سقراط کا کہنا تھا کہ ”جب تحریر
نے (جو قدیم ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے) جنم لیا تو انسان نے ہر بات کے
لیے یاداشت پر انحصار کرنے کی عادت ترک کردی، دوسرے لفظوں میں انسان سہل
پسند ہوگیا“ سقراط کا اشارہ انسانی ذہانت میں کمی کی طرف ہے وہ ترقی سے
بدظن نہیں بلکہ ذہانت میں کمی ہونے کے خوف میں مبتلا تھا کہ تحریر کے وجود
نے انسان کو اپنی باتیں یاد رکھنے کے بجائے ضبطِ تحریر کرنے پر اُکسایا اور
وہ اپنی یاداشت سے کام لینا چھوڑنے لگا اور دیکھ لیجیے کہ آج ہم انسان
یاداشت میں کمی کا رونا روتے نہیں تھکتے....وقت سے پہلے ہی ہمارا حافظہ
ہمارا ساتھ چھوڑ رہا ہے!
”الحمد اللہ! آج ہم 2011ءمیں سانس لے رہے ہیں یہ دور ترقی اور ٹیکنالوجی کا
دور ہے ہر طرف ایجادات، تخلیقات ، سہولیات اور آلات و سامان کی انوکھی
دُنیا ہماری آنکھوں کو خیراں کئے جارہی ہے وہ سب اس دور میں موجود اور ممکن
ہے جو کبھی ناممکن تھا۔ جس کا کبھی ہمارے بزرگوں نے تصور تک نہیں
کیاتھا(اُن کے تو خوابوں میں بھی ایسی انوکھی اور طلسمی دُنیا نہیں آئی
ہوگی!)۔
ہر چیز طلسمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک سکینڈ کے ہزاروں حصّے میں ہم اپنی بات
دُنیا کے کسی بھی گوشے میں پہنچا رہے ہیں ، چلتے پھرتے اپنوں سے باخبر ہیں
کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ دُنیا میں کیا تبدیلیاں ہورہی ہیں؟ نئی ایجادات ،
فیشن، علم و ٹیکنالوجی میں کیا انقلابات رونما ہورہے ہیں۔ الغرض 2011ءنے
طلسم کی اک انوکھی دُنیا کا دروازہ کھول دیا ہے....
انسان خلاﺅں تک پہنچ چکا ہے۔ سمندروں کے سینے میں جھانک چکا ہے۔ ستاروں
کوتوڑنے کا خواب ممکن کرچکا ہے۔ چاند پر تاج محل بنانے کا سوچ رہا ہے!
دُنیا بالکل بدل چکی ہے ہر چیز بہتر اور باسہولت ہوتی جارہی ہے جیسے پی ٹی
سی ایل کی جگہ جدید باسہولت موبائلز لے چکے ہیں۔ فیکس مشینوں کی جگہ
کمپیوٹر نے لے لی ہے۔
میں سوچتی ہوں اگر سقراط انکل! ہمارا یہ دور دیکھ لیتے تو یقینا اپنی
انگلیاں کاٹ لیتے.... وہ جو تحریر کے وجود سے انسان کی ذات میں سستی و
کاہلی پیدا ہونے سے خوفزدہ تھے وہ اس دور کے انسان کی آرام پسندی پر ضرور
اپنا سینہ پیٹ لیتے۔ ترقی ، خوشحالی اور ٹیکنالوجی نے جہاں ان گنت فوائد ،
سہولیات و آسائشات سے انسان کو ہمکنار کیا ہے وہاں اس نے انسان کو اپنے
شکنجوں میں جکڑ لیا ہے۔ انسان روبوٹ بن چکے ہیں ایک ایسا روبوٹ جواپنے ہر
کام کے لیے بٹنوں کا محتاج ہے۔
ہم باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ پر مکمل
انحصار کرنے لگے ہیں۔ خط لکھنا فرسودہ سمجھا جانے لگا ہے۔ کہیں آنے جانے کے
لیے بسوں، گاڑیوں اور کاروں وغیرہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ پیدل چلنے کا کلچر
دم توڑ چکا ہے۔ تفریح کے لیے ٹی وی اسکرین ہمیں گھنٹوں اپنے سامنے، بیٹھائے
رکھتی ہے اس دوران دروازے پر بیل دینے والا واپس لوٹتا ہے تو لوٹ جائے، کچن
میں ہانڈی جلتی ہے تو جل جائے، گھر کی صفائی ہو یا نہ ہو اسٹار پلس کے (بے
معنی) ڈرامے کا کوئی سین مس نہیں ہونا چاہیے۔ فریج، استری، اے سی، واٹر
کولر، جوسر، واشنگ مشین وغیرہ ان گنت الیکٹرانی آلات طلسمی بونوں کی طرح
ہمارے اشاروں کے محتاج رہتے ہیں....زندگی بہت آسان اور پُر آرام ہوگئی ہے۔
(لیکن پُر سکون ہرگز نہیں!)
سقراط ! کو اس دور کے انسان پر انسان ہونے کا شبہ ضرور ہوتا کیونکہ آج کا
انسان صدیوں قبل کے انسان سے زیادہ وحشی اور زیادہ بے حس اور خود غرض
سہوگیاہے!
”کسی بد تر جانور کی طرح اپنے لیے، اپنے پیٹ کے لیے فکر مند....!“
خود غرضی نے اس سے ساری انسانیت چھین لی ہے، مادہ پرستی کی چادر تانے غافل
ہے کہ اس جیسے انسان بھوک و افلاس سے کررہے ہیں، ہزاروں بچے روٹی کے ٹکڑے
کے حصوّل کے لیے ”چائلڈ لیبر“ کی مشقت اُٹھارہے ہیں، غریب ماں باپ اپنے ہی
ہاتھوں اپنے جگر گوشوں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، انسان کی قیمت اتنی کم ہوگئی
ہے کہ وہ چند پیسوں کے لیے اپنے معصوم بچوں کو بیچ رہا ہے....حیوانیت کا
بازار گرم ہے، انسانیت سربازار رسوا ہورہی ہے....اور انسانیت کا دور دور
کوئی سراغ نہیں ملتا....!! اس طلسماتی دور میں انسان نے بہت کچھ پالیا ہے
لیکن جو یہ انسان کھو چکا ہے، کھورہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی اثاثہ
ہے....آج کا انسان مشینوں کی منڈی میں کھڑا انسانیت کا، ہمدردی کا، خلوص
وپیار کااور سچے رشتوں کا سودا کررہا ہے....!!
نوجوان نسل جو اقبال ؒکے شاہین ہیں وہ گھنٹوں بھیگی بلی بنے، انٹرنیٹ، ٹی
وی اور موبائلز کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ”عمل “ کی قوت خودی کی تسخیر کا
ان میں جذبہ باقی نہیں رہا۔لیکن ابھی وقت ہے خودی کو پہچانیے اور عمل کی
قوت لے کر ملک و قوم کی بھلائی کے لیے مصروف عمل ہوجائیے اور اس طلسماتی
اور جادوئی دُنیا کے دھوکوں سے بچتے ہوئے انسانیت کو پاتال سے نکال لایئے۔ |