پرچھائیاں اور انسان

پرچھائیوں کا پیچھا کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔در اصل پرچھائیاں ہمیں ایک ایسی دنیا کا سراغ دیتی ہیں جو انسان کے حیطہِ ادراک سے ماورا ہو تا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ انسان ان پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔کچھ با ہمت لوگ پرچھائیوں سے منزلِ مقصود کا پتہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور کچھ وہم و گمان کا شکار ہو کر سب کچھ کھو دیتے ہیں۔میں ایسے بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں جن کی زندگی بڑی ہی تنگدستی ، غربت اور حسرت و یاسیت کا نمونہ تھی لیکن پھر ہمتِ مردانہ ، مددِ خدا اور جہدِ مسلسل نے انھیں کامیابی و کامرنی سے ہمکنار کر دیا اور ان کے سارے سپنے سچ ہو گے ۔ کامیابی کی پر چھائیاں ان کی زندگی کیلئے کچھ کر گزرنے کا عنوان بن گئیں اور پھر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گے۔ زندگی کو سر کرنے کے جنون نے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور پھر وہ واقعی سب سے آگے نکل گے ۔ یہ حوصلہ بھی کمال کی چیز ہوتی ہے۔یہ کسی بھی لمحے بیدار ہو جاتا ہے اور پھر شکست خوردہ انسان فاتح بن کر سامنے آ جاتا ہے اور پوری کائنات کی ہئیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔،۔

تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ فاتح عالم تیمور لنگ اپنے دشمنوں سے بھاگ کر ایک غار میں چھپا ہوا تھا ۔ اس کی سلطنت اس سے چھین لی گئی تھی اور اس کی فوج تتر بتر ہو چکی تھی جبکہ وہ خود بھی اپنی جان بچانے کیلئے غار میں پناہ لئے ہوئے تھا ۔ مایوسی اور یاسیت کے ان لمحوں میں میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک نحیف سی چیونٹی ا ناج کادانہ لے کر دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن کچھ دور جا کر وہ نیچے گر جاتی ہے۔وہ ایک بار پھر اپنا سفر اسی جگہ سے شروع کرتی ہے جہاں سے وہ اناج کا دانہ لے کر چلی تھی لیکن پھر گر جاتی ہے ۔وہ کئی بار ایسا کرتی ہے اور ہر بار گر جاتی ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارتی۔تیمور لنگ سب کچھ بھول کر پورے انہماک سے چینونٹی کی اس کوشش پیہم کو دیکھنے لگ جاتا ہے ۔اس کا تجسس بڑھتا جاتا ہے تا حالانکہ وہ لمحہ آن پہنچ جاتا ہے جب تیمور لنگ اس چیونٹی کو دیوار پر کامیاب و کامران چڑھتے ہوئے دیکھتا ہے ۔تیمور لنگ فرطِ مسرت سے نعرہ زن ہو تا ہے ۔اس کے اندر کا انسان جاگ جاتا ہے۔اس کے من میں جرات و بسالت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔وہ اپنے تئیں سو چنے لگا کہ اگر ایک نحیف سی چیونٹی جہدِ مسلسل سے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے تو پھر میں تو قدرت کا سب سے حسین شاہکار ہوں لہذا میرے لئے کامیابیوں کے در وازے کیوں نہیں کھل سکتے ؟وہ تتر بتر فوج کو یکجا کرتا ہے اور پھر پوری قوت سے اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے نیست و نابود کر کے دم لیتا ہے۔ایک وقت آتا ہے وہ فاتح عالم بنتا ہے۔تاریخ میں تیموری خون اسی کی جوانمردی اور بہادری کی وجہ سے جرات و بسالت اور غیرت کا استعارہ بن جاتا ہے ۔،۔

انسان لا محدود خواہشات کا ایک ایسا مرقع ہے جو ہر آن نئی دنیاؤں کا متلاشی رہتا ہے۔وہ اپنی آرزوؤں کے چلمن میں رنگین پھولوں کی بساط سجاتا ہے اور دنیا کی رنگینیوں سے بہرہ ور ہو نا چاہتا ہے۔وہ ہر اس شہ کو جو اسے دلکش و رنگین دکھائی دیتی ہے اپنے دستِ تصرف میں لینے کی آرزو کرنے لگ جاتا ہے۔وہ جیسے جیسے خواہشات کی لگامیں کستا جا تا ہے اس کی خواہشات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگ جاتی ہیں۔اب ساری خواہشوں کی تکمیل تو کسی کا بھی مقدر نہیں ہوتیں ۔دنیا کی ہر نعمت کسی بھی انسان کی مٹھی میں بند نہیں ہو سکتی،بقولِ شاعر۔(یہاں پر کسی کو بھی حسب ِ حال نہ ملا۔،۔ کسی کو ہم نے ملے کسی کو تو نہ ملا ) ۔نیرنگی ِ زمانہ یہی ہے کہ نعماء نے چھوئی موئی کی طرح انسان کی مٹھی میں بند بھی ہو نا ہے اور اس مٹھی سے پھسل بھی جا نا ہے۔کتنے خاندانوں کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دھول چاٹتے دیکھا اور کتنے محروموں کو عظمت کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے دیکھا۔میرے مولا کی غر ض و غائت کیا ہوتی ہے شائد ہم اپنی ذہنی سطح پر اسے سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں ، ہمارا حال تو یہ ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ اپنی ذات میں سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں لیکن میرا مولا جسے چاہتا ہے اسے نواز دیتا ہے اور سب کچھ ویسے ہی ہو تا چلا جاتا ہے جیسے وہ چاہتا ہے چاہے یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری لگے ۔کن فیکون اس کی صفت ہے لیکن اس کائنات کیلئے اصول و ضوابط کو متعین کرنے کے بعد اس نے اس سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔اب اسے کن فیکون کہنے کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آتی کہ اس نے انسان کو آزادانہ فیصلے صادر کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔مالک ِکائنات نے اپنی صفت کا ایک محدود سا حصہ حضرتِ انسان کو عطا کر دیا تا کہ وہ خود اپنے لئے اپنے مقام کا تعین کرے ۔ انسانی جینز کی حقیقت اپنی جگہ اہم ہے لیکن جینز کے باوجود بھی ہر انسان کو جہدِ مسلسل سے اپنا مقام اور تشخص بنانا ہو تا ہے ۔ شاعر ، ادیب ،ڈاکٹرز،وکلاء ، قانون دان،سائنسدان اور حکماء کا اپنا وجود ہے لیکن بلندی اسی کا مقدر بنتی ہے جو اپنا وقت ریسرچ اور مطالعہ میں صرف کرتا ہے ۔کاہل، سست اور آرام طلب افراد تاریخ کے پنوں میں کبھی اپنی جگہ نہیں بنا پاتے ۔ان کا وجود تو ہوتا ہے لیکن جلا ل الدین رومی اور اقبال نہیں بن پاتے کیونکہ ایسا بننے کیلئے جو چیز بنیاد بنتی ہے وہ اس سے تہی دامن ہو تے ہیں۔،۔

