ابھی چند روز قبل وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے علی
گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر ایک اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد
رکھا ہے ۔اس عمل سے یہ قطئی نہ سمجھ لیا جائے کہ ہمارے وزیر اعظم ملک کے
اندر تعلیم کی اہمیت اور افادیت کے تئیں سنجیدہ ہو گئے ہیں در اصل اتر
پردیش کے انتخاب کو اب بس چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ اس لئے اس یونیورسٹی کے سنگ
بنیاد کا مقصد کیا ہے، یہ بہت ہی واضح ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اسے’
الیکشن یونیورسٹی‘ کا نام دے رہے ہیں ۔ ہمارے ملک کا تعلیمی معیار، مزاج
اور انتظام کس قدر ناقص ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔فی الوقت
ملک کی تعلیم کا معیار اور مزاج میرا موضوع ضرور ہے ، لیکن ذرا تبدیلی کے
ساتھ۔
گزشتہ 8؍ ستمبر کو عالمی یوم خواندگی دنیا کے مختلف ممالک میں انعقاد کیا
گیا ۔ عالمی پیمانے پر یوم خواندگی کا اہتمام اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ
یونیسکو کے ذریعہ 1965 ء میں لئے گئے ایک فیصہ کے مطابق کیا جاتا ہے ۔ اس
انعقاد کا مقصد دنیا سے جہالت کی تاریکی دور کر کے علم و آگہی کی روشنی سے
منوّر کرنا ہے ، تاکہ موجودہ نسل اور آنے والی نسل تعلیم یافتہ ہو کرملک و
قوم اور معاشرے کی بہتر تعمیر و ترقی میں اہم اور مثبت کردار ادا کر سکیں۔
یونیسکو کی اس کوشش کا بلا شبہ کئی ممالک میں مثبت نتائج دیکھنے کو ملے ۔
لیکن افسوس کہ عالمی یوم خواندگی آکر گزر گیا ،لیکن ہمارے ملک میں کہیں
کوئی ہلچل نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں اس کی کوئی خاص بازگشت سنی گئی ۔تعلیم
کے تئیں اسی بے حسی اور بے توجہی کا نتیجہ ہے کہ آئی ایم ڈی (Institute of
management Development ) جیسے عالمی ادارہ نے اپنے تازہ 64 ممالک کے
تعلیمی معیار کے سروے میں بھارت کو 59 پائدان پر رکھا گیا ہے ۔ دوسری طرف
اقوام متحدہ کے یونیسکو کی ایک مطابق رپورٹ کے مطابق بھارت میں کورونا اور
حکومت کی نا عاقبت اندیشی کے باعث بچوں کی شرح خواندگی میں 80 فی صد کا
نقصان ہوا ہے ۔ صرف ان دو مثالوں سے اپنے ملک کی تعلیمی رفتار اور معیار کا
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت ملک کے اندر تعلیم کیلئے قطئی سنجیدہ
نہیں ہے ۔ حکومت کو ملک کے موجودہ اور آنے والی نسل کے مستقبل کی بھی کوئی
فکر نہیں ہے ۔یوں بھی ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے نوجوانوں
کی بے روزگاری میں گزشتہ چند برسوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ادھر ملک کے
تعلیمی اداروں میں منافرت اور فرقہ واریت کا زہر جس طرح بھرا جا رہا ہے
۔ایسی کوششوں سے ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب ، ثقافت ، تاریخ ، نیز
علمی ، ادبی ، لسانی ، سماجی و سیاسی روایات ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسی
منظم اور منصوبہ بند کوششوں سے ملک کو مختلف سطح پر نقصان ہو رہا ہے ، ساتھ
ساتھ ملک کی شبیہ بھی مجروح اور مسخ ہو رہی ہے۔ اس کا اندازہ بیرون ممالک
اور اقوام متحدہ کے آئے دن آنے والے تلخ بیانات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم
اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تعمیر اور ترقی
