سلائی اک روایت

وہ کام جو دنیا میں آتے ہی ہر انسان کرتا ہے ۔
انقلاب برپا کر دینے والا امریکی ۔
پیغمری پیشہ جو ہر گھر کی ضرورت ۔
دم توڑتی روایت ۔
چاہے امیر ہو یا غریب ،بچہ ہو یا بوڑھا ،مرد ہو یا عورت ، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہر انسان استعمال کرتا ہے ۔ کچھ تیار کرتے ہیں کچھ تیار کرواتے ہیں ۔ ہماری ضرورت ہی نہیں اب شناخت بن گئی ہے ۔ امیری غریبی کا ٹیگ ہے ۔ ہر انسان جو اس دنیا میں قدم رنجہ فرماتا ہے سب سے پہلے اس کو کپڑے پہنائے جاتے ہیں ۔ لباس سب سے پہلی ضرورت ہے ۔ کپڑا بنانے کا ہنر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو دیا لیکن دنیا میں سب سے پہلے جس پیغمر نے کپڑا سلائی کر کے پہنا وہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں ۔
آپ کپڑے سے سوئی گزارتے جاتے اور اللّہ کی تسبیح بیان کرتے ۔
سلائی کے ہنر میں انقلاب برپا کرنے والا ایک امریکی الیس ہووے ہے ۔ جس نے سلائی مشین 1845 میں بنائی ۔ لیکن وہ مشین بس جوتے سینے کے کام آتی کیوں کہ اس کی سوئی میں دھاگا ہاتھ سوئی کی طرح ڈالا جاتا ۔ صدیوں سے سوئی کی جڑ پر سورا خ ہوتا تو مشین کی سوئی بھی ویسی ہی بنائی گئی ۔ بعد ازاں پے درپے ناکامی کے بعد اک خواب کے ذریعے الیس ہووے کو علم ملا تو اس نے سوئی کی نوک میں سوراخ کر کے دھاگا ڈالا ۔ بس اس کے بعد کپڑے کی سلائی میں جو جدت آئی وہ سب مشین کی مرہون منت ہے ۔
یہ ہنر نسل در نسل ہماری ماؤں تک پہنچا ۔ ہر گھر میں اور کوئی مشینری بھلے نہ ہوتی سلائی مشین ضرور ہوتی ۔ بڑی بزرگ عینک لگائے ہاتھ سوئی سے کسی کپڑے کو ٹانکے لگاتی نظر آتی ۔ عید آتی یا گھر میں شادی ہوتی مائیں گھر پر ہی کپڑے سلائی کرتیں ۔ نہ صرف سلائی ہوتے بلکہ کشیدہ کاری تارکشی ۔ کڑھائی وغیرہ بھی لالٹین کی روشنی میں کی جاتی ۔ بازاروں سے سوٹ سلوانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔
شادی، عید سے مہینوں پہلے گھروں میں رنگ برنگ کپڑوں کا ڈھیر لگ جاتا ۔ دوپٹوں پر گوٹہ لیس شیشے کا کام کیا جاتا ۔
عورتیں سلائی کر کے اپنے گھر کی معشیت کا بھی حصہ بنتی ۔ اب یہ ہنر مڈل گھرانوں میں بھی بچیوں تک منتقل نہیں کیا جاتا ۔ شہروں میں جگہ جگہ درزی بیٹھے ہیں جو کہ منہ مانگے دام لیتے ہیں۔ تہواروں پر ان کے نخرے ہی الگ ہوتے ہیں ۔ مرد حضرات ہی نہیں عورتیں بھی ان کی دوکانوں کے چکر لگاتی نظر آتی ہیں ۔ کچھ اس خواری سے بچنے کو بوتیکس کا رخ کرتے ہیں ۔بوتیکس ،ریڈی میڈ سوٹس نے اس روایت کو تقریباً ختم کر دیا ہے ۔
مڈل گھرانوں کی عورتیں بھی سلائی کی مد میں ہزاروں روپے لٹا رہی ہیں۔
سلائی جیسا پیغمبری پیشہ اگر ہر لڑکی سیکھ لے تو نہ صرف اپنے شوہر کے ہزاروں روپے بچا سکتی بلکہ اجرت پر سلائی کر کے خودکفیل بھی بن سکتی ہے ۔
 

اسماء ناز سونی
About the Author: اسماء ناز سونی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.