خواہشیں سدا سے انسانی زندگی کی ڈگر کا تعین کرتی ہیں۔انسان تتلیوں کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہتا ہے لیکن تتلیاں اس کی پہنچ سے دور چلی جاتی ہیں۔وہ ان کے رنگوں،کشش ،خوبصورتی اور جاذ بیت کو اپنے دل میں جگہ دے لیتا ہے تو پھر ہر سو اس کیلئے لطافت و دلکشی کے ہالے بنا دئے جاتے ہیں اور وہ انہی سے لطف اندوز ہو تا رہتا ہے ۔کبھی کبھی انسانی آرزوئیں حقائق کے مدِ مقابل کھڑی ہو جاتی ہیں جس سے وہ کسی دوسری ڈگر پر نکل جاتا ہے اور سب کچھ کھو دیتا ہے۔آج کا نوجوان خواہشات کا انبوہِ کثیر لئے ہو ئے ہے۔وہ سب کچھ سمیٹ لینے کیلئے بے تاب نظر آتا ہے لیکن وہ ایسا جہدِ مسلسل ،ریاضت ،تفکر اور عزمِ پیہم کی جانفشانی کے بغیر پانا چاہتا ہے حالانکہ محنت اور خونِ جگر کے بغیر کامیابی کا حصول نا ممکن ہو تا ہے ۔بقولِ اقبال۔(رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت ۔،۔ معجزہِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود )۔حدود فرا موش آرزوؤں کے جلو میں پلتا، بڑھتا اور مچلتا انسان مذہب اور اقدار سے بے گانہ ہوتا جا رہا ہے۔معاشی تنگدستی ،بد حالی اور مالی معاملات کی خستہ خالی نے اسے یاسیت کے سمندر میں پھینک کر نشے کی لت کا عادی بنا دیا ہے۔ فرسٹریشن جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان نشہ میں پناہ لیتا ہے کیونکہ حا لتِ نشہ میں وہ دنیا و ما فیا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ زندگی اک حباب کی سی ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔،۔

انسان کی تنگدستی اسے دنیا کاسامنا کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی ، اس کی محرومیاں اس کا جگر جلاتی ہیں تو وہ لاچار ہو کر دوسری سمت میں نکل جاتا ہے۔ وہ چھلانگ لگا کر ساری نعماء کا مالک بننا چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔انسان نے جوخواب دیکھ رکھے ہوتے ہیں اور جو کچھ اس نے سوچ رکھا ہو تا ہے اس کا حصول نا ممکن ہو جائے تو وہ آسان راہ ڈھونڈنے لگ جاتا ہے ۔بڑے بڑے بنگلے،بڑی بڑی گاڑیاں، خوبصورت دوشیزائیں ، نوکروں کی فوج بھلا تنگدستی میں مر مر کر جینے والوں کا مقدر کیسے بن سکتی ہیں؟ معاشرے کی سنگدلی انسان سے اس کے خو اب چھین لیتی ہے تو وہ معاشرتی اقدار کا مخا لف بن جا تا ہے ۔ کامیاب انسان اس کے حسد اور کینہ کا نشانہ بنتے ہیں۔ایسے لوگ ہر آنے والے دن کے ساتھ ڈوبتے چلے جاتے ہیں جبکہ با ہمت لوگ ترقی کے زینے طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ محنت ،جفا کشی،ایمانداری اور علم و حکمت کا صلہ کامیابی ہی ہوا کرتا ہے لیکن کچھ کاہل،سست اور ھڈ حرام لوگ اس چھوٹی سی سچائی کو بھی جان نہیں پاتے تو محرومیاں اور ناکامیاں انھیں ایسی صف میں کھڑا کر دیتی ہیں جس سے پھر وہ تا دمِ مرگ باہر نہیں نکل پاتے ۔ان کا انجام انتہائی حسرت آمیز ہو تا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے قیمتی وقت کو فروعات کی نذر کیا ہو تا ہے( جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود۔۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا)

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.