12ربیع الاوّل کا پیغام

دنیا اور آخرت کے خزانوں میں بنی نوع انسان کے لیے بیش قیمت ترین شے صراط مستقیم یعنی ایمان و یقین ہے۔اس جوہر کا حصول نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و محبت سے مشروط ہے ، قانون قدرت یہ ہے کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک آپؐ کی ذات گرامی قدر اس کو دنیا وما فیہا سے عزیز تر نہ ہو جائے۔ یہ التزام ہرمومن کے لیے انتہائی احتیاط و احتساب کا متقاضی ہے اگر کسی محبوب ترین رشتے اور دنیاوی زرق برق کو اپنے دل میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت پر غالب کر لیا توگویا ایمان میں نقب لگا لیا جبکہ دوسری طرف عشق رسول میں غلو پیدا کرکے شرعی حدود سے تجاوز کر لیا تو بہت بڑی تباہی کے دہانے پرجا پہنچا ۔انبیاء سے عقیدت و احترام اور غلو کو کفر و شرک کا لباس پہنا کر شیطان نے سابقہ اقوام کو ہلاک کروایا ، آج بھی عیسائی 25دسمبرکو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے منسوب کرکے دنیا بھر میں شراب و شباب کا طوفان برپا کرتے ہیں جبکہ یہودی پاس اوورPASS OVER، یوم تشکرTHANKS GIVING، یوم کفارہYOM KIPPUR کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسلک کرکے شراب اور موسیقی کی محافل سجاتے ہیں۔ اغیار اپنے گندے اعمال کو انبیاء کے مقدس مطہر نفوس کے ساتھ جوڑ کر عبادت کا درجہ دے رہے ہیں اور ان کی ہدایت و نصیحت پر مامور امت انہیں قائل کرنے کی بجائے ان کی طرف مائل ہونے لگی ہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت دیگر مذاہب سے معزز و مہذب ہے ۔ اسلام اپنے اس اعزازو امتیاز کے ساتھ تمام ادیان میں برترو بہتر ہے کہ اس میں افراط وتفریط کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نظم و ضبط کا مذہب ہے، کسی بے شرم اور بے دھرم تہذیب کا اصول ہو گا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن اہل ایمان کی نہ صرف محبت اور جنگ ، بلکہ پوری زندگی غلامی ٔ رسول سے عبارت ہے۔

12ربیع الاول کی عظمت و شرافت آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے لیکن اس کا اہتمام وانتظام جس طرح ہمارے معاشرے میں مروج ہے وہ شریعۃ اسلامیہ سے براہ راست متصادم ہے ۔ حق تو یہ تھا کہ اس دن تمام مسلمان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنتوں پر خوب خوب عمل کرتے ، کبیرہ گناہوں سے توبہ کرتے ، ترکِ نمازکی نحوست میں مبتلا مسلمان نماز قائم کرنے کا عہد کرتے، اپنے گھروں کو تلاوتِ قرآن سے مزین کرتے یعنی ڈیڑھ ارب مسلمان اپنے ایمان و عمل سے اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعارف کرواتے ۔دنیا بھر کے فتنہ پرستوں پر ظاہر کرتے کہ دراصل دین محمدی ہی تمام انبیاء کی روایات کا امین ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر انہی کے احکامات کی خلاف ور زی ہو رہی ہے۔جشنِ میلاد النبیؐ میں فرمودات نبویؐ ہی کی نفی کی جا رہی ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مساجد کو بہترین اور بازاروں کو بدترین جگہ قرار دیا ۔ ہمارے ہاں دینی جلسہ جلوس کے لیے ہمیشہ بازاروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔جس جگہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بدترین فرمایابالکل وہی جگہ آپؐ کا تذکرہ کرنے کے لیے منتخب کر لی۔

عوام الناس کی گزرگاہ بند کرکے ثواب کمانے کا گمان بھی عجیب ہے جبکہ نماز جیسی فرض عبادت بھی چلتا ہواراستہ روک کر پڑھنا شرعی طور پر درست نہیں۔

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب صُفہ پر تشریف لاتے تو اس طرح سلام فرماتے کہ سونے والا جاگنے نہ پائے اور جاگنے والا سن لے لیکن یہاں کسی بیمار کی بیماری اور کسی آرام کرنے والے کی نییند سے بے نیاز ہو کر قدآدم سپیکرپر رات بھر نعتیں پڑھنا عشقِ رسول کہلاتا ہے۔مشہور محدث حضرت عمر بن شیبہ نے روایت کیا ہے کہ ایک واعظ صاحب حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ وہ زمانہ لاؤڈسپیکر کا نہیں تھا لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی اور اس سے ام المؤمنینؓ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا۔یہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا دورِ خلافت تھا ، اس لیے حضرت صدیقہؓ نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کہتے رہتے ہیں جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی کی آواز تک سنائی نہیں دیتی ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ان صاحب کو پیغام بھیج کر وہاں وعظ کرنے سے منع کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ شروع کر دیا، امیر المؤمنین ؓ کو اطلاع ہوئی تو آپؓ نے خود جا کر ان صاحب کو پکڑا اور ان پر تعزیری سزا جاری کی۔بات صرف یