بھکاریوں کا بڑھتا سونامی۔۔۔عوام کیلئے وبالِ جان

سہہ پہر، سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ میں یونیورسٹی سے گھر کی جانب روانہ تھی اسی دوران میری نظر سڑک کنارے کھڑے ایک ٹھیلے پر پڑی جس میں ایک کمسن بچی چادر میں لپٹی لیٹی ہوئی تھی اور اسکے ہمراہ ایک تندرست عورت تھی۔اس محل وقوع کا جائزہ لینے کیلئے نزدیک گئی تو میں نے دیکھا کہ اس بچی کے چہرے کا دائیاں گال بالکل صاف تھا اور بائیں گال پر غلاظت چپکی تھی جو بادی النظر مصنوعی نظر آرہی تھی۔ اس غلاظت پر مکھیاں بھنک رہی تھی جسکا اس بچی کو ہوش تک نہ تھا یہاں تک کہ کڑی دھوپ کا بھی نہیں، یوں سمجھ لیں کہ اسے نشہ آور چیز کِھلا کر یا سنگھا کر لیٹایا ہوا تھا۔ ساتھ کھڑی عورت جو خود کو اس بچی کی ماں متعارف کروا رہی تھی اس نے مجھ سے بناوٹی انداز میں بھیک مانگنا شروع کر دیا کہ میری بچی فلاں جلدی مرض کا شکار ہے علاج کروانا ہے پیسوں کی ضرورت ہے۔ یہ ماجرہ دیکھ کر مجھے انکی فریب کاری کا اندازہ ہو گیا۔ میں نے اس عورت سے ہمدردانہ لہجے میں بولا کہ قریب ہی ایک سرکاری ہسپتال ہے میں آپکو وہاں لے کر چلتی ہوں ایسے امراض کا علاج وہاں مفت کیا جاتا ہے۔ اس عورت کے چہرے کے رنگ بدلتے رہے اور بوکھلاہٹ میں کچھ بول نہ سکی۔ میں نے مزید اصرار کیا تو طیش میں آکر کہنے لگی " بی بی تجھے پیسے دینے ہے تو دے ورنہ چلی جا یہاں سے"۔ مزید غیر مہذبانہ زبان استعمال کرنے لگی۔ ایسے بیشتر واقعات میری نظروں سے روز گزرتے ہیں لیکن کمسن بچی کے ساتھ یہ ظلم دیکھ کر مجھے یہ موضوع قلم بند کرنا پڑا۔

گداگری جِسے علمِ معیشت میں معاشی لعنت کا نام سے جانا جاتا ہے پاکستان میں افراط اور تواتر کے ساتھ ایک پیشہ اختیار کر گئی ہے۔ اس پیشے میں لوگ جس بے غیرتی اور بے شرمی سے شامل ہوتے جا رہے ہیں ہر گلی, کوچہ, ٹرانسپورٹ اور بازار اسکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گداگری کو سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو "اپنی ناداری اور مفلسی کو عیاں کر کے اللہ، نبی اور انسانیت کے نام پر بھیک مانگنا ہے۔" گداگری ایک گھٹیا عاقلانہ معیار ہے، جس میں بھکاری اخلاقی اقدار کو سمجھنےسے قاصر، اسلامی نظم و ضبط کو اپنانے، قانون وقت کو تسلیم کرنے اور اپنانے میں اپاہج نظر آتے ہیں۔ انکی ہڈ حرامی کی سب سے بڑی نظیر یہ ہے کہ تندرست افزاء اور معتدل ذہنی صحت سے مالامال ہونے کے باوجود بھی معصوم عوام کو دل پگھلا دینے والی من گھڑت اور جھوٹی روداد سنا کر لوگوں کی جیبیں ہلکی کر کے روزانہ ہزاروں روپے ڈیاڑھی بنا لیتے ہیں۔

پاکستان کے باقی شہروں اور قصبوں کی طرح یہی صورتحال میرے شہر کراچی کی بھی ہے۔ پہلے وقتوں میں چند ایک لاچار ضعیف، لاغر اور اپاہج افراد بھیک مانگ کر اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرتے دیکھائی دیتے تھے۔ لیکن اب جگہ جگہ کاہل الوجود، ہڈ حرام اور محنت سے جی چرانے والے مرد و زن اور بچے فریب کاری سے دکانوں، بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ، بس اسٹاپ، مساجد، گلیوں اور کوچوں میں اپنی دکان چمکائے ہوئے ہیں۔ ان بھکاریوں کے بھیک مانگنے کی نت نئے طریقوں کی ایجاد دن با دن عروج پر ہے، مثلاً آوازیں لگانا، مہلک بیماری کا شکار بتلانا، بال بچوں کا واسطہ دینا، بے بنیاد دعائیں دینا، مصنوعی معذوری کا ڈھونگ رچانا، گانا بجانا کرنا، جالی دوائیوں اور ٹیسٹوں کی رسیدیں دکھانا، کمسن بچوں کے جسم پر مصنوعی غلاظت چپکانا( بظاہر وہ زخمی یا مہلک جلدی مرض کا شکار نظر آئیں) ، غربت و افلاس کی رٹی رٹائی کہانیاں سنانا اور یہاں تک کہ قدموں میں گر کر اپنے ایمان، اخلاقیات اور انا کا خون کر دیتے ہیں۔ انکا حلیہ ہی انکے مکروہ دھندے کو چھپا لیتا ہے۔

