"اگر کسی قوم کو غلام بنانا ہو تو اس سے تعلیم چھین لی جائے یا اسکے تعلیمی
نظام کو فرسودہ حال بنا دیا جائے"۔ جو قومیں تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہیں
وہ اقوام عالم میں اپنا مقام نہیں بنا سکتیں. انکے عروج و زوال کا سبب
تعلیم ہی ہوتی ہے۔ ہمارے سدھار اور بگاڑ میں تعلیم کا بڑا دخل ہے۔ تعلیم ہی
زیور تہذیب و تمدن سےآراستہ کرتی ہے. دہشت گردی اور انتشار بھی تعلیم کے
فقدان کا نتیجہ ہے۔فرد جب فکری سرمایہ سے خالی ہو جاتا ہے تو گمراہ کن
افکار نئی نسل کے ذہنوں میں بس جاتی ہیں۔
کورونا وائرس ٢٠١٩ کے آخری ماہ میں چین کے ایک شہر "وہان" سے شروع ہوا اور
یکا یک اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں پہلا کیس ٢٦
فروری ٢٠٢٠ کراچی میں رپورٹ ہوا۔ یہ وبا تیزی سے پھیلتی گئی اور اس بگڑتی
صورتحال کو دیکھتے ہوئے رفتہ رفتہ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
دنیا بھر میں جلسے جلوس، ریلیوں اور محفلوں پر پابندی لگا دی گئی۔ جبکہ
پبلک ٹرانسپورٹ، بازاروں، تعلیمی اداروں ،ہوٹلوں، تفریحی مقامات، شادی
ہالز، عبادت گاہوں کو یکے بعد دیگرے بند کردیا گیا۔ اس عالمی بحران نے
زندگی کی تمام تر مصروفیات کو مفلوج کر کہ انسان کو گھر کے کمرے تک محدود
کر دیا۔ اس عالم گیر وبا نے دنیا بھر کی معشیت اور معمولات زندگی کو شدید
متاثر کیا اور ساتھ ہی بہت سی قیمتی جانیں بھی نگل گیا۔ چونکہ یہ حالات
آزمائش اور تکالیف سے بھرے تھے اسلئے ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کے سامنے
بے بس نظر آئے۔
کورونا کے وبائی دور، مارچ ٢٠٢٠ میں جب تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو کہاں
گیا یکم اپریل سے دوبارہ کھول دیئے جائیں گے، لیکن کرونا کہ بڑھتے ہوئے
حملوں کی وجہ سے ایسا ممکن نا ہو سکا. لاک ڈاؤن نے نہ صرف اقتصادی نظام کی
کمر توڑدی بلکہ تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کا بھی پہیہ جام کردیا۔ جس نے
طلباء کی "تعلیم" اور "علم" میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کردیا۔ لاک ڈائون کے
بعد آن لائن تعلیم کی منظوری دی گئی کہ گیجٹس اور انٹرنیٹ کے ذریعے گھر
بیٹھ کر بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں اور پھر گوگل کلاس روم
اور زوم ایپ نے طلباء کو گھنٹوں اسکرینز کے سامنے بٹھا کر پڑھانا شروع کر
دیا۔
آئن لائن تعلیم ایک نیا رجحان ہے۔ مٹھی بھر نجی اسکولوں نے آن لائن تعلیمی
طریقہ اپنایا البتہ کم آمدن والے نجی اور گورنمنٹ تعلیمی اداروں نے انٹرنیٹ
اور گیجٹس تک رسائی نہ ہونے کے باعث آنلائن تعلیم اپنانے میں سست روی سے
کام لیا۔ اس تعلیمی بحران نے نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ اور والدین پر بھی
منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ آدھے سے زیادہ بچے تو اس کو سمجھ ہی نا سکے۔ جنہوں
نے کچھ سمجھا ان میں سے اکثر ایسے علاقوں میں رہتے جہاں انٹرنیٹ آتا نہیں
یا آتا ہے تو بہت ہی کم۔ باقی جن بچوں کہ پاس انٹرنیٹ کی رفتار اچھی تھی وہ
کلاس میں خود کو اندراج کر کہ ایک دوسرے کے ساتھ میسجز میں لگ جاتے تھے تو
کچھ بچے کلاس جوائن کر کہ نیندیں پوری کرتے تھے۔ تقریباً پورا نظام تعلیم
بربادی کا شکار ہے۔ البتہ؛ سب سے زیادہ اس وبا سے جو نظام متاثر ہوا وہ
نظام تعلیم ہے . گھروں میں بچے کتابوں سے دور ہیں اور جو سبق یاد کیا تھا
وہ بھی بھول گئے اور اسکول جانے کا اب اکثر طلبہ کا دل نہیں کر رہا.
آن لائن تعلیم کا آغاز تو کر دیا گیا مگر اس کے لئے مطلوبہ سہولیات کا
جائزہ نہیں لیا۔ آنلائن تعلیم کے لیے کوئی مضبوط اور تسلی بخش لائحۂ عمل
نہیں ہے اداروں کے پاس بچوں کے لیے کوئی ایسا طریقۂ تعلیم و تربیت نہیں ہے
جس کے ذریعہ بچوں کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی لگاؤ پیداکیا جاسکے۔ بغیر کسی
منصوبہ بندی اور نگرانی کے آنلائن تعلیم کا آغاز کر کہ تعلیم کا مذاق اڑایا
گیا۔ نہ انٹرنیٹ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور نہ ہی یہ دیکھا گیا کہ کس
قدر مضبوط اور توانا سگنل والا انٹرنیٹ میسر ہے اور کن علاقوں میں یہ سہولت
میسر نہیں؟ ان سب دشواریوں کے سبب غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور کم عمر طلباء
انٹرنیٹ پر عبور نہ رکھنے، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی اور کمزور سگنلز کی وجہ
سے آنلائن تعلیم سے استفادہ حاصل نہیں کر سکے جبکہ اساتذہ اپنے فرائض احسن
طریقے سے انجام دینے میں تقریباً ناکام رہے۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں سے
تعلق رکھنے والے طلباء بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ آن لائن تعلیم کے آغاز کے
ساتھ ہی یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ طلباء کے لئے انٹرنیٹ پیکج متعارف
کروائے جائیں۔ اس مطالبے کو بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
ایک سروے کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ سنجیدہ طلباء کی اکثریت آن لائن
تعلیم سے مطمئن نہیں ہے۔ عدم اطمینان کی ایک وجہ استاد کی کارکردگی
ہے۔اساتذہ کے لئے بھی آن لائن پڑھانے کا تجربہ نیا تھا۔ چند ایک تعلیمی
اداروں نے اپنے طور پر تربیت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ لیکن سرکاری تعلیمی
اداروں میں استاد کی نگرانی اور تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ جامعات
کے طلباء کو شکایات ہیں کہ بہت سے اساتذہ باقاعدگی سے لیکچر نہیں دیتے۔ اگر
کلاس لیتے بھی ہیں تو مختصر وقت کے لئے پڑھا کر چھٹی کر دیتے ہیں۔
دنیا بھر کے سائنسدانوں نے ایک طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ
آنلائن تدریس صرف اس صورت میں سود مند ثابت ہوسکتی ہے جب طلباء کے پاس
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مستقل سہولت موجود ہو اور اساتذہ کو آنلائن تدریسی
طریقہ کار کی مکمل تربیت دی جائے۔ کورونا کی وجہ سے لیکچر اور سمسٹر کے
دورانیے کو کم کرنے سے بھی سیکھنے کا عمل متاثر ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی
عالمی وبا کے پس منظر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی ایک حالیہ
رپورٹ میں تصدیق کی تھی کہ اس وقت ١١٠ سے زائد ممالک میں تمام اسکول اور
کالج بند پڑے ہیں اور دنیا بھر میں اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات تقریباﹰ
١.٣ بلین طلبا و طالبات کو متاثر کر رہے ہیں۔
اس تعلیمی بحران کی وجہ سے تعلیمی سیکٹر میں ہر درجے کے امتحانات اور داخلے
ملتوی یا پھر منسوخ کردیے گئے۔ آسٹریلیا ، برطانیہ ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا
جیسے بہت سے ممالک کی یونیورسٹیاں چین اور ہندوستان کے طلبا کی تعلیمی نقل
و حرکت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ یہ بات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ
طلبہ کی سرحد پار سے کم از کم اگلے دو سے تین سالوں میں تعلیمی نقل و حرکت
بہت کم ہو گئی ہے اور ان ممالک کی یونیورسٹیوں کے لئے ایک بڑا مالی خطرہ
ہوگا جو پہلے ہی مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ بہت سے والدین وبائی امراض کے خطرہ
کی وجہ سے بچوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بھیجنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ماہرین تعلیم نے اس نازک صورتحال پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا
ہے کہ وہ طلباء جو آن کیمپس تعلیم اور امتحانات کی وجہ سے محنت کیا کرتے
تھے، وہ نقل کے نت نئے طریقے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے محنت صفر اور
نقل کا رجحان قابل فکر حد تک بڑھ گیا ہے۔ طلباء اپنے اسائنمنٹ بنانے کے
بجائے، تیار شدہ اسائنمنٹ خریدتے اور اساتذہ کو جمع کروا دیتے ہیں۔
"آنلائن تعلیم نوجوانوں کو سند یافتہ تو بنا دے گی لیکن تعلیم یافتہ نہیں۔"
آنلائن کلاسز کبھی بھی کمرہ جماعت کا نعمل بدل نہیں ہو سکتی۔ استاد کا کلاس
