مہنگے ڈیزائنر عروسی ملبوسات کا دور ختم، شادی کے دن ماں یا ساس کی شادی کا جوڑا پہننے کا ٹرینڈ کیا ثابت کرنے جا رہا ہے

image
 
شادی کی تیاری میں سب سے مہنگا شعبہ اگر دیکھا جائے تو وہ دلہن کے ملبوسات کا ہوتا ہے۔ ہر لڑکی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس موقع پر وہ خوبصورت ترین نظر آئے اس کے لیے لباس کا حسین اور منفرد ہونا سب سے زيادہ ضروری ہوتا ہے- اس خیال نے ڈیزائنرز کی چاندی کر دی اور انہوں نے لڑکیوں کے لیے عروسی ملبوسات کی ڈیزائننگ شروع کر دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو مہنگے داموں بیچنا بھی شروع کر دیا-
 
مگر فیس بک کے خواتین کے ایک پیچ سول سسٹرز پر ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا گیا جس میں وہ خواتین سامنے آرہی ہیں جنہوں نے اپنی شادی کے موقع پر مہنگے ڈیزائنر کے بجائے اپنی ماں یا ساس کے کپڑے پہنے تھے۔ یہ ٹرینڈ تیزی سے خواتین میں مقبول ہو رہا ہے اس وجہ سے اس ٹرینڈ کا حصہ بننے والی خواتین سے بی بی سی اردو والوں نے بھی رابطہ کر کے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے-
 
یہ ٹرینڈ کئی حوالوں سے بہت فائدہ مند ہے اس سے ایک جانب تو ان کپڑوں کے بہانے لڑکیاں اپنی روایات سے جڑ رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے سفید پوش لوگ جو کہ مہنگے ڈیزائنر ملبوسات افورڈ نہیں کر سکتے ہیں- اس ٹرینڈ کے ذریعے ان کو بھی ایک باعزت راستہ مل رہا ہے اس ٹرینڈ سے جڑے کچھ واقعات آج ہم آپ کے سامنے بیان کریں گے-
 
بارات کے دن ماں کا جوڑا پہننے کا ٹرینڈ کس نے شروع کیا
اگر شادی کے دن ماں کے جوڑے کے ٹرینڈ کے آغاز کی تاریخ کو دیکھیں تو اس کا آغاز سب سے پہلے ہمیں حمزہ علی عباسی اور نیمل خاور کی شادی میں نظر آتا ہے- جب کہ نیمل نے شو بز کے شعبے سے منسلک ہونے کے باوجود اپنی زندگی کے اہم ترین دن میں اپنی والدہ کے عروسی جوڑے کو پہننے کا انتخاب کیا جس نے باقی لڑکیون کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ ایسا کیا جا سکتا ہے-
 
image
 
عظیم ماں کو اس اہم دن کیسے بھول جاؤں
بختاور بھٹو زرداری نے بھی اپنی شادی کے دن اپنی ماں کا جوڑا تو نہیں پہنا تھا مگر اس کے لیے انہوں نے اسی ڈيزائنر کا انتخاب کیا جس نے اس کی والدہ یعنی بے نظیر بھٹو کی شادی کا جوڑا ڈیزائن کیا تھا- بارات کے جوڑے میں انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس کی ڈیزائننگ ان کی والدہ کے جوڑے جیسی ہی ہو-
 
ماں اور ساس کے جوڑے پہننے والی خوش قسمت
اس ٹرینڈ کے حوالے سے نمرہ حامد کا یہ کہنا تھا کہ وہ خود کو وہ خوش قسمت لڑکی قرار دیتی ہیں جس نے اپنی ماں کے ساتھ ساتھ اپنی ساس کے کپڑے بھی پہنے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر لوگ زيورات تو ماں اور ساس کے بہت فخر سے لے کر پہنتی ہیں مگر شادی کے جوڑے بھی بہت مہنگے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کو پہننا بھی ایک خوبصورت احساس ہے-
 
image
 
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادی کے دن ماں کا وہ جوڑا پہننا جو کہ ماں کی شادی کے لیے نانی نے بنوایا تھا ایک بہت ہی جزباتی لمحہ ہوتا ہے جس میں نسلوں کا پیار اور جزبات پوشیدہ ہوتے ہیں ایسا احساس ان کو اس وقت ہوا جب کہ انہوں نے شادی والے دن اپنی ماں کا جوڑا پہنا تھا۔ اس کے بعد ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے بھی بہت لکی رہیں جب کہ ان کی ساس نے بھی ان کواپنا جوڑا پہننے کو دیا اس سے ان کے اور ان کی ساس کے درمیان کا تعلق مزيد مضبوط ہو گیا-
 
جوڑا سو سال پرانا مگر چمک آج جیسی
اسی طرح ایک اور خاتون فاطمہ فصیح کا یہ کہنا تھا کہ ان کا تعلق انڈیا سے ہے اور وہ رخصت ہو کر پاکستان کی بہو بنیں تو اس موقع پر انہوں نے جوڑا پہنا وہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا یہ جوڑا سو سال پرانا تھا جس کو ان کی نانی نے والدہ نے دیا تھا- اس جوڑے پر سونے کے تاروں کا کام بنا ہوا تھا ۔ اگرچہ اس کا کپڑا کچھ خراب ہو گیا تھا مگر فاطمہ نے اس کا کام نکال کر دوسرے کپڑے پر لگا کر ایسے ڈیزائن کر لیا تھا کہ دیکھنے والوں کو حسین ترین لگ رہا تھا -
 
ماں اور ساس کے جوڑے پہنو # اس ٹرینڈ کے فائدے
اس ٹرینڈ کے سبب ایک جانب تو پرانی نسلوں کے ساتھ احساسات کی ڈور مضبوط ہو رہی ہےاس کے علاوہ مہنگے ڈیزائنر ملبوسات کے بجاۓ اقدار کو تحفظ مل رہا ہے -
YOU MAY ALSO LIKE: