ابھی حال ہی میں چین کے انتہائی خوبصورت شہر کھون مینگ
میں اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کنونشن کے فریقوں کی 15 ویں کانفرنس کا
کامیاب انعقاد کیا گیا جسے عالمی حلقوں میں وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی تہذیب کے موضوع پر اس پہلی عالمی
کانفرنس میں دنیا کو بھرپور آگاہی حاصل ہوئی کہ ایک ایسی کرہ ارض کی تعمیر
کی جائے جس میں انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی ہو ، معیشت اور ماحول
ایک ساتھ آگے بڑھیں ، اور دنیا بھر کے ممالک مل کر ترقی کریں۔ اس مقصد کے
حصول کی خاطر چینی صدر شی جن پھنگ نے انسانیت اور فطرت کے مابین ماحولیاتی
تہذیب کی مربوط تعمیر کی تجویز پیش کی ہے جس میں سبز تبدیلی کے ساتھ
پائیدار عالمی ترقی کا فروغ ، عوام کی مرکزیت پر مبنی فلاح و بہبود کے ساتھ
سماجی انصاف کافروغ ، ایک منصفانہ اور معقول بین الاقوامی حکمرانی کا نظام
برقرار رکھنا ، شامل ہیں۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان تجاویز میں اہداف ،قواعد اور عملی طریقہ کار
شامل ہیں ۔یہ وہ عملی اقدامات ہیں جو بنی نوع انسان کی مستقبل کی ترقی پر
توجہ دیتے ہیں۔ یہ وہ دانش ہے جو چین نے اپنے تجربے کی بنیاد پر عالمی
ماحولیاتی گورننس کے لیے فراہم کی ہے ، یوں چین نے تمام ممالک کی جانب سے
کرہ ارض پر زندگی کی ایک کمیونٹی کی مشترکہ تعمیر کو فروغ دینے کے لیے ایک
راہ تشکیل دی ہے۔
عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے چین کی جانب سے اقدامات
بھی سامنے آئے ہیں۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں حیاتیاتی
تنوع کے تحفظ کے لیے کھون مینگ بائیو ڈائیورسٹی فنڈ قائم کرنے کے لیے 1.5
بلین یوآن کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ قدرتی ریزرو سسٹم کی تعمیر میں تیزی ،
اہم علاقوں اور صنعتوں میں کاربن پیک کے تحت منصوبوں کا اجراء اور دیگر
حفاظتی اقدامات کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین
عملی اقدامات کے تحت ایک خوبصورت اور محفوظ ملک کی تعمیر کے ہدف کی جانب
مسلسل بڑھ رہا ہے ، جس نے پائیدار عالمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی
رفتار فراہم کی ہے۔
انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئےچین نے ملک میں قومی پارکس کے پہلے گروپ کے
قیام کا باضابطہ اعلان کیا ہے ، جو ملک میں فطرت کے تحفظ کی کوششوں کو آگے
بڑھانے کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ ان پارکس میں سان جیانگ یوان نیشنل پارک ،
جائنٹ پانڈا نیشنل پارک ، سائبیرین ٹائیگر نیشنل پارک ، ہائی نان ٹروپیکل
رین فاریسٹ نیشنل پارک اور ووئی ماؤنٹین نیشنل پارک شامل ہیں۔ یہ پارکس
چھنگھائی ، تبت ، سی چھوان ، شان شی ، گانسو ، جیلن ، حیےلونگ جیانگ ، ہائی
نان ، فوجیان اور جیانگ شی سمیت دس صوبوں اور علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ
پارکس چین کے اسٹریٹجک ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اہم علاقوں میں واقع
ہیں۔ان پارکس کا رقبہ دو لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ہر پارک ایک مخصوص
ماحولیاتی جزو کی نمائندگی کرتا ہے۔نیشنل پارکس سسٹم کا قیام چین کا ایک
جدید پالیسی ڈیزائن ہے جس کا مقصد فطری مساکن کی بحالی اور خطرے سے دوچار
حیات کا تحفظ ہے۔یہ اقدام چین کی ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں ایک نمایاں
پیش رفت ہے ۔چین میں جنگلی حیات کے مساکن کو بہتر بنانے اور ماحولیاتی نظام
کے تحفظ کی کوششوں کی بدولت کئی نایاب اور خطرے سے دوچار اقسام آہستہ آہستہ
ان قومی پارکس والے علاقوں میں منتقل ہوئی ہیں۔مثلاً جائنٹ پانڈے کی ہی
مثال لی جائے تو اس کا شمار انتہائی نایاب جانداروں میں کیا جاتا ہے اور
چین کی کوششوں کی بدولت آج یہ خوبصورت جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار
جانوروں کی فہرست سے نکل چکا ہے۔ 2017 میں چین نے پائلٹ منصوبے کے طور پر
ایک قومی پارک کی تعمیر شروع کی جو صرف جائنٹ پانڈے کے تحفظ کے لیے وقف ہے
۔ یہ پارک چین کے تین صوبوں سی چھوان ، شان شی اور گانسو تک پھیلی ہوئی
ہے۔پارک میں پانڈے کی رہائش گاہوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا ،
نگرانی کے آلات نصب کیے گئے اور پانڈے کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن اقدامات کیے
گئے۔انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج جائنٹ پانڈے کی آبادی بڑھ کر 1800 ہو
چکی ہے۔یہ تو صرف ایک مثال ہے ،اس کے علاوہ ہزاروں ایسے نایاب جاندار اور
پودے ہیں جن کا تحفظ ان پارکس کے ذریعے ممکن ہو گا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی چین کے قومی
پارکس کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔یہ قومی پارکس نہ صرف انتہائی اہم اور
منفرد قدرتی ارضیاتی مناظر اور قدرتی ورثے کا گھر ہیں ، بلکہ حیاتیاتی تنوع
کے تحفظ میں ملکی کوششوں کی بنیاد بھی ہیں۔انہیں سائنس ، تحقیق اور تعلیم
کو مقبول بنانے کے لیے مثالی مقامات قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین کی جانب سے
مستقبل قریب میں اس طرح کے مزید قومی پارکس قائم کیے جائیں گے۔چین کا یہ
منصوبہ ایک ایسا قدم ہے جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچائے گا
اور کرہ ارض کے حیاتیاتی اور ثقافتی تنوع کے تحفظ کے ساتھ ساتھ موسمیاتی
تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
|