
وائرل ہوجاتا ہے۔ نوجوان نسل کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے دور کرکے انہیں کام
کاج سے ہاتھ کھینچنے پر لگادیا ہے۔ آج کل کے پڑھے لکھے اور ان پڑھ بچے
بجائے خودداری اور محنت سے روزگار کمانے کے سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک اور سنیک
ویڈیو سے پیسے کمانے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں بتانے والا کوئی نہیں ہے
کہ ایسی کمپنیوں کے مقاصد کیا ہیں اور انہوں نے ان ہنر مندبچوں کو ’’مفت کی
لیبر ‘‘ سمجھ لیا ہے اور وہ ان کوایک عضومعطل بناناچاہتے ہیں۔ ان سے مفت کا
وقت اور پیسا لے کر ان سے لاکھوں کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ میری حیرت کی
انتہااسو قت جواب دے گئی، جب مجھے میرے ماموں نے بتایا کہ ان کا تیرہ سالہ
بیٹا نیا موبائل لینے کی ضد کررہا ہے۔ جب میں نے ماموں سے پوچھا کہ بچے کی
فرمائش کیا ہے اور وہ کس طرح کا موبائل لینا چاہتا ہے توجواب سن کر پاؤں کے
نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بچے کا کہناتھا کہ اس کو ایسا موبائل
چاہیے، جس کی ریم 6 جی بی اور میموری کم از کم128 جی بی ہواور وجہ یہ بتائی
کہ میں اس میں اسنیک ویڈیو ایپ ڈاؤنلوڈ کرکے اس سے پیسے کماؤں گا۔ اس لیے
کہ اس نے گاؤں کے اکثر لوگوں کو یہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے
کہ ہمارے مستقل کے معماروں کو شوسل میڈیا کے ذریعے کس بے دردی اور سفاکی سے
دربدر کیا جارہاہے۔ ایسے میں کوئی مستقبل کی روشنی کی امید کیسے جگاسکتاہے؟
ایسے واقعات جن سے ایک عام آدمی متاثر ہوتا ہے ان کے پیچھے شاطر اذہان
کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں کہ جنہیں اس ٹھگ بازی
کی بنیادی معلومات نہیں ہوتیں۔ جس کی وجہ سے وہ بیچارے ان کے قصے کہانیوں
میں پھنس جاتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی اب بہت حد تک سوشل میڈیاکا
سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا ان کے پلان بی میں شامل
ہوتاہے۔ پھر یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسے ممالک میں اپنے ڈیرے لگاتی ہیں
جہاں کے عوام ان پڑھ ہوں، کیوں کہ ان کے شیطانی کام کو کامیابی ایسے ہی کم
تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں مل سکتی ہے۔ یہ جانتے ہوتے ہیں کہ
ہمارے عزائم یہیں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ ان ممالک میں ڈیرے ڈال
لیتے ہیں اور وہاں کی اشرافیہ کو دولت کا لالچ دے کر ان کے فوٹو فریم
کرواتے ہیں۔ اشرافیہ کو تو پیسے سے مطلب ہوتاہے۔ ان کو عوام کے فائدے یا
نقصان سے کچھ غرض نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اشرافیہ کو آگے لگاکر عوام کو یہ باور
کرواتے ہیں کہ اگر اس ملک کے سیاست دانوں، بیوروکریسوں، سول سوسائیٹیز کے
نامور لوگوں اور سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے مشہور لوگوں کو اس کام
سے کوئی نقصان نہیں ہے اور وہ ہم پر اور ہماری کمپنی پر بھروسہ کرتے ہیں،
تو آپ بھی آیئے اور ہماری ٹیم میں شامل ہوکر اپنے مستقبل کو تابناک بنایے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ایک عام آدمی کو کھانے کے لالے پڑے ہوں اور اس
کو بنا ہاتھ پیر چلائے سہانے خواب دکھائے جائیں گے تو وہ سوائے حامی بھرنے
اور اپنی جمع پونجی دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔ سوشل میڈیا پر جب کوئی ویڈیو
