ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کیا یہ فساد نہیں؟ دعویٰ تو حق کا کرو، مگر مقصد باطل کا ہو. افسوس صد
افسوس، انسان اصلاح کی آڑ میں فساد پھیلا رہا ہے. آخر یہ معصوم لوگوں کا
خون کیوں بہایا جا رہا ہے؟ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ملک کے نام پر، کبھی
قوم کے نام پر، کبھی رنگ و نسل کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر. جن لوگوں
کے یہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں، معصوم جانوں کی کوئی اہمیت نہیں، انہوں
نے اسی فساد کی دکان کھول لی، اسی فساد کا کاروبار شروع کر دیا؛ اور ایسا
کیوں نہ ہو؟ یہ دولت کمانے کا، شہرت حاصل کرنے کا، اور کسی گروہ کا بڑا
بننے کا بھی آسان طریقہ ہے. اور جو لوگ محض شہرت کے لئے فساد پھیلا تے ہیں،
درحقیقت وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں نہ تو کوئی اچھائی ہے اور نہ ہی کوئی
بھلائی، مگر یہ دوسروں کو برا دکھا کے ، دوسروں پہ انگلی اٹھا کے خود اچھا
دکھنا چاہتے ہیں. یہ خود بڑی پاکبازی اور لوگوں کی اصلاح کی بات کرتے ہیں
اور سادہ لوح، بھولے انسانوں کو اپنے جال میں پھنساکر لوگوں کو آپس میں
لڑاتے ہیں، نفرتیں پھیلاتیں ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں اور
فساد مچاتے ہیں.
ان نفرتوں، ان فریبوں، ان سازشوں، ان بموں اور گولیوں، ان لڑائی جھگڑوں سے
حاصل ہونے والی شہرت سے کیا انسان کے لئے یہ بہتر نہیں کہ وہ جس بستر پر
پیدا ہوا تھا اسی پر مر جاتا، اور کمرے کے باہر کی دنیا کو اسکے وجود کی
خبر بھی نہ ہوتی. |