انتہا پسندی کے اسباب اور سدباب
(Dr Ch Tanweer Sarwar, Lahore)
انتہا پسندی کے اسباب :انتہا پسندی ایک
معاشرتی المیہ ہے اگر میں اسے معاشرتی ناسور کہو ں تو غلط نہ ہو گا ۔جس
معاشرے میں انتہا پسندی پروان چڑھتی ہے اس معاشرے کا امن وسکون برباد ہو
جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتہا پسندی میں مذہب کو کیوں استعمال
کیا جاتا ہے؟ جس کی مثالیں ہمیں آئے روز ملتی رہتی ہیں اس انتہا پسندی کا
شکار زیادہ تر ہمارے نوجوان ہی بنتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری مذہب سے
دوری ہے دوسرا تعلیم کا فقدان ہے تیسرا شعور کی کمی ہے اس کے علاوہ بھی عدل
و انصاف اور بے روزگاری اس کا سبب ہیں ۔مغرب کی سوچ بالکل اس سے مختلف ہے
وہ انتہا پسندی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صرف مسلمان
ہی انتہا پسند ہو سکتا ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ان کا یہ نظریہ بالکل
غلط ہے کسی دوسرے مذہب کا شخص بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے وہ عیسائی ،یہودی
اور ہندو بھی ہو سکتا ہے ابھی حال ہی میں بھارت میں ہندؤں نے جو مسلمانوں
پر مظالم ڈھائے یہ بھی انتہا پسندی کی ایک مثال ہے برما میں مسلمانوں کے
ساتھ جو سلوک کیا گیا یہ بھی انتہا پسندی ہے امریکہ ،برطانیہ اور مغربی
ممالک میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں انتہا پسندی کرنے
والا مسلمان نہیں بلکہ کسی اور مذہب کا باشندہ تھا انتہا پسند کا کوئی مذہب
اور کوئی ملک نہیں ہوتا اس کے دماغ میں جب خلل پیدا ہو گا جو اس کے نظریے
کے خلاف ہو تووہ انتہا پسندی پر اتر آئے گا ۔
انتہا پسندی اور نوجوان :جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو مذہب کے بارے میں آگاہ
نہیں کریں گے جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کریں
گے جب تک ہم اپنے نوجوانوں کے لئے روزگار کے بہتر مواقع پیدا نہیں کریں گے
تب تک یہ ہمارے نوجوان اسی طرح بے راہ روی کا شکار ہو کر ان دہشت گردوں اور
انتہا پسندوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے ۔آج اگر دیکھا جائے تو ہمارے گھروں
کا ماحول بھی اسلامی نہیں رہا ہے ماں باپ کو دیکھیں تو وہ موبائیل اور
کمپیوٹر پر مصروف نظر آتے ہیں ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی
تربیت کر سکیں اور یہی بچے بڑے ہو کر غلط راستوں کے مسافر بن جاتے ہیں اور
پھر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے آلہ کار بن جاتے ہیں ۔گھر کے بعد
میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگرام نشر کرے جو نوجوانوں کی تربیت
میں معاون ثابت ہوں لیکن آج کل کا میڈیا ایسے پروگرام دکھانے سے قاصر ہے
اسی طرح سوشل میڈیا نے بھی ہمارے نوجوانوں کو ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے
ایک کلک پر ہمارا نوجوان کسی بھی جگہ پہنچ جاتا ہے اب اگر اس نوجوان کی
تربیت بہتر انداز میں کی گئی ہو گی تو وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرے
گا ورنہ اکثریت سوشل میڈیا کا منفی استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے آج کا
نوجوان مغرب کے سحر میں گرفتار ہے وہ مذہب سے بالا تر ہو کرر وشن خیال اور
آزاد خیال ہو گیاہے اس کی مثالیں ہمیں کالجوں اور یونیورسٹیوں مل جاتی ہیں
جہاں کا طالب علم مغرب کی تقلید کرتے ہوئے ویلٹائن ڈے کو مناتا ہوا نظر آتا
ہے آج کے نوجوان کی منزل صرف اور صرف پیسہ ہے خواہ وہ کسی بھی طریقے سے
کمایا جائے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں دکھاوا بڑھتا چلا جا
رہا ہے اگر آپ اپنے گلی محلوں میں دیکھیں تو ہر ایک کے پاس گاڑی ہے کھبی
اکا دکا ہی گاڑی نظر آتی تھی آج لوگوں نے اپنے سٹیٹس بنا لئے ہیں اب اگر
ایک نے گاڑی لی ہے تو دوسرا بھی اسے دکھانے کے لئے گاڑی لے گا چاہے وہ بنک
سے قرض لے کر ہی کیوں نہ لی جائے ہم مذہب کو بھول گئے ہیں اگر ہم اپنے مذہب
پر عمل پیرا ہوں تو ہمیں سادگی سے زندگی گذارنے کا سبق ملتا ہے جسے ہم