وائرل ہوجاتی ہے تو اس وئرل ویڈیو کے اصل کنٹنٹ تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا
چینلوں کے مالکوں کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے۔ ہر ایک اپنی رائٹنگ اور
ویورز شپ بڑھانے کے چکر میں اس بندے کاانٹرویو کرکے سب سے پہلے اپنے سوشل
میڈیا چینل پر چڑھانے کے درپے ہوتا ہے۔ ایک ’’میراتھن ‘‘ لگ جاتی ہے۔ اس کو
میرا تھن کہنے کی وجہ واضح ہے کہ اس تالاب میں سب ننگے ہیں۔ اس میں کسی بھی
طرح سے انسانی ہمدردی، اخلاقی اقدار کی پاسداری، سماجی حدود و قیود کا خیال
بالکل بھی نہیں رکھا جاتا۔ سب کاایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کیسے اس سے مالی
مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس ویڈیومیں موجود حقائق کتنے تلخ ہوسکتے ہیں اور
سوشل میڈیاایکٹیوسٹ کتنا ہی لاکھوں کما رہے ہوں، نیکی کا جذبہ ویڈیو شوٹ
ہونے کے فوراََبعد رفوچکر ہوجاتاہے۔ اگلے مرحلے میں پھر وہ ویڈیو، تصاویر
مین اسٹریم میڈیا کے محققوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ یہاں بھی وہی الو
بیٹھاہوتاہے، جن کا مطمح نظر صرف اور صرف یہ ہوتاہے کہ اس سے ہمارے چینل کی
ریٹنگ میں اضافہ ہوگا، اس بات سے قطع نظر کہ آیا اس ویڈیویا تصاویر میں
موجود کنٹنٹ کا اصل مواد سے براہ راست کوئی تعلق ہے یا پھر غیر اخلاقی طور
پر پائریسی (غیرقانونی طریقے) سے مواد اپ لوڈ کیا گیاہے۔ ایسے حالات میں جب
اصل مواد تک کہانی پہنچتی ہے تو اس کو زور کا جھٹکا لگتا ہے اور بعض صورتوں
میں بات زندگی کے خاتمے اور موت کے دہانے تک پہنچ جاتی ہے۔
ایسے کئی واقعات موجود ہیں۔ لاہور میں ہونے والا واقعہ کئی ماہ بعد شول
میڈیا پر آیا۔ اگر قانون کی حکمرانی ہو اور عوام کے ہر طرح کے تحفظ کا مکمل
نظام موجود ہوتو لاہور ایسے واقعات رونما ہی نہ ہوں۔ اسی طرح سے ایک
ویڈیومیں دیکھا گیا کہ کسی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نے ایک اب نارمل(ذہنی
معذور) بچے کی کچھ تصویریں شوٹ کیں اور ان کواپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ڈال
دیا۔ چند گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور تصویروں پر اچھے برے تبصرے
کیے۔ تصاویر وائرل ہوتے ہوتے بچے کے سکول کے دوستوں تک پہنچ گئیں۔ اس بات
پردل برداشتہ ہوکر بچے نے خود کشی کرلی۔ بعض مرتبہ ویڈیویا تصاویرمیں موجود
شخص کو پتاہی نہیں ہوتا کہ اس کی کسی نے ویڈیوزیا تصاویر بنائی ہیں۔ یہ ایک
قسم کا خفیہ حملہ ہے جو ہم کسی کی ذاتی زندگی میں بغیر اجازت گھس کر کرتے
ہیں اور اس کے خطرناک نتائج بعض صورتوں میں بھیانک قسم کے سامنے آتے ہیں۔
ایسا مواد جس میں نوجوان نسل کو سستی تفریح مہیا کی گئی ہو یا کسی انسان کی
تضحیک کی گئی ہووہ سوشل میڈیا پرجلدی وائرل ہوجاتا ہے اور ایسی ویڈیوزبنانے
والے اس سے لاکھوں کمالیتے ہیں۔ مگر اس کی روک تھا کے لیے ہمیں سوشل میڈیا
پلیٹ فارمز پرقواعد و ضوابط پر عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی حکومت
اس طرف سنجیدہ نظر سے دیکھ رہی ہے۔ دیکھا جائے تویہ ساری سوشل میڈیا ویب
سائٹس ان ممالک سے چلائی جارہی ہیں جو انسانیت کے درد کے دعویدار اور حقوق
انسانی کے علمبردار کہلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہونے والے غیر انسانی حقوق
پر مبنی مواد اپلوڈ کرنے پر ان کمپنیوں کاپراسرارسکوت انسانی حقوق کے دعوؤں
پرکیاشکوک پیدا نہیں کرتاہے؟
|