|
|
سزائے موت عام طور پر قانون کے تحت ایک ایسی سزا ہے جو
اس فرد کو دی جاتی ہے جس کا جرم کسی دوسرے کی موت یا غداری ہوتا ہے۔ یہ سزا
کسی ایک فرد کے حصے میں نہیں آتی ہے بلکہ اس سزا کا تاوان ایک خاندان کو
بھرنا پڑتا ہے- |
|
یہ سزا ایک فرد کو تو پل بھر میں موت کے حوالے کر دیتی
ہے مگر اس فرد سے جڑے لوگ اس سزا کو پایہ تکمیل تک پہنچانے تک پل پل مرتے
ہیں- ایک جانب تو معاشرے کی نفرت اور تضحیک کا شکار ہو جاتے ہیں اور دوسری
جانب اپنے پیارے کو بچانے کی کوشش اور خواہش ان کو پل پل مرنے پر مجبور کر
دیتی ہے- ایسی ہی کچھ کہانیاں آج ہم آپ کے سامنے پیش کریں گے جن کے بارے
میں ہم میں سے اکثر افراد نے کبھی سوچنے تک کی کوشش نہیں کی ہوتی ہے- |
|
سزائے موت کے قیدی اقبال
رانجھا کی بہن صاحبہ سلطان |
اقبال رانجھا کو منڈی بہاؤالدین میں 1998 میں ایک بس
لوٹنے کے دوران ایک فرد کو قتل کرنے کے الزام میں پہلے جیل ہوئی اور اس کے
بعد اس کو موت کی سزا سنا دی گئی- جوئنائل جسٹس سسٹم 2000 کے مطابق کسی کم
عمر انسان کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی جا سکتی مگر 2016 میں اقبال رانجھا
کو اتنے سالوں کے ٹرائل کے بعد پھانسی کی سزا سنا دی گئی- |
|
اقبال کی بہن صاحبہ سلطان کا کہنا تھا کہ اقبال ان کا سب سے چھوٹا بھائی
تھا جس کو انہوں نے اپنے بچوں کی طرح پالا تھا اور انہوں نے قسم کھائی تھی
کہ جب تک اقبال کو جیل سے چھڑا نہیں لیں گی تب تک چوڑياں نہیںں پہنیں گی-
مگر اقبال کی پھانسی کی سزا کے بعد اس کی اپیل میں اتنا عرصہ لگ گیا کہ ان
کی چوڑياں پہننے کی عمر ہی ختم ہو گئی ان کے والدین منوں مٹی تلے جا پہنچے- |
|
اپنی کمزور مالی حالات کے باوجود انہوں نے بھائی کے کیس کے لیے دن رات ایک
کر دیے۔ اپنے بچوں کے منہ سے ایک ایک نوالہ چھین کر انہوں نے وکیلوں کی
فیسیں بھریں اور باقاعدگی کے ساتھ اقبال سے ملاقات کے لیے جاتی رہیں- |
|
ملاقات کے لیے جب جاتیں تو اقبال آنکھوں میں امید لیے ان کی جانب دیکھتے کہ
کیا میں کوئی خوشخبری لے کر آئی ہوں اور میں ان کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے تسلی
دیتی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور ان سے ملاقات کے بعد باہر آکر اپنی بے بے
بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتی تھی- |
|
|
|
بائيس سال کی اس طویل جدوجہد کے بعد جب کہ اقبال نے اپنی
جوانی کا بہترین وقت جیل میں گزار دیا 2020 میں اقبال بلاآخر جیل سے باہر
آنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے صاحبہ سلطانہ آج بھی
آبدیدہ ہو جاتی ہیں- |
|
سزائے موت کے منتظر قیدی
کی ماں مریم |
مریم کا بیٹا گزشتہ اٹھارہ سالوں سے لاہور کی کوٹ لکھپت
جیل میں قید ہے ان کو ان کے دوست کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی
گئی ہے- مریم کے مطابق ان کا بیٹا فیصل آباد سے اوکاڑہ اپنے دوستوں سے ملنے
گیا تھا جہاں پر کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی اس دوران گولی چلنے سے ان کے
بیٹے کا ایک دوست زخمی ہو گیا باقی تمام دوست اس کو دیکھ کر فرار ہو گئے جب
کہ مریم کا بیٹا اس کی مدد کے لیے وہیں رک گیا۔ زخمی نے تو دم توڑ دیا مگر
اس کے قتل کا الزام مریم کے بیٹے پر لگا کر پولیس نے گرفتار کر لیا۔ |
|
مریم کا یہ بیٹا گھر کا سب سے بڑا تھا باپ کی موت کے بعد
گھر کا کفیل تھا اس کی گرفتاری اور سزائے موت نے ان کے خاندان کو برباد کر
دیا۔ وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے اس کے ساتھ وکیلوں کے خرچے اور دیگر
اخراجات نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے- |
|
اٹھارہ سالوں سے دن رات وہ اپنےاس بیٹے کو چھڑانےکی کوشش
کر رہی ہیں مگر اب تک ان کو اس میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں مل سکا ہے مریم
عدالتی نظام کی سست روی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں- |
|
|
|
اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کے رویے
نے ان کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ سزائے موت کا ایک قیدی جیل میں سزا نہیں بھگت
رہا ہوتا بلکہ اس کا پورا خاندان اس کے ساتھ اس سزا میں شریک ہوتا ہے۔ |