فراموش کر چکے ہیں معاشرے میں امیر سے امیر ہونے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے
میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ قران کا مطالعہ ضرور کریں تا کہ اس بات کی
سمجھ آ جائے کہ انہیں دنیا میں کس مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے اگر ہم اس بات
کو سمجھ جاتے ہیں تو نہ صرف ہم صحیح راستے پر گامزن ہوں گے بلکہ ملک میں
امن و سکون بھی ہو گا انتہا پسندی اور شدت پسندی سے ہماری جان بھی چھوٹ
جائے گی۔
انتہا پسندی کا سدباب:سب سے پہلے ہمیں اپنے نوجوانوں کی راہنمائی کرنی ہو
گی اس میں والدین،استاتذہ ،میڈیا کے علاوہ ریاست کو بھی تعاون کرنا ہو گا
کیونکہ ریاست کے تعاون کے بغیر ناممکن ہو گا۔نوجوانوں کو عام تعلیم کے
علاوہ مذہبی تعلیم کو ضروری قرار دینا ہو گا اس کے لئے ماہر تعلیم اور ماہر
نفسیات کا تعاون حاصل کرنا ہو گا تا کہ تعلیم کا ایسا نصاب ترتیب دیا جا
سکے جو نوجوانوں کے لئے سود مند ثابت ہو۔ریاست کو نوجوانوں کی تعلیم کے
علاوہ انہیں ہنر مند ی کے کورس متعارف کروانے ہوں گے اس کے علاوہ انہیں
بہتر روز گار مہیا کرنا ہو گا ۔
اس کے بعد میڈیا کو اپنا مثبت رول ادا کرنا ہو گا بد قسمتی سے ایسے ڈرامے
اور فلمیں دکھائی جاتی ہیں جو انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہیں ہم مثبت ڈرامے
بھی دکھا سکتے ہیں جو نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھیں اس کے لئے
تمام لکھاری ،شاعر اور ادیب خواتین و حضرات کوآگے آنا ہو گا تا کہ معاشرے
میں ایک پر امن فضا پیدا کی جا سکے اور ہمارے نوجوان کسی بھی انتہا پسند
تنظیم کا حصہ نہ بنیں اور ملک میں امن و مان کی صورت پیدا ہو جائے ۔
ہمارے ہاں کچھ سیاست دان بھی اپنی سیاست کے لئے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی
طرف دھکیل دیتے ہیں ہمیں ایسے سیاست دانوں کو ناکام بنانا ہو گا کیونکہ اگر
ایسے سیاست دان ملک پر مسلط ہو گئے تو یہ ملک کے امن و سلامتی کے لئے خطرہ
بن جائیں گے ۔ووٹ کے ذریعے ہی ہم ایسے سیاست دانوں کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔
جیسا کے میں اوپر ذکر کیا ہے کہ بے روزگاری بھی نوجوانوں کو انتہا پسند بنا
دیتی ہے کیونکہ بے روزگاری معاشرے میں غربت کا سبب بنتی ہے اس کے ریاست کا
فرض بنتا ہے کہ نوجوانوں کے روزگار کے لئے بہتر حکمت عملی بنائے تا کہ ملک
سے غربت کا بھی خاتمہ کیا جا سکے اور ملک نہ صرف ترقی کی منازل طے کرے گا
بلکہ امن و سکون کا گہوارہ بھی بن جائے گا ۔
ریاست سوشل میڈیا کے استعمال کو مثبت بنائے کیونکہ آ ج کا نوجوان سوشل
میڈیا کا استعمال زیادہ کرنے لگا ہے اور کچھ انتہا پسند تنظیمیں بھی اس کا
بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی
ایکٹویٹی پر پوری نظر رکھیں تا کہ اگر وہ کسی غلط راستے پر ہیں تو انہیں
باز رکھا جائے ۔کسی بھی ایسی تنظیم کا حصہ ہر گز نہ بنیں جو انتہا پسندی کو
ہوا دیتی ہو۔نوجوان کی راہنمائی کے لئے والدین ،استاتذہ۔میڈیا اور ریاست اس
میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
عدل و انصاف بھی کسی معاشرے کے امن و سکون میں اہم رول ادا کرتا ہے اگر جرم
کرنے والے کو فوری سزا نہ دی جائے یا کسی مظلوم کو فوری انصاف نہ ملے تو یہ
بھی انتہا پسندی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اس کے لئے عدالتوں کا نظام
عدل و انصاف پر قائم ہونا ضروری ہے اس کے لئے بھی ریاست کو ایسے قوانین
بنانے کی ضرورت ہے جس سے فوری انصاف مہیا ہو سکے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ انتہا مپسندی کے خاتمہ کے لئے ہم سب کو مل کر
کام کرنا ہو گا تا کہ معاشرے سے اس ناسور کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے ۔اﷲ
تعالی سے دعا ہے کہ میرے پاک وطن کو ہر قسم کی فرقہ پرستی،انتہا پسندی،دہشت
گردی سے پاک کر دے اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے کیونکہ یہ میرے
قائد کا بھی خواب تھا۔ |
|