مسئلہ کو حل کرنے سے قبل اسکی جڑوں میں اتر کر وجوہات جاننا ضروری ہے۔ میرے ادراک و شعور کے مطابق گداگری غربت، افلاس،بے روزگاری، جسمانی و ذہنی معذوری اور محنت سے جان چھڑانے کی وجہ سے ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ جب اس دھندے میں آنا شروع ہوتے ہیں تو معاشرے میں بے حسی کو بڑھا کر غیرت و حمیت کو ختم کردیتے ہیں۔ اگر چہ انہیں بھیک نہ ملے تو محنت کے بجائے چھوٹی بڑی وارداتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور کئی منظم گروہ معذور بچوں اور اغواء شدہ بچوں سے جبراً بھیک منگواتے ہیں۔

گداگری کا اسلامی رو سے جائزہ لیا جائے تو اسلام میں گداگری کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ، "اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے"۔ قرآن کریم میں محنت سے کما کر کھانے والوں کو اللّٰہ کا دوست کہا گیا ہے۔ حضرت شاہ امام احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ، "قوی، تندرست اور قابل کسب جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ایسے کو دینا گناہ ہے، انکا بھیک مانگنا بھی حرام ہے اور جو ان کو حرام کام میں مدد کرتا ہے یہ بھی حرام ہے انکو بھیک نہ دی جائے تو یہ کوئی حلال پیشہ اختیار کر لیں گے".

اس بحث میں، عوام کا ایک طبقہ یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ اس مہنگائی میں کم آمدنی میں گزارا کرنا مشکل ہے۔ اسلئے گداگری کی شرح بے لگام ہے۔حدیث نبوی ہے کہ، جو شخص مال بڑھانے کیلئے بھیک مانگے تو وہ خود کیلئےیے انگارے مانگ رہا ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔" اگر کم وسائل میں آپکے مسائل حل نہیں ہو رہے تو اپنی ضروریات اور گنجائش میں ہم آہنگی پیدا کر لیں اور پاک مال کو فوقیت دیں۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسروں کے مال پر نظر رکھنے کے بجائے خود رزقِ حلال کمائے، نبیً نے ارشاد فرمایا: "مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی رسّی لے کر پہاڑ کی طرف جائے پھر لکڑیاں اکٹھی کرے اور ان کا گٹھا بنا کر اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں لے جائے اور انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت سے اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے تو یہ اس کیلئے بھیک مانگنے سے بدرجہا بہتر ہے اور یہ مٹّی لے کر اپنا منہ بھرلے تو اس کیلئے اس سے بہتر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالٰی نے حرام کیا ہے اسے اپنے منہ میں ڈالے۔ " اگر بنیادی ضروریات کھانے پینے , دوا کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو کراچی میں بہت سی ایسی NGO اور فلاحی ادارے سرگرم ہیں جو نادار خاندانوں کو راشن تقسیم کرتے ہے، مزید یہ کہ سرکاری ہسپتال مفت اور بہترین علاج مہیا کرتی ہیں۔

اس تصویر کے دوسرے رخ کو بھی سامنے لانا چاہوں گی، گداگری میں ہمارے ذمے داران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ چوراہوں پر بھکاریوں کو ٹھکانے باقاعدہ ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں۔ پولیس اور باقی ذمہ داران باقاعدگی سے رقم وصول کرتے ہیں۔ شہروں اور قصبوں میں تیزی سے پھیلتا بھکاریوں کا اتوار بازار ہمارے ملک کیلئے ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔ اس معاشی انتشار کی وجہ سے جرائم کی شرح میں فکر انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ انکے گروہ گھروں اور علاقوں کی انکوائریاں اور وارداتیں کرنے کیلئے بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کئی واقعات تو ایسے بھی رپورٹ ہوئے کہ بھکاری پانی پینے یا اشیاء خوردونوش مانگنے کے واسطے گھروں میں گھس آتے ہیں اور خواتین کو اکیلا دیکھ کر قیمتی چیزوں کا صفایا کر جاتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی انکے گروہ جیب کتری کرنے سے بعض نہیں رہتے۔ بیشتر بھکاری نشہ خریدنے کے واسطے بھیک مانگتے ہیں۔یہ آپ سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔ انکے خاندان در خاندان اسی پیشے سے منسلک ہوتے ہیں۔ انکے بچے چلنے قابل ہوتے ہی ہیں کہ یہ انکو بھیک مانگنے لگس دیتے ہیں۔ان پیشہ ور بھکاریوں کی شناخت یہ ہے کہ انہیں راشن فراہمی اور علاج و ادویات کی سہولیات مہیا کرنے کی پیشکش کی جائے تو فوراً کیش مانگتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی لاغر فقیروں کو مخصوص وقت پر اپنے ٹھکانوں پر آتے جاتے نہیں دیکھا؟۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جسمانی معذوری کے باوجود وہ کیسے حرکت کر سکتے ہیں؟ اسکے پیچھے انکی منظم مافیہ کا ہاتھ ہوتا ہے جو انہیں وقت پر پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کرتی ہے۔

کسی مسئلے کا حل تب نکلتا ہے جب ہم اسکے سارے گوشوں اور پہلؤوں کو سمجھیں اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر کُھل کر بات کی جائے لیکن ہم نے اپنے آل و اولاد کے صدقہ کیلئے آسان اور سستا ذریعہ ان پیشہ ور بھکاریوں کو بنا لیا ہے۔ کچھ لوگوں کا اس موضوع پر یہ بیانیہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر کوئی ناحق بھی ہم سے بھیک مانگے تو ہمیں اسے دے دینا چاہیے کیونکہ ہمیں بھی کہیں نہ کہیں سے ناحق مل رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک میں اب تک شمار کیا جاتا ہے۔ یہ باتیں محض دل بہلانے کے لیے کافی ہے اور اس المیہ کی چشمِ پوشی اور اسے غلط تسلیم کرنے سے گریز ہی ہے کہ ٢٠٢٠ کے عنوان سے شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، پاکستان میں ٢٥ ملین سے زائد گداگر پائے جاتے ہیں جس سے ہماری ملکی معیشت خسارے کا شکار ہے۔ اگر یہی افراد کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کر چھوٹا بڑا کام کر کے جائز ذرائع سے پیسہ کمائے تو پاکستان کیGDP قابل قبول حد تک بڑھ سکتی ہے۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کو پیسے دینا ملکی معیشت کے پیروں تلے کھدائی کرنے کے مترادف ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جو اللّٰہ کے نام پر بھیک مانگے اسے انکار نہ کرو۔ ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد آکر آپ سے بولے اللّٰہ کے نام پر بھیک دے دو مجھے اس سے ٹی ٹی خرید کے موبائل فونز چھین کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے تو کیا آپ اسے بھی اللّٰہ کے نام پر بھیک دے دیں گے؟ اللّٰہ نبی کا واسطہ ہی ہے کہ اب ہر جگہ بھکاریوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں۔

اب سوال یہاں یہ جنم لیتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ کونسا شخص ضرورت مند ہے اور کون پیشہ ور گداگر ہے؟ گداگر کو پیسے دینا قابل ترس عمل نہیں بلکہ بمطابق شریعت حرام ہے۔ بلا شبہ صدقہ خیرات عذاب قبر سے نجات کا ذریعہ ہے، آخرت کو سنوارتا ہے اور روز محشر میں سایا دینے کے ساتھ ساتھ بری موت سے بھی بچاتا ہے۔ اسکا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ صدقہ و خیرات غیر مستحق اور ہٹے کٹے پیشہ ور بھکاریوں کو دیں۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ، صدقہ خیرات دینے کیلئے سب سے پہلے عزیز واقارب اور اردگرد ضرورت مند سفید پوش لوگوں کو ڈھونڈے کیونکہ اسلامی تعلیمات چراغ تلے اندھیرے والے فلاحی کارناموں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔

حکومتی سطح پر غریب خانے بنانے جائیں تاکہ انہیں وہاں بنیادی ضروریات زندگی مہیا کی جائے اور انہیں ہنر سکھایا جائے تاکہ ان میں محنت مشقت کر کے پیٹ بھرنے کی عادت ڈالی جائے۔ محتاج افراد کو ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے جبکہ صحت مند لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے. پیشہ ور بھکاریوں، انکے پس پردہ مافیہ اور ٹھیکے داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ مزید یہ کہ گداگری جیسے مکروہ دھندے کو ختم کرنے کے لیے قانون دانوں اور اعلیٰ حکام کو اسکے خلاف سخت قانون بنانا چاہیے۔ آیک اسپیشل ہیلپ لائن کا انعقاد کیا جائے کہ جہاں کسی کا پیشہ ور بھکاری سے واسطہ پڑے تو فوری طور پر اطلاع کر کے انکے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اس ناسور کے خاتمے کیلئے آگاہی مہم، ہماری زندگیوں پر بڑا مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

گداگری کو ہم سب مل کر ہی ختم کر سکتے ہیں کیونکہ ترس کھا کر بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی بلکہ اسکو فروغ ملتا ہے۔ حضور اکرم ٌ نے فرمایا کہ پاک کمائی وہ ہے "جس میں دھوکہ نہ ہو اور اپنی ہاتھ کی کمائی ہو"۔ اللّٰہ ہمیں اپنے ہاتھ کی حلال کمائی کی ہمت دیں۔ آمین!!!

 

Zarmeen Yousuf Khan
About the Author: Zarmeen Yousuf Khan Read More Articles by Zarmeen Yousuf Khan: 11 Articles with 13103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.