ایک طائرانہ اور سرسری نگاہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے
موجودہ احوال پر ڈالی جائے ، برما ہو یا شام ، فلسطین ہو یا افغانستان ،
افریقہ یا امریکہ ، عراق ہو یا یمن ، ہر ملک اور دنیا کے ہر خطہ میں مسلم
قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، پوراکرہ ارض مسلمانوں کے خون سے
رنگین کیا جارہا ہے ، دنیا کا یہ گھروندہ اور یہ سیارہ ارضی ہر طرف سے
مسلمانوں کی آہ وبکا اور چیخ و پکار سے گونج رہا ہے ، اس دورظلم و ستم میں
مسلمان کا خون سب سے آسان اور ارزاں ہوگیا ہے ، نیز دنیا کے کسی گوشہ سے
بھی مسلمانوں کی ہمدردی اور حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔ایک منظم
اور گہری سازش کے ساتھ دنیا کے ہر آباد خطہ میں امت مسلمہ کو نشانہ بنایا
جارہا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ تمام اقوام عالم نے کوئی ٹھوس اور انتہائی
خطرناک معاہدہ اور اتفاق کیا ہو،جس معاہدہ پر دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے
تک تمام طاقتیں عمل پیرا نظر آتی ہیں۔ امت مسلمہ کی جان و مال ، عزت و آبر
اور دینی و ملی تشخص سب داو پر ہیں ،مسلمانوں کے اقتصادی ذرائع بھی نشانہ
پر ہیں ، جان بھی خطرے میں ہے ، عزت وآبرو بھی پامالی کی دہلیز پر ہے اور
دین ومذہب تو اغیار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔تمام اقوام عالم
نے یک زبان ہو کر دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑدیا ہے ، جس
کی وجہ سے ہر جگہ کے مسلمان شک کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں ، نیز مذہبی اور
جنسی تشدد کے بھی شکار ہورہے ہیں۔ایک جانب مسلم امت کی پوری دنیا میں یہ
بدترین حالت ہے ، جس سے بالکل صاف اور واضح نظر آتا ہے کہ اس وقت سب سے
زیادہ پریشان ، مصیبت زدہ ، بدنام اور پسماندہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی
دوسری قوم نہیں ۔ جبکہ قرآن کریم اﷲ تعالی مسلمانوں کے حوالے سے ارشاد
فرماتا ہے : ’’ تم بہترین امت ہو ‘‘یعنی دنیا کی سب سے اچھی امت ہو
؛حالانکہ سب سے اچھی امت اسے کہتے جسے دنیا میں عز ت و احترام کی نگاہ سے
دیکھا جائے، دیگر اقوام جسے نمونہ بنائیں، اس کی پیروی کی جائے، اس کی
تہذیب کو اپنایا جائے نیز وہ ایسی امت ہو کہ خوش حالی کی زندگی گزارے ،
تمام طرح کی دنیاوی پریشانیوں سے مامون ومحفوظ ہو۔در اصل یہ جملہ کہ ’’ تم
بہترین امت ہو ‘‘اﷲ تبارک و تعالی کا دعوی محض نہیں ہے ، بلکہ اس کے ساتھ
اﷲ تعالی نے ’’ خیر امت ‘‘ کی علت اور اس کا سبب یا کہیے کہ اس کی شرط اور
وصف بھی بیان کیا ہے ، اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ امت میں یہ وصف باقی ہے
یا نہیں، ظاہر ہے کہ اگر اﷲ کی طرف سے بیان کردہ شرط امت میں باقی نہ ہو تو
یہ امت ’’مقام خیریت ‘‘پر کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ
اس امت کو اس دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ تمام انسانیت کی فکر لے
کر زندگی گزارے ،یہ کتنا ہمہ گیر مفہوم ہے اور اس چھوٹے سے جملہ میں اﷲ
تعالی نے کتنی بڑی ذمہ داری اس امت کے کاندھے پر ڈالی ہے ۔یہ مسلمہ حقیقت
ہے کہ دنیا کی تمام اقوام کی، زندگی کے تمام شعبوں میں خدمت اور راہنمائی
