|
|
ہمارے معاشرے میں بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے والدین کا آخری
جملہ یہی ہوتا ہے کہ بیٹا ڈولی میں بیٹھ کر جارہی ہو اب اس گھر سے تمھارا
جنازہ ہی نکلنا چاہیے- اس وجہ سے اکثر لڑکیوں کو اپنے سسرال میں جتنے بھی
مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس کا مقابلہ اس خیال سے کرتی ہے کہ
اس کی رخصتی کے ساتھ ہی اس کے میکے کے دروازے اس کے لیے بند ہو جاتے ہیں- |
|
اس کے ساتھ اگر ایک دو بچے ہو جائیں تو پھر بیٹی واپسی کا سوچ کر اس لیے
بھی رک جاتی ہے کہ اس کے والدین اس کو تو رکھ لیں گے مگر اس کے بچوں کی
پرورش کی ذمہ داری ان کے فرائض میں شامل نہیں ان کے لیے بوجھ بن جائے گی-
اس وجہ سے وہ تمام ظلم و ستم خاموشی کے ساتھ سہتی رہتی ہے- |
|
ان خیالات کا اظہار فردوس فاطمہ نامی ایک کم عمر لڑکی اپنی زندگی کی داستان
بیان کرتے ہوئے کیا اس کا کہنا تھا کہ میرے والدین نے میری بیس سال پرورش
کی اس کے بعد یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان کے بچوں کو بھی پالیں- |
|
|
|
اس وجہ سے جب ان کے شوہر کے ساتھ گھریلو اختلافات ہوئے
تو انہوں نے شوہر سےعلیحدگی کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ اپنے
والدین اور بھائیوں کے اوپر بوجھ نہیں بنیں گی اور اپنے دونوں بچوں کی
پرورش اپنے طور پر کریں گی- |
|
وہ گزشتہ دو سالوں سے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر
چکی ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ شوہر کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ایونٹ
پلاننگ کا کام اس وقت شروع کیا تھا جب ان کا بیٹا صرف ایک سال کا تھا۔ اسی
دوران ان کی دوسری بیٹی کی پیدائش بھی ہوئی۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد انہوں
نے اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اپنی محنت کا سلسلہ جاری رکھا- |
|
اپنے کام کے سلسلے میں ان کے مطابق سب سے زیادہ دشواری
ان کو ٹرانسپورٹ کی تھی کیوں کہ رات دیر گئے تک انہیں کام کے سلسلے میں
مختلف جگہوں پر جانا پڑتا تھا اس کے حل کے طور پر انہوں نے ایک اسکوٹی خرید
لی- |
|
|
|
ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مکمل پردے اور حجاب کے
باوجود لوگ ان کو اتنی حیرت سے دیکھتے تھے جیسے وہ کسی اور خطہ کی مخلوق
ہیں- کچھ افراد نے تو نہ صرف زبانی ہوٹنگ کی بلکہ دو سے تین دفعہ ان کو
اپنی بائک سے ہٹ بھی کیا مگر لوگوں کی مخالفت نے ان کے ارادے کو کمزور نہیں
ہونے دیا اور ہر بار گرنے کے بعد وہ مزید مضبوط ارادے سے کھڑی ہوئیں- |
|
ان کی خواہش ہے کہ وہ بچوں کو نہ صرف اعلی تعلیم دلائیں
بلکہ ان کی تربیت بھی اس طرح سے کریں کہ وہ معاشرے میں اس حقیقت کو تسلیم
کر سکیں کہ ایک تنہا عورت بھی بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کر سکتی ہے- |