انسان بھی کیا چیزہے۔نکی جی گل سے خوش بھی ہو جاتا ہے اور
معمولی بات سے صدمے میں بھی چلا جاتا ہے خوشی کوشش سیملنی اب ممکن ہے یا
نہیں سوال اپنی جگہ موجود ہے خوشی کی انتہاء بھی دید کے قابل ہوتی ہے شہر
راولاکوٹ میں کون خوش ہے ملین ڈالر کا سوال ہے اس شہر کی اپنی تاریخ ہے
اکثریت اس تاریخ کو ہی تعریف بناے ہے لیکن ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اس
شہر کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اس شہر سے نفرت اور پیار اپنی اپنی جوازیت
بھرپور طریقہ سے رکھے ہے تاریخ اور تحریک کا محرک یہ شہر میرے نزدیک اب بھی
قصبہ ہے بلاشبہ یعقوب خان کے دور میں یہ بگ سٹی بن چکا اس کے لوگوں کی
اکثریت تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت ساری اخلاقی اقدار سے دور ہے اس شہر
کی گندگی یہاں کے زمہ داروں کی نااہلی کو بے نقاب کرنے کافی ہے یہاں پیدل
چلنے والا سڑک چھوڑنے تیار نہیں گاڈی والے کے نزدیک وہ سڑک سے فٹ پاتھ سب
کا وارث ہوتا ہے یہاں ڈراہیونگ کا کوی اصول نہیں یورپ یا عرب ملکوں سے آیا
محنت کش اگر کسی اصول سے ڈراہیونگ کر رہا ہے اس کا کریڈٹ کابھی ان ملکوں کو
جاتا ہے اس شہر میں بے ہنگم ٹریفک کو دیکھ کر دل خون کے آنسو برسوں روتا
رہا یہاں مسعودالر حمان جیسے آفیسر بھی رہے تو عمر اعظم جیسے مقامی بھی
لیکن شہر شہر نہ بن سکا کھچ کھیل ہی رہی رمضان میں معمولی سا عوام دوست
ٹریفک بنتا لیکن عید کے ساتھ ہی وہ بھی وجودکھو دیتا رکشے آے تو اخلاقیات
کا جنازہ نکل گیا رجسٹریشن بناء رکشے عزاب بن گے گوال گدروں کے لیے رکشے
جنت ک ٹکٹ بن گے ٹریفک کے بڑے بحران کا باعث اب تک رکشے رہے ایسے میں آج جب
میں شہر داخل ہوا بڑاعجیب منظر تھا کچہری چوک سے قصای گلی چوک تک مکمل صفای
تھی سڑک سچے زمانوں کے بیڑے جیسی صاف تھی حیران کن منظر تھا اخبار چوک کے
ساتھ راولاکوٹ انجمن تاجران کے صدر اپنی کھڑی گاڑی ہٹا کر شہر سے باہر لے
گے قانون پر عمل کا متاثر کن منظر تھا بعد ازاں معلوم ہوا کہ سارے شہر میں
آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک مستقل ایسا ہی رہے گا اگر یہ عمل مستقل ہو گیا
تو راولاکوٹ میں پیدل چلنے والوں کی مشکلات ختم ہو جاہیں گی ٹریفک بھی جام
نہ رہے گی مسافر بھی ٹریفک میں پھنس کر زلیل نہ ہونگے اس کا کریڈٹ کمشنر
انصر یعقوب اور ڈی آی جی راشد نعیم کو جاے گا ڈی آی جی کا اپنا گھر ہے تو
کمشنر کا گھر سسرال ننھیال سب ہی راولاکوٹ ہے ان کا اقدام میاں داد کے چھکے
کی مانند سب پر بھاری رہے گا شہر میں ریڑھیوں کے لیے بھی ایک بازار آباد
کرنا ہوگا بہتر ہے مقبول بٹ شہید چوک کے ساتھ کھڑک اڈہ پر پی ڈی اے کے پلاٹ
پر پہلے لگنے والے بازار کی جگہ ہی ریڑھی بازار لگایا جاے رکشوں کی
رجسٹریشن کی جاے راولاکوٹ کے تین حلقوں سے باہر سے جس رکشہ کا مالک ہو اس
کو آبای شہر بھیجا جاے راولاکوٹ میں ضرورت سے زیادہ رکشے موجود ہیں جس کی
منطق نہیں پراہیوہٹ پارکنگ کے لیے بڑی مسجد کے ساتھ جگہ مختص کی جاے نالہ
بازار میں مختص جگہ کو قانونی شکل دی جاے سپلای بازار میں پارکنگ مستقل کی
جاے باہمی مشاورت سے شہر کے چاروں اطراف پارکنگ مراکز بنانے سے شہر مکمل
ٹریفک بحران سے نجات لے گا سابق صدر یعقوب خان اور سٹی ممبر اسمبلی حسن
ابراہیم کو کھل کر انتظامیہ کا ساتھ دینا ہوگا اور تاجروں اور ٹرانسپورٹروں
کو اس منصوبے کا ساتھ دینے ہم آواز بنانا ہوگا بڑی تباہی سے بچنے عوامی طور
پر لاحہ عمل بنا نا ہوگا کہ خواتین بھی بغیر محرم بازار نہ آہیں اس ماحول
کو بنانے مولویوں کو مساجد مرکز بنا کر لوگ تیار کرنے ہونگے اب راولاکوٹ کے
ہر فرد کو اپنی زمہ داری نبھانا ہو گا صابر شہید سٹیڈیم سے پاہلیٹ ہای سکول
کی اجارہ داری کو ختم کروانا ہوگا دو بجے کے بعد گیٹ کھولوا کر عام لوگوں
کو کھیلنے کی اجازت دینا ہوگی پوسٹ گریجوہٹ کالج کے گراونڈ میں چھٹی کے بعد
کھیل کی شروعات کروانا ہونگی والی بال سے کرکٹ اور فٹبال سے ہاکی کھوے وقار
کو واپس بحال کر وا کرراولاکوٹ کو واپس کھیلوں کا مرکز بنانا ہوگا انصر
یعقوب اور راشد نعیم کو آگے بڑھ کر ٹریفک بحران پر قابو پانے کے جرات
مندانہ اقدام کے ساتھ تاجروں سے مشاورت کر کے ان کے لیے بھی قابل عمل ضابطہ
بنوانا ہوگا ہر تاجر کو اس بات کا ہی اگر پابند کیا جا سکے کہ وہ گندگی
دکان کے آگے نہیں قریب لگی بلدیہ کی ڈسٹ بین جا کر کوڑا کرکٹ پھینک آے بڑی
تبدیلی ہوگی حرف آخر یہ کہ بڑی مدت سے ترستے مجھ نکمے کو دلی خوشی بس اس
نکی جی گل سے ملی کہ شہر میں قانون کی حکمرانی سامنے آی ثابت یہ بھی ہوا کہ
افراد کوی معنی نہیں رکھتے بلکہ قانون سب کچھ ہوتا ہے راشد نعیم اور انصر
یعقوب جیسے سدھے سادھے سمجھے جانے والے آفیسران نے وہ کر دکھایا جو بہت
سارے اوروں کی خواہش ضرور تھی مگر مصلحت پسندی سے وہ ایسا نہ کرسکے تاریخ
کا دھارا بدلنے کی بنیاد رکھ کر راولاکوٹ کو واقعی شہر بنانے کی طرف گامزن
کرنے پر میرا ہر دو آفیسران کو سلام
|