کلاسز تک والدین کی رسائی


2020کا سال کویڈ۔ 19کی وجہ سے دنیا کے قریب قریب تمام ممالک میں ہی یکساں نوعیت کاتھا۔ چند ایک ممالک کے علاوہ تقریباًہر جگہ خوف و ہراس تھا اور کیوں نہ ہوتا اس وبا نے پھوٹتے ہی اپنے مہلک انداز دکھا نے شروع کر دیے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس وبایئ وائرس کے آگے بے بس نظر آئے۔ جدید ترین میڈیکل ٹیکنا لو جی سے آراستہ ہسپتالوں سے اس مرض کے شکار جس بے بسی اور لا چارگی سے قبرستانوں میں پھینکے گئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان ترقی یافتہ ممالک کا حال ترقی پزیر ممالک سے کچھ اچھا نہ تھا۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز-

کچھ ایسا ہی کام ہمارے ملک کے سکولوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ تمام اعلیٰ درجے کے انگلش میڈیم سکول کویڈ۔19کی وجہ سے اپنا بھرم کھو بیٹھے۔اب ایسا تو نہیں کہا جاسکتا کہ بھلا ہو اس کرونا کا‘ بہرحال اس وبا کے ذریعے قدرت نے ہمیں ایک سنہری موقع ضرور دیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی کلاسز میں حصہ لیتے ہوئے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت سے براہِ راست مستفید ہوں۔ ویسے تواس عمل کا انجام اپنے بال نوچنا ہی ہے۔

پاکستان میں اس وبا کی پہلی لہر کے بعد جب آن لائن کلاسزکا علان ہوا تو بہت تجسس اور خوشی تھی کیونکہ بچپن سے آن لائن ایجوکیشن کا سنا تھا مگر اتفاق نہیں ہوا۔ خوشی کے ساتھ اطمینان بھی تھا کہ بچے انگلش میڈیم سکول میں زیرِتعلیم ہیں۔ ان کی اتنی بھاری فیسیں دینے کا یہ فائدہ تو ہو گا کہ گھر بیٹھے ہی جدید آن لائن سسٹم کے ذریعے بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے اور سب کچھ بڑا اعلیٰ ا ور معیاری ہو گا۔ سب سے بڑا فائدہ یہ نظر آیا کہ بچوں کی کارگردگی کا براہِ راست جائزہ لیا جا سکے گا‘ساتھ ہی ساتھ انگلش پہ ہاتھ سیدھا کرنے کا موقع ملے گا۔ آخر کو انگلش میڈیم سکول ہے۔جہاں تک تعلق ہے اردو کے مضمون کا‘ تو ظاہر سی بات ہے کہ انگلش میڈیم سکول میں اردو کمزور ہی ہو گی اور والدین اس بات پہ فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ ان کا بچہ ایک انگلش سکول میں ہی پڑھتا ہے۔ رہی بات ا نگلش کی تو اس سلسلے میں سارا ملبہ والدین پر ڈال دیا جاتا ہے کہ چونکہ گھروں میں بچوں کے ساتھ انگلش نہیں بولی جاتی لہٰذا بچوں کی انگلش میں بول چال کیسے بہتر ہو؟ خواہ والدین کی میٹنگ پرنسپل کے ساتھ ہو یا اساتذہ کے ساتھ‘ گردان یہی ہوتی ہے کہ سکول میں بچہ صرف چھ گھنٹے گزارتا ہے باقی کا وقت گھر پہ ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بچوں کی کارگردگی بہت نمایاں ہوتی ہے جن کے والدین اپنے بچوں پر بھر پور توجہ دیتے ہیں لیکن جہاں باتtٓتی ہے انگلش کی‘ تو حقیقت کچھ یوں ہے کہ ساری پڑھائی ایک طرف اور انگلش بولنا ایک طرف۔اس انگلش نے ہماری پچھلی نسلوں کو پریشان کر رکھا ہے اور اسی انگلش کی بلیک میلنگ ہے کہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر والدین اپنے بچوں کواونچے اور مہنگے سکولوں میں داخل
کراتے ہیں اور منتظر ہوتے ہیں کس دن ان کا بچہ فرفر انگلش بولے؟ لیکن بچہ فرفر تو دور‘ اَڑ اَڑ کر بھی انگلش بولنے سے کتر ا تا ہے کیو نکہ گھر و ں میں والدین کی اکثر یت انگلش بو لنے کی صلا حیت سے محر و م ہیں جبکہ سکو لو ں میں اساتذہ ۔ اس ضمن میں پرائیویٹ انگلش میڈ یم سکو لو ں کا حال اردو میڈ یم اور سر کا ر ی سکو لو ں جیسا ہی ہے۔ جب ایک ٹیچر سوشل اسٹڈیز کا لیکچر اردو میں دے اور Bronze Age کو بروزن ایجBro zone Ageپڑھے تو پھر بچوں سے کیسے توقع کی جائے کہ وہ انگلش بول سکیں؟ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ خود انگلش کی کلاس میں انگلش صرف کتاب میں موجود سبق کو اونچی آواز میں پڑھنے تک محدود ہے کبھی یہ Readingٹیچر خود کرتی ہیں اور کبھی کلاس میں موجود تمام بچے اپنی باری آنے پر دو دو لائنیں پڑھتے ہیں،اس کے بعد حلفیہ‘ انگلش کا کام ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں مقصد کسی خاص سکول یا ٹیچر کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے محض یہ باور کرانا ہے کہ والدین اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف ایک دو دن کی آن لائن کلاس خاموشی سے سن لیں اور غور کریں کیا واقعی آپ کے بچوں کو دیا جانے والا زیور اتنا مہنگا ہے کہ اس کے لئے اتنی موٹی موٹی رقوم ادا کی جائیں؟ اگر آپ مطمئن ہیں تو بہت اچھی بات ہے بصورت دیگر وقت اور پیسوں میں سے ایک چیز تو بچا ئی جا سکتی ہے‘ اپنے بچو ں کو اپنی حثیت کے سکو لو ں میں داخل کر ا کر۔ و ا لد ین کی کلا سز تک رسا ئی قد ر ت کی طرف سے ایک نا د ر مو قع ہے ا س سے فائدہ ضر و ر ا ٹھا نا چا ہئے با ربا ر ا سے مو ا قع نہیں ملتے۔

Umme Aimen
About the Author: Umme Aimen Read More Articles by Umme Aimen: 5 Articles with 5973 views I am a final-year LLB student at the University of the Punjab. I am interested in writing about current issues at the national and international level.. View More