میں نے کسی سے بہت زیادہ پیار کیا مگر اس نے۔۔۔۔۔۔ ایک اور جیتی جاگتی نور مقدم جس نے خود کو سڑکوں پر رول دیا
|
|
نور مقدم قتل کیس نے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اس قتل نے اشرافیہ کے طرز زندگی پر سوال اٹھا دیے امیر گھرانوں کے وہ بچے
جو اعلی ترین ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ تفریح کے نام پر
مختلف قسم کے نشوں کا شکار ہو کر شدید نفسیاتی اور طبی مسائل کا شکار ہورہے
ہیں- جس کی وجہ سے وہ بہت سارے ایسے افعال انجام دے رہے ہیں جن کا نتیجہ
نور مقدم کے قتل اور ظاہر جعفر کی بربریت کی صورت میں سامنے آرہے ہیں- |
|
ایسی ہی ایک اور لڑکی زینب بھی ہے تیس سالہ زینب کا تعلق
بقول اس کے لاہور کے پوش علاقے گلبرک سے ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ زینب ایم بی
اے کی ڈگری رکھتی ہیں۔ روانی سے انگریزی بولنے والی زینب ہیروئين جیسے
بدترین نشے کا استعمال دن میں تین سے چار بار کر رہی ہے- |
|
اس کا کہنا تھا کہ اس کو اس نشے کی عادت ان پارٹیوں سے
ہوئی جو اس کے ساتھ اس کے کلاس فیلو کیا کرتے تھے جس میں نشے کا استعمال
کھلے عام ہوتا تھا- اس کے ساتھ ساتھ زينب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی یہ
حالت درحقیقت محبت میں ناکامی کے سبب ہوئی۔ |
|
کیونکہ اس نے جس انسان سے محبت کی وہ خود بھی نشہ کرتا تھا اس سے شادی کے
نتیجے میں ایک بیٹا بھی ہوا مگر وہ آدمی خود تو نشہ چھوڑ کر بیٹے کو لے کر
دبئی روانہ ہو گیا مگر زینب نشے کی عادت نہیں چھوڑ سکی- جس کے نتیجے میں اس
کا شوہر اس کو لاہور کی سڑکوں پر رلنے کے لیے چھوڑ کر خود اپنے بیٹے کو لے
کر دبئی سیٹل ہو گیا جس نے زینب کو اس حالت میں پہنچا دیا- |
|
|
|
سگریٹ کے دھوئيں کو کش کی صورت میں نکالتے ہوئے زينب کا
کہنا ہے کہ اس دنیا میں اب اس نے جی کر کرنا بھی کیا ہے اور اگر زندہ رہے
بھی تو کس کے لیے اس وجہ سے اس نے خود کو نشے کے دھوئيں میں ڈبو دیا ہے- |
|
زینب ناک کے ذریعے ہیروئين لیتی ہیں جو کہ خطرناک ترین
طریقہ ہے اور ایسا کرنے والے کی زندگی ہر نئے دن کے ساتھ کم سے کم ہوتی
جاتی ہے- زینب کی نور مقدم کے ساتھ مماثلت اور اس کی حالت میں مماثلت اعلیٰ
طبقے کے اشرافیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے- |
|
پہلی نظر میں زینب کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ نور
مقدم جیتی جاگتی حالت میں سامنے آگئی ہے ہمارا معاشرہ اور ہم سب نور مقدم
کو تو نہیں بچا سکی مگر زینب اور اس جیسی بہت ساری اور بیٹیوں کو بچایا جا
سکتا ہے اور ان کو نشے کے اس گرداب سے نکال کر معاشرے کا فعال حصہ بنایا جا
سکتا ہے- |
|
|
|
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ان بچوں کو تعلیمی اداروں
میں موجود اس نشے سے بچائيں اور رات دیر تک اعلیٰ طبقے کی ان پارٹیوں میں
تفریح کے نام پر نشےکے استعمال کے حوالے سے سخت ترین قانون سازی کی جائے
اور نئی نسل کو اس سے بچانے کی کوشش کی جائے- |
|