بورڈ ٹاپرز ہیرو یا زیرو۔۔؟

حالیہ میٹرک اورانٹر امتحانات میں طلباء وطالبات نے جس طرح ریکارڈپرریکارڈقائم کیئے ہیں دنیاکیا۔؟تاریخ میں بھی غالباًاس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔دنیاکے تعلیم یافتہ اورسوفیصدشرح خواندگی والے ممالک میں بھی کسی طالبہ یاطالب علم نے گیارہ سومیں سے پورے گیارہ سونمبرنہیں لئے ہوں گے لیکن ہمارے ان شاہینوں نے بالاخرنئے پاکستان میں یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیاہے۔میں یہ نہیں کہتاکہ گیارہ سومیں سے گیارہ سونمبرلیناممکن نہیں ۔محنت،کوشش،جدوجہداورلگن ہوتوکیاناممکن ہے۔؟ویسے شکست کے سائے میں کرکٹ کاعالمی کپ جیتنے والے کپتان کے کھلاڑیوں اورشاہینوں کے لئے گیارہ سونمبرلیناکیامشکل ہے۔؟ماناکہ کپتان کی سربراہی اورنئے پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ نصاب ونظام میں تبدیلی واصلاحات کے نام پرہردوسرے دن تعلیم کے ساتھ کھیلواڑکھیلنے والے پاکستان جیسے ملک اورپھرکروناکی وباء میں جہاں ایک دونہیں سرکاری وپرائیوٹ سکول،کالجزاوریونیورسٹیوں سمیت تمام تعلیمی ادارے اکثربندرہے ہوں ایسے حالات اورایسے ملک میں کسی طالبہ یاکسی طالب علم کاگیارہ سومیں سے پورے گیارہ سونمبرلینایہ کوئی معجزہ ہی ہوسکتاہے محنت،کوشش،جدوجہداورلگن نہیں ۔بغیرکسی معجزے کے سکول ،کالجز،یونیورسٹی اوراساتذہ سے دوررہ کراس طرح کاعالمی اورتاریخی ریکارڈاپنے نام کرنامیرے نزدیک مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔اس ملک میں تعلیم کی کیاحالت ہے۔؟اورامتحانی نظام کی کیاصورت ۔؟اس کازیادہ نہیں توتھوڑابہت علم گلی میں پھرنے والے پاگل کوبھی ہے۔یہ توملک کابچہ بچہ جانتاہے کہ اس ملک میں تعلیم کے نام پرکیاکچھ نہیں ہورہا۔الگ الگ نظام کیا۔؟آفاق ونفاق کی کتابوں میں بھی کوئی ایک سکول،کوئی ایک علاقہ،کوئی ایک گاؤں،کوئی ایک شہراورکوئی ایک صوبہ نہیں بلکہ پوراکاپوراملک تقسیم درتقسیم ہے۔ہرصوبے کاٹیکسٹ بورڈتوہے ہی الگ۔مزے کی بات یہ ہے کہ پھرنہ صرف ہرصوبے بلکہ ہرشہر،ہرگاؤں اورایک ایک سکول میں نصاب ونظام بھی الگ سرے سے الگ ہے۔لوگ سرکاری سکولوں کاروناروتے ہیں لیکن اس ملک میں پرائیوٹ سکولوں وتعلیمی اداروں میں بھی تعلیم کاجوحشرنشرہورہاہے وہ بھی رونے ،دھونے،چیخنے اورچلانے سے خالی نہیں۔یہاں سرکاری سکول وکالجز سے نکلنے والوں کواگرکچھ نہیں آتاتوپرائیوٹ تعلیمی اداروں سے گولڈمیڈل پانے والوں میں اکثریت کی حالت بھی ان سے ہرگز مختلف نہیں ۔میں نے محل اورتاج محل میں بننے والے ایسے بے شمارپرائیوٹ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے شاہینوں کوڈگریاں ہاتھوں میں لئے روڈماسٹری کرتے دیکھاہے۔میں نے اس بدقسمت ملک میں بے شمارایسے طلبہ بھی دیکھے ہیں جومیٹرک اورانٹرمیڈیٹ امتحان میں اسی طرح ہیروٹھہرے لیکن بعدمیں جب وہ این ٹی ایس،ایٹایاکسی اورذریعے سے میڈیکل،انجینئرنگ ودیگرکسی مخصوص شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے لئے میدان میں اترے توچندلمحوں میں پھرہیروسے زیروبنے۔یہ چندسال پہلے کی بات ہے میرے آبائی ضلع بٹگرام کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں شاہینوں نے بھی میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ٹاپرکااعزازاپنے نام کیالیکن پھرجب انہی ٹاپروں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے دیگراداروں میں ٹیسٹ دیئے توان میں سے اکثرپہلے ٹیسٹ میں ہی ناکام ونامراد ہوئے۔اس ملک میں بورڈکیسے ٹاپ کئے جاتے ہیں۔؟