سکولز کو ہی یرغمال کیونکر بنایا جائے ؟

سکولز کو ہی یرغمال کیونکر بنایا جائے ؟

بچوں کی ویکسینیشن سے ہرگز انکار نہیں ہے لیکن بچوں کو سکولز کے احاطے میں ویکسینیشن لگانے کی پالیسی سے بچوں کو یرغمال بنا کر جبری ویکسینیں لگانے کا تاثر ابھرتا ہے جو کہ غلط بھی نہیں ہے. کیا اس سے قبل کسی ادارے میں اس طرح اداروں کے احاطے میں گھس کر ویکسینیشن کا عمل ہوا ہے؟ کرونا اور اسکی ویکسینیشن کے حوالے قوم تو یکسو ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو دو واضح گروہوں میں منقسم ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو لوگ کرونا کو ڈرامہ خیال کرتے ہوئے خود اپنی کرونا ویکسینیشن سے گریزاں ہیں وہ اپنے بچوں کی ویکسینیشن کے لئیے آمادہ ہو جائیں گے؟ والدین تو دور کی بات اساتذۂ کی کثیر تعداد بھی تا حال کرونا ویکسینیٹڈ نہیں ہے حکومت متعدد تاریخیں دے چکی کہ فلاں تاریخ تک ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف اپنی ویکسینیشن کروا لیں ورنہ... عام لوگوں پر بھی اسی طرح کی دھمکیاں لگائی گئیں کہ جو لوگ فلاں تاریخ تک ویکسینیشن نہیں کروائیں گے تو.... لیکن حکومت اپنے "ورنہ" اور اپنے "تو" پر تو قائم نہیں رھ سکی. البتہ اب حکومت کی نگاہ التفات سکولز پر جا ٹھہری ہے، تر نوالہ بننا جس کا ریکارڈ ہے . قربانی کا بکرا بننا جس کی تاریخ ہے اور صریحاً غیر منصفانہ حکومتی دباؤ کے آگے بچھ جانا جس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے. اور کچھ نہ کر سکنے کی صورت میں تاویلیں تراشنا جس کا مشغلہ بن چکا ہے.. کرونا ویکسینیشن کا معاملہ پولیو ڈراپس، خسرہ ویکسینیشن کی طرح عام معاملہ نہیں ہے یہ ہماری عمومی سماجی فضا کے پس منظر میں ایک یکسر مختلف معاملہ ہے. خاص چیز کو عام چیز پر قیاس کرتے ہوئے رائے سازی کا عمل عقلی مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے سکول مالکان اور پرنسپل صاحبان کو واضح، قطعی اور دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے کہ جس طرح کرونا ویکسینیشن کے لیے عوام کی سہولت کے پیش نظر جابجا اور ہر علاقے میں مختلف مقامات پر ویکسینیشن سنٹرز بنائے گئے ہیں اسی طرح بچوں کے لیے بھی ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں خصوصی ویکسینیشن سنٹرز بنائے جائیں جہاں والدین اپنی نگرانی میں اپنے بچوں کی ویکسینیشن کروانے کا فریضہ ادا کریں اور یہ اب اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ وھاڑی کے ناخوشگوار اور انتہائی افسوسناک واقعے کے بعد والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیاتی و جذباتی کیفیت بھی بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے اس لیے جو والدین اپنے بچوں کی ویکسینیشن کے لیے بدستور آمادہ ہیں وہ یہ کام اپنی سنگت میں ہی کروائیں، تعلیمی اداروں کی چار دیواری کو اس کے لیے استعمال نہ کریں انہیں اس سلسلے میں معاف ہی رکھیں. اس ضمن میں سکول کی نمائندہ تنظیموں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور متفقہ موقف تشکیل دیتے ہوئے ایک بھرپور اور توانا آواز کے ساتھ حاکم وقت کے سامنے اپنا مقدمہ دو ٹوک انداز میں لڑنا ہوگا..

Rauf Saeed
About the Author: Rauf Saeed Read More Articles by Rauf Saeed: 5 Articles with 5202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.