میں اس ملک کے تعلیمی نظام کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہر ملک
میں تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے
تعلیمی اداروں میں جس طرح منافرت اور فرقہ واریت کا زہر گھولا جا رہا ہے
،وہ ملک کے سیکولر آئین ، روایت اور کردار کے منافی ہے ۔
گزشتہ چند برسوں میں ملک کے تعلیمی نظام کی زبوں حالی اور بد حالی کی جس
طرح کی کریہہ تصویریں سامنے آئی ہیں، وہ بہت ہی افسوسناک اور تشویشناک ہے
۔اوّل تو ملک کے اندر جو نئی تعلیمی پالیسی لائی گئی ہے ، وہ ہمارے ملک کے
لئے جہاں خواندگی کے اعداد شمار ناقابل یقین حد تک لمحٔہ فکریہ ہیں ۔ وہاں
تعلیم کو جس طرح نجی ہاتھوں کو سونپنے کی منظم کوشش ہے ، وہ آنے والے دنوں
میں ملک کے غریبوں کو تعلیم سے بہت دور کر دے گی ۔ ابھی ابھی وزیر اعظم
نریندر مودی نے شکشک پرو کے افتتاحی اجلاس سے اپنے ویڈیو کانفرنسنگ خطاب
میں نئی تعلیمی پالیسی پر یہ کہتے ہوئے اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ ’’
اس سماج میں ہمارے پرائیوٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا ۔‘‘ نئی تعلیمی پالیسی
اور اس میں پرائیوٹ سیکٹر کی آمدسے ہونے والے نقصانات پر ملک کے دانشور وں
نے خبردار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ لیکن حکومت کی نگاہ میں ان
دانشوروں کی ایسی باتوں کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ،جو ان کی کسی بھی
پالیسی کے خلاف ہو۔ہاں ایسے لوگوں کو حکومت ضرور ترجیح دیتی ہے جو مخصوص
ذہنیت اور ان کے ایجنڈے کا علمبردار ہو ۔ ایسے لوگوں کو ملک کے تعلیمی
اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے ۔ ایسے بڑے اور اہم عہدوں اور
منصب پر پہنچنے والے اپنی مخصوص ذہنیت اور حکومت کی خوشنودوی کے لئے ایسے
ایسے منصوبے سامنے لے کر آئے ہیں کہ جو ملک کے تعلیمی اداروں اور طلبہ پر
منفی اثرات مرتب کرینگے ۔ مثال کے طور پر ملک کی بہت ہی اہم یونیورسیٹیوں
میں شمار ہونے والی دہلی یونیورسٹی کے انتظامیہ کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے
ساورکر کے نام پر ایک کالج کھولنے کی تجویز منظور کی ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف
زبردست مخالفت، ٹھیک اسی طرح کی جا رہی ہے ،جس طرح دو سال قبل اس یونیورسٹی
کے کیمپس میں متنازع شخص ساورکر کے مجسمہ نصب کئے جانے پر ہوئی تھی اور آخر
کارا حتجاج اور مظاہروں کے آگے ڈی یو انتظامیہ نے سپر ڈالتے ہوئے نصب کردہ
مجسمہ ہٹانے پر مجبور ہوئی تھی ۔ اب ساورکر کے نام پر کالج کھولنے جانے کے
فیصلہ پر اعتراض اور احتجاج کرتے ہوئے نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا اور
اس کے ریاستی صدر کنال سہراوت نے ڈی یو انتظامیہ کومتنبہ کرتے ہوئے کہا ہے
کہ اگر ساورکر کے نام پر کالج کھولنے کی تیاری کرے گا تو ہم بھی سیاہی
خریدنے کی تیاری کریں گے اور کالج کے سنگ بنیاد کے دوران انگریزوں سے مسلسل
معافی مانگنے ، بھارت چھوڑو تحریک کی مخالفت کرنے والے، قومی پرچم ترنگا کو
اہمیت نہ دینے اور آئین کو ٹھکرا کر منو سمرتی اور ہندو راشٹر کا مطالبہ
کرنے والے ساورکر کی تصویر پر وہ سیاہی پوتینگے ۔
منافرت ، فرقہ واریت ، تنگ نظری کے نظریات کو فروغ دینے کے لئے ملک کی
دوسری اہم یونیورسٹی جواہر لعل یونیورسٹی جو اپنے سیکولر جمہوری مزاج کے
طور جانی جاتی ہے ۔ یہاں بھی زعفرانی نظریات کے حامی وائس چانسلر نے اپنے