اس حقیقت سے صرف ہم نہیں بلکہ پوری دنیاواقف خوب واقف ہے۔جہاں امتحانات میں نقل کروانے کے لئے طلبہ وطالبات سے باقاعدہ پیسے جمع کئے جاتے ہوں۔جہاں اپنے ہی اساتذہ طلبہ وطالبات تک نقل پہنچانے کافریضہ سرانجام دیتے ہوں وہاں گیارہ سومیں سے گیارہ سوکیا۔؟بارہ سونمبرلینابھی کوئی تعجب کی بات نہیں۔کسی وقت میں بھی بورڈٹاپ کرنے والوں کے چہروں کوگھورگھورکے دیکھاکرتاتھا۔کسی زمانے میں بورڈٹاپروں پرمجھے بھی بڑانازہواکرتاتھا۔سچ پوچھیں توایک وقت میں بھی ان کوہیروسمجھتاتھالیکن اب۔؟اب ایسانہیں۔پوزیشنزلینے والوں کے بورڈٹاپ کرنے پراب مجھے کوئی تعجب ہے نہ کوئی حیرانگی۔اب نہ میں ان کے چہروں کوگھورگھورکے دیکھتاہوں اورنہ ہی ان پرمجھے کوئی نازوفخرہے۔آپ یقین کریں بورڈکے امتحانات میں امتحانی سنٹروں کے اندرجوکچھ ہوتاہے وہ اگرآپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں توآپ کونہ صرف ان امتحانات بلکہ امتحان دینے والوں پربھی رونے،چیخنے اورچلانے کادل کرے گا۔میں نے اپنی ان گناہ گارآنکھوں سے امتحانات میں نہ صرف سکول ٹیچروں کوطلبہ کونقل کراتے ہوئے دیکھاہے بلکہ میں نے بورڈعملے کے کئی شریفوں کومتعدد بارسہولت کاربنتے بھی دیکھاہے۔امتحانی سنٹروں میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ کاایک الگ درجہ ہوتاہے ۔سرکاری سکولوں کے غریب طلبہ کوتوکوئی گھاس نہیں ڈالتالیکن پرائیوٹ سکولوں کے طلبہ کوان امتحانات میں خصوصی پروٹوکول حاصل ہوتاہے۔ان کے لئے نہ صرف ہمارے جیسے جاہل اورتعلیم سے بے خبربلکہ بڑے بڑے معززاساتذہ اوراچھے بھلے ماہرین تعلیم بھی اپنے مبارک ہاتھوں میں پانی کے گلاس کے نیچے نقل شریف لیکرحاضرہوتے ہیں۔ملاکنڈبورڈکے کنٹرولرکابدقسمت بیٹاتوکسی کی ضد،حسدیااناکی بھینٹ چڑھاورنہ اس طرح کے کارنامے اورکرتوت توکراچی سے لاہوراورپشاورسے کوئٹہ تک ہربورڈاورہرجگہ دیکھنے کوملتے ہیں۔کوئی مانے یانہ۔حق اورسچ یہ ہے کہ تعلیمی نظام کواپنے ان مبارک ہاتھوں سے تباہ کرکے نئی نسل کابیڑہ ہم نے خود غرق کردیاہے۔جہاں صرف ڈگری کے لئے تعلیم حاصل کی جاتی ہویاتعلیم حاصل کرنے کامقصدصرف زیادہ نمبرزاورپوزیشن ہولڈربننا ہوں وہاں پھرکسی ایک بورڈیاامتحانی سنٹرمیں نہیں بلکہ اکثرجگہوں پراس طرح کی نت نئی تاریخیں رقم ہوتی ہیں اورنئے نئے ریکارڈبنتے ہیں۔ہمارے ملک کایہ مجموعی نظام دراصل اسی تباہ حال اوربانجھ تعلیمی نظام کاآئینہ دارہی توہے۔رشوت،سفارش اورپرچیوں کی مددسے پاس اورپوزیشنزلینے والے شاہین ملک کی کیاخدمت کریں گے۔؟ اس سوال کاجواب ہم سب کے پاس ہے اورہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف بھی ہیں لیکن اس کے باوجودمیرے سمیت ہرشخص نے آنکھیں بندکی ہوئی ہیں۔ہرشخص کی یہ کوشش اورخواہش ہے کہ اس کاشاہین کچھ پڑھیں یانہ۔لیکن میٹرک اورانٹرکے امتحان میں اچھے نمبرزاورپوزیشن ضرورلیں۔جہاں معاملہ اوربات ہی نمبرزاورپوزیشن کی ہووہاں پھرایسے ہی تاریخی ریکارڈاورکارناموں کامنہ دیکھناپڑتاہے۔سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اورکانوں سے سننے کے بعدبھی ہمیں تواپنے ان شاہینوں کے کارناموں پرذرہ بھربھی کوئی شک وشبہ نہیں لیکن صرف ایک منٹ کے لئے ذرہ سوچیں کہ تعلیمی میدان میں تعلیم یافتہ اورسب سے زیادہ شرح خواندگی والے ممالک کواس طرح بچھاڑنے یاپیچھے چھوڑنے پراگرکہیں انہوں نے ان پوزیشن ہولڈرزاورنئی تاریخ رقم کرنے والوں کوایک صرف ایک بارکسی امتحان سے گزاراتوپھرکیاہوگا۔؟
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 132119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.