میں طلباء کو سمجھانا، سوال کرنا، نظر رکھنا اور انکا امتحان لینا یہ
آفلائن کلاسز میں ممکن نہیں۔ بچے اہم امور جیسے اجتماعی اخلاقیات اور صفات
کو سیکھنے میں اسکول اور اساتذہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ آنلائن تعلیم نے طلباء
کو اجتماعی زندگی کی اخلاقیات سے عاری بنادیا ہے۔ طلباء ترقی یافتہ ممالک
کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ تعلیم حقائق کو سیکھنے کا نام نہیں بلکہ
یہ دماغ کو سوچنے کے قابل بنانے اور عملی شعور کی ایک تربیت ہے جس کا طلباء
میں فقدان نظر آتا ہے۔ لائق طلباء ہو یا نالائق آئن لائن تعلیم کو کوئی بھی
سنجیدہ نہیں لے رہا۔ کئی طلباء تعلیم سے کٹ کر بے مقصد کاموں میں مصروف
دکھائی دیتے ہیں۔ آنلائن کلاسز مزاحیہ محفل کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔
"استاد اگر کافر ہوگا تو شاگرد کو قرآن پڑھا کر بھی کافر بنا دے گا اور اگر
استاد مسلمان ہوگا تو وہ انجیل پڑھا کر بھی مسلمان بنا دے گا۔یہ استاد پر
منحصر ہے۔"
کورونا کے باعث تعلیمی ادارے بند کرنا اگرچہ انتظامی مجبوری ہو سکتی ہے مگر
طلباء کا گھر بیٹھے تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں مسائل زیادہ اور
وسائل کم ہیں۔ آن لائن تعلیم سے ترقی پذیر ممالک ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔
کہیں انٹر نیٹ نہیں اور کہیں لیکچر کی آواز صاف نہیں آ رہی ہوتی اور کہیں
بجلی نہ ہونے سے موبائل چارج نہیں ہوتے گویا ہر طرف مسائل کا سامنا ہے۔
بلاشبہ؛ آن لائن سسٹم معلم و طلباء دونوں کیلئے ایک آزمائش ہے۔ بیشتر
اساتذہ کلاسز اپنے مقررہ وقت پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے لیتے ہیں۔
دوسری جانب لاک ڈاؤن کے باعث مالی تنگی سے دوچار والدین نے نجی اسکولوں کی
آنلائن تعلیم کے نام پر منہ مانگی فیس اور انٹرنیٹ کے مہنگے پیکیجز کی وجہ
سے بچوں کو تعلیمی اداروں سے اٹھوا لیا۔ جس کی وجہ سے ٢٠٢٠ میں کئی بچے
تعلیم سے محروم ہوئے ہیں۔ ’آن لائن تعلیم میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا
سارا دارومدار والدین پر ہے ۔بچوں کو جو بھی ’ہوم ورک‘ ملتاہے اس کا زیادہ
تر حصہ والدین کو کرنا پڑتاہے ۔
"والدین کہتے ہیں کہ اتنے مہینے کے تلخ تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ خاص طور پر
چھوٹے بچوں کے حوالے سے آن لائن تعلیم محض ایک خام خیالی ہے."
کم تعلیم یافتہ والدین بچوں کو صحیح طرح نصاب کے ذریعہ نہیں پڑھا پاتے۔
تعلیمی نظام صرف بچوں کے ذہن، صلاحیت اور مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرتا
بلکہ والدین کی نفسیات کے ساتھ بھی کھیل رہاہے۔ کئی نجی اداروں کے مالکان
کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بے حد کم آمدنی ہونے کی وجہ
سے مستقل طور پر بند کر دیئے گئے۔
اتنے ماہ گزرنے کے باوجود تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔
جزوی طور پر ہی سہی، آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا بھر میں ترقی
پذیر ممالک کا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس مختصر سے
عرصے کا تعلیمی سرگرمیوں پر طویل صدمہ دیکھنے میں آیا ہے جس کو پھر سے بحال
کرنے میں کئی سال درکار ہونگے۔ تعلیمی سرگرمیوں کو منجمد کرنا حل نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ موجودہ کٹھن
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کی اصلاح احوال کی کاوش کی جائے۔ انٹرنیٹ
اور دیگر انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانا حکومتوں کا کام ہے۔ لیکن اساتذہ کے
لیکچروں میں باقاعدگی اور کلاس کے دورانیے کو یقینی بنانا یقیناً تعلیمی
اداروں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس جانب توجہ نہیں دی جاتی تو اس وبائی
دور میں تعلیمی اسناد حاصل کرنے والے طلباء کی علمی اور ذہنی استعداد صفر
ہو گی۔مزید برآں ملازمتوں ، انٹرن شپ پروگراموں اور تحقیقی منصوبوں پر
وبائی امراض کے اثرات کو کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ
طلباء جب نوکریوں کے حصول کے لئے نکلیں گے تو ان کے پاس قابلیت کے بجائے
صرف ڈگری کے کاغذ ہونگے۔ حکومت کو چاہیے کہ طلبہ کے مستقبل کے بارے میں
ایسے کمزور فیصلے نہ کرے اسکول کی بندش کی بجائے ایس او پیز پر سختی سے
عملدرآمد کروانے کیلئے اقدامات کریں اورجہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو وہ
شعبے بند کرے یا ان اداروں کے مالکان سے بھاری جرمانے وصول کیے جائیں۔
مسائل مناسب اقدامات اٹھانے سے سلجھتے ہیں۔
|