سیاسی آقا کو خوش کرنے کی ایسی ہی ایک نئی کوشش یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے
نصاب میں ایک نیا نصاب ’’ جہادی دہشت گردی ‘‘ کو شامل کیا جا رہا ہے ۔ اس
نصاب کو تیار کرنے والے اروند کمار اور انوشی جوشی کا جہاد کا مطالعہ اور
علم کس قدر ہے کہ اس کا اندازہ جہاد کی تشریح سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔
دراصل اس نصاب کے پس پشت مقصداسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنا، منافرت اور
انتشار پھیلاناہے ۔ایسی ہی کوشش 2018 ء میں اسلامی دہشت گردی کے نام سے
نوجوانوں کے ذہن کو پراگندہ کرنے کے لئے کی گئی تھی ۔ اعتراض اور احتجاج نے
جب زور پکڑا تو اس وقت بظاہر خاموشی اختیار کر لی گئی تھی ۔ لیکن اس وقت
جبکہ مختلف ریاستوں اور خاص طور پر اتر پردیش میں ہونے والے انتخاب کی کئی
لحاظ سے بڑی اہمیت ہے، اس متنازعہ نصاب سے تنازعہ کھڑا کر سیاسی فائدہ
اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہم نظر اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ
دنیا کے کسی بھی ملک کی کسی بھی یونیورسٹی میں دہشت گردی سے متعلق تعلیم
نہیں دی جاتی ہے ، ہاں اس کے سدّباب اور اس پر قدغن کی کوشش ضرور کی جاتی
ہے اور ہونی بھی چاہئے ،لیکن اس میں طلبا و طالبات کو قطئی ملوث نہیں کیا
جانا چا ہئے۔
ملک کے تعلیمی اداروں میں منافرت ، عدم رواداری، فرقہ پرستی اور دہشت گردی
کے نام پر ایسی مزموم کوششوں سے ان کا سدباب ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان پر قد
غن لگ سکتا ہے ۔ در حقیقت آر ایس ایس کے نظریات ، منصوبوں اور ایجنڈوں کو
پورے ملک میں نافذ کرنے کی بڑے ہی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اب دیکھئے کہ
ریاست مدھیہ پردیش کی شیو راج چوہان کی حکومت نے آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر
کیشو بلی رام ہیڈ گیوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دین دیال اپادھیائے جیسے
فرقہ پرستوں کے نظریات کو ریاست کے ایم بی بی ایس کے فاؤنڈیشن کورس میں
شامل کرتے ہوئے اس کی تعلیم کو ’’اقدار کی خاطر ‘‘ اسے رواں سال سے لازمی
قرار دیا گیا ہے ۔ان دنوں کے نظریات کے اقدار ملک ،قوم اور سماج و معاشرے
کے لئے کس قدر ’’اہمیت‘‘ رکھتے ہیں ،یہ جگ ظاہر ہے۔
ملک کی موجودہ برسراقتدار حکومت اپنی تنگ نظری اور سیاسی انتقام کی انتہا
کا ثبوت دیتے ہوئے اس قدر نچلی سطح پر آ گئی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا
جا سکتا تھا۔ انڈئین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ ( آئی سی ایچ آر) جو ملک کی
وزارت تعلیم کے ماتحت ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ اس تاریخی ادارہ نے 75 ویں
یوم آزادی کے موقع پر ایک پوسٹر جاری کیا ہے ، جس میں ملک کے پہلے وزیر
اعظم اور معمار ہند پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ ملک کے پہلے وزیر
تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو ہٹا کر ان مجاہدین آزادی کی جگہ پر ساورکر
کی تصویر لگائی گئی ہے ۔ جو ہمیشہ ا نگریزوں کا ہمنوا رہا ، اسے پنڈت نہرو
اور مولانا آزاد جیسی قدآور شخصیات کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ایسی بے شرمی اور تنگ نظری سے ادارہ کے سربراہ کے ذہنی سطح کا بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے ۔دراصل آر ایس ایس اور اس کی سیاسی تنظیم بی جے پی کا