کرنا، تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ؛ لہذا اس سے یہ نتیجہ بآسانی نکلتا ہے کہ
مسلمانوں کو دنیا کے تمام مباح اور جائزعلوم و فنون میں مہارت حاصل کرنی
چاہیے ؛ کیوں کہ اس کے بغیر کسی کی خیر خواہی اور اس کی صحیح راہنمائی اور
نقصان سے اسے بچانا ممکن نہیں ،جب تک مسلمان تعلیم کے میدان میں نمایاں
مقام حاصل نہیں کریں گے ، وہ ’’ خیر امت‘‘ کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بارہویں صدی کے اواخر میں جب مسلمانوں نے تحقیق وتصنیف،
اجتہاد وحرکت اور نئی دریافتوں اور ایجادوں کی راہ چھوڑ دیا توتعطل کا شکار
ہوتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں مسلسل پسماندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ایک ترقی یافتہ قوم ہر میدان میں ذلیل وخوار ہوکر رہ گئی۔ ذرا ہم یاد کریں
کہ یہی وہ امت محمدؐیہ ہے جسے غلبے کے لیے پیدا کیا گیا تھا ،وہی امت وحدت
جس نے ایک طویل مدت تک اس دنیا پر حکمرانی کی تھی، جس کے وجود کا مقصد ہی
یہی تھا کہ اس دنیا میں اﷲ کے دین کو غالب کیا جائے،نظام شریعت کا نفاذ ہو
دنیا کا سارا نظام اسی کی ہدایت کے مطابق ہو، ایک ایسی امت جو اپنی ایک
شاندار تاریخ رکھتی تھی،جس کے پاس اپنے اسلاف واکابرین کے سنہرے اور قابل
عمل نمونے تھے، جس کا ڈنکا پورے عالم میں بج رہا تھا، اور جس کو اس عالم کے
اکثر حصے پر غلبہ حاصل تھا، اورجس کی فتوحات کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں
تھا،علامہ اقبال کے بقول
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
جس قوم کی حکومت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، جس نے ایسی ایسی عظیم
شخصیات جنم دیں کہ جنہوں نے اپنے کارناموں سے اس دنیا کو ترقی کی نئی نئی
شاہراہوں سے روشناس کرایا، اور جنہوں نے علم وفن کے ہر میدان میں بنیاد
رکھنے کا کام کیا، مثال کے طور پر ابن سینا ماہر طب وعظیم فلاسفر، البیرونی
ماہر علم نجوم وماہر ریاضی، فارابی ماہر فلسفی، جابر بن حیان ماہر علم
کیمیا (علم کیمیا کے بابا آدم)، میدان جہاد کے خالد بن ولید۔موسی بن نضیر
،سلطان صلاح الدین ایوبی محمد بن قاسم ،حسین احمد مدنی،شیخ الہند محمود حسن
دیوبندی وغیرہ یقیناًاسلامی تاریخ میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں ملتے ہیں
جنہوں نے مختلف علوم وفنون میں نہ صرف مہارت حاصل کی، بلکہ ایسے کارنامے
انجام دیئے کہ اْن سے آج بھی ایک دنیا مستفید ہورہی ہے، لیکن افسوس ہم اپنے
اسلاف کی اس میراث کی حفاظت میں ناکام رہے۔ آج یہ امت اس قدرغفلت کا شکار
ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، اورصورتحال یہ ہے کہ دن بہ دن یہ مزید
پسماندگی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔قوموں کا عروج وزوال قوم کے افراد پر منحصر
ہوتا ہے، جب کسی قوم کے افراد بیدار ہوتے ہیں تو وہ قوم ترقی کرتی ہے، اور
جب اس کے افراد غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں تو اس قوم کو بھی پسماندگی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امت مسلمہ کے زوال کے پیچھے بھی اس کے اپنے افراد
کاہاتھ ہے، ان میں چند ایسی خطرناک قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئیں جو اس کے
زوال کا سبب بن گئیں، یا جنہوں نے اس کے زوال کو بدترین صورتحال سے دوچار
کرنے کا کام کیا۔
|