استاد محترم اور استاد محترم کا مقام مرتبہ
راقم
محمدبرھان الحق جلالی
خالق کون و مکاں نے تخلیق انسان کو احسن التقویم ارشادفرمایاہے ،مصوری کا
یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ وبو میں رب کائنات کی نیابت کا حق عطا کیا۔اشرف
المخلوقات، مسجود ملائکہ اور خلیفۃ اللہ سے متصف حضرت انسان نے یہ ساری
عظمتیں ،شانیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں علم ،عقل
و شعور، فہم وادراک ،معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی وجہ انسان
باقی تمام مخلوقات سے اعلیٰ اور ممتازقرار پایا۔
یہ حقیقت ہے کہ علم کا حصول درس او رمشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی
ممکن ہوتا ہے،ان میں بنیادی و مرکزی حیثیت استاد ہی کی ہے،جس کے بغیر صحت
مند معاشرہ تشکیل پاناناممکن ہے ،معلّم ہی وہ اہم ہستی ہے جو تعلیم وتربیت
کامرکز و محور ہوتا ہے ۔
سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کردیا
شمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا
دین اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن
میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے
’’انمابعثت معلما‘‘فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و تعظیم وتوقیراور
رفعت و بلندی کے اعلی منصب پر فائز فرمادیا ۔درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے
صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ دنیا نے
استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے
اس کے بلند مقام سےعطاءکیا ہے۔ کسی بھی انسان کی فلاح وکامیابی کے پیچھے
ایک بہترین استاد کی بہترین تعلیم وتربیت ہی کار فرما ہوتی ہے۔
معلّم کائنات ﷺ نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا ،ہر نبی شریعت
کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھاجسے
حضرت اٰدم ؑ دنیا میں ذراعت، صنعت وحرفت کے معلّم اوّل تھے ،کلام کو ضبط
تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کیا،حضرت نوح ؑ نے
لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم ؑ نے علم مناظرہ
اور حضرت یوسف ؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء ﷺنے
معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے
بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔(بخاری ۔5027)معلّم کے لیے نبی
کریم ﷺکی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے
رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے
وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی
سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طا لب علم ( یہ سب چیزیں اللہ کی
رحمت سے دورنہیں ہیں)۔(ترمذی۔2322)استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم
سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،باعث
تخلیق کائنات مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا
کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی
تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت
بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)اساتذہ کے لیے حضور نبی کریم ﷺ نے
دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی
اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو
داؤد۔366)
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک
کورے کاغذ جیسےبچے سے لے کر ایک کامیاب وکامران انسان تک کاسارا سفرانہی
اساتذہ کرام کے مرہون منت ہوتا ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جو رنگ بھرنا
چاہیں بھر سکتے ہیں۔ جیسے سنوارنا چاہیں سنوار سکتے ہیں. استاد ایک چراغ ہے
جو تاریک راہوں میں روشنی دیکھتا ہے۔ استاد ہی قوم کے نوجوان کو علوم و
فنون سے آراستہ پیراستہ کرتا اور اس قابل بناتا ہے۔ کہ وہ ملک اور قوم کی
پریشانیوں اور ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔ استاد جہاں نوجوانوں کی اخلاقی
وروحانی تربیت کرتا
انسان کو اس کی ذات سے آگہی ایک استاد ہی کراتا ہے۔ خدا کی ذات کا انکشاف
بھی استاد ہی کراتا ہے۔ ایک بہترین استاد وہی ہوتا ہے جو صرف کتابوں کا علم
ہی نہیں دیتا ہے بلکہ کردار سازی، شخصیت سازی بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔
کون ہیں ہمارے اساتذہ؟
ہمارے اساتذہ وہ ہیں جب کلاس روم میں داخل ہوئے تو ان کی تمام توجہ ہماری
جانب مبذول ہوجاتی ہے وہ ہرطالب علم کا نام لیکر اس کا حال احوال پوچھتے
ہیں اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتاتو اسے حل کرنے میں ذاتی دلچسپی کا
اظہار کرتے ہیں ،ان کے پڑھانے کا انداز اتنا پیارا اور مشفقانہ کہ ہر بات
دل اور دماغ پر نقش ہوجاتی ،وہ انتہائی دوستانہ انداز میں بات کرتے ہیں یوں
لگتا ہے جیسے سامنے شفقت کا سمندر بہہ رہاہے کسی طالبعلم کو کوئی سزا
دیناتو دور کی بات،ڈانٹ تک نہ پلاتے کوئی غلطی کرتا تو اسے انتہائی پیار سے
سمجھتاتے ہیں اکثر طالب علم کی ظاہری حالت دیکھ کر اسکے حالات کا اندازہ
لگا لیتے ہیں اگر کوئی طالبعلم دو چار دن تک فیس جمع نہیں کرواتا تو اپنی
جیب سے ادائیگی کرتے ہیں اور کئی غریب طلبہ کی مدد بھی کرتے وہ ہم طلبہ کو
بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے آس پاس کی خبر رکھا کرو کوئی طالبعلم کتب یا
یونیفارم خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہوتو اسے اپنی گرہ سے کتابیں اور یونیفارم
خرید کر دیتے اور اس نیکی کا ذکر کبھی نہیں کرتے ،دل اور دماغ میں اتر جانے
والی یہ شخصیات آج بھی اپنی عادات پر قائم ہیں
ہم ان سے ملنے جاتے ہیں تو کھڑے ہو کر ملتے ہیں اپنے برابر بٹھاتے ہیں میں
بھی ہم اپنے دوستوں کو فخر سے بتاتاہیں کہ یہ ہیں ہمارے اساتذہ،ہمارے
آئیڈیل یہ ہیں ہمارے محسن وہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے استاد
کی عزت کروگے تو علم کے وہ موتی نصیب ہونگے جن کی چمک دمک سے تمہاری شخصیت
خیرہ ہوجائیگی آج کے دور کے بڑے مسائل جھوٹ' غیبت اور خود غرضی ہیں اور ان
اخلاقی امراض کا اثر بچوں پر بھی ہوتا ہے۔
وہ نصیحت کرتے ہیں کہ بُری صحبت سے بچو،اچھی ،نیک صحبت اختیار کرو
حضرت شیخ سعدی نے فرمایا
صحبت صالح ترا صالح کند۔۔۔صحبت طالع ترا طالع کند
استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب
وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک
نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد
ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔
گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیں دیتی بلکہ ایک استاد تربیت
دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا
باعث استا د ہی ہوتا ہے۔ معلّم انبیاء علیہم السلام کا نائب و وارث ہے
ہمارے اساتذہ ہمارے والدین اگر کسی کام سے ہمیں روکتے ہیں تو ان کے سامنے
ہمارا مستقبل ہوتا ہے وہ ہمارے بھلے کے لئے روک ٹوک کرتے ہیں دراصل ان کی
روک ٹوک ہمارے لئے باعث رحمت ہے
کسی نے کیا خوب کہا کہ
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے روک ٹوک ان کی حق
میں تمہارے نعمت
اگر ہمیں کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو استاد کے مقام کو سمجھنا ہوگا۔
|