المیہ اور مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے ، جنھیں یا
جسے وہ محب وطن اور ملک کی آزادی کا ہیرو بنا کر پیش کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ
وہ ساورکر ، ہیڈ گوار اور گوڈسے جیسے فرقہ پرستوں کو اپنی جھوٹی شان کے لئے
متعارف کرانے کے در پپئے ہیں ۔ ایسی ہی ایک مضحکہ خیز کوشش ریاست بہار کی
جئے پرکاش یونیورسٹی سمیت بہار کی دیگر یونیورسٹیوں کے نصاب میں ساورکر کو
شامل کرنے کے لئے راستہ ہموار کرتے ہوئے ملک اور خصوصاََ ریاست بہار کی
دومجاہدین آزادی اوربڑی اہم سیاسی شخصیت رام منوہر لوہیا اور جئے پر کاش
نارائن کو بڑی بے شرمی سے پولیٹکل سائنس کے نصاب سے نکال باہر کر دیا ۔
ہنگامہ ہوتے ہی وزیر اعلیٰ بہار ،جو خود جے پی تحریک کے پیداوار ہیں ،
انھوں نے سخت نوٹس لیا اور اپنے وزیر تعلیم وجئے کمار چودھری کو بہار کی
یونیورسٹیوں کے چانسلر و گورنر پھاگو چوہان کے پاس اس متنازع ہی نہیں بلکہ
بہار دشمنی عمل کو جلد از جلد رفع دفع کرنے کے لئے بھیجا اور وزیر تعلیم نے
گورنر بہار کو بہار کے تعلق سے جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کی
سیاسی اہمیت بتائی ۔ تب گورنر نے بہار کی تمام یونیورسیٹیوں کے وائس
چانسلروں کی میٹنگ طلب کی اور ان دونوں بڑی شخصیتوں کو دوبارہ نصاب میں
شامل کئے جانے کا سدّباب ہوا ۔ بہار میں اردو زبان دوسری سرکاری زبان ہے ،
لیکن ادھر گزشتہ چند برسوں سے مسلسل اردو زبان کو اسکولوں اور کالجوں سے
باہر کئے جانے کی عملی کوشش ہو رہی ہے ۔ بہار کے اسکولوں میں پرائمری
کلاسوں میں اردو زبان کی تعلیم لازمی سے اختیاری کر تے ہوئے اردو زبان کو
بنگلہ ، سنسکرت ، فارسی وغیرہ جیسی زبان کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ
بہار میں اردو زبان بنیادی سطح سے ہی ختم ہو جائے ۔ اس کے خلاف کافی احتجاج
اور مظاہرے ہوئے لیکن اب تک اس متنازعہ اور اردو دشمنی کا سدباب نہیں ہوا
ہے ۔ بہار میں ارود زبان کو حاشیہ پر ڈالنے کی ایسی کئی کوششیں کی جا رہی
ہیں ۔ بہار میں سرکاری حکم کے بموجب بہار کے تمام اداروں اور شعبوں کے نام
ہندی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھے جانے کا نوٹیفیکیشن کے باوجود
دانستہ طورمختلف اداروں سے اردو کے سائن بورڈ اور نیم پلیٹ وغیرہ سے ہٹانے
کی منظم کوشش کی جا رہی ہے ۔ایسے کئی واقعات کے ساتھ ساتھ ابھی ابھی گیا
شہر میں موجود انوگرہ میمورئیل کالج کے باہر آویزاں بورڈسے اردو کو ہٹا دیا
گیا ہے ۔ جس کے خلاف اردو آبادی کے ساتھ ساتھ طلبا کی تنظیم آئیسا نے بھی
احتجاج اور مظاہرہ کیا ۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک کالج انتطامیہ نے اس جانب
کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔
اس پورے منظر نامے میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ برسراقدار
حکومت کو ملک میں بہتر و معیاری تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کوئی دلچسپی
نہیں ہے اگر ہے تو بس یہ ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں کا بھگوا کرن کیا
جائے، منافرت ، عدم رواداری، فرقہ واریت کو فروغ دیا جائے اور سیاسی فائدہ
اٹھا یا جائے ۔ ایسی کوششوں سے ممکن ہے اس حکومت کو وقتی فائدہ مل جائے ،
لیکن ملک کامستقبل ضرور تاریک ہو جائے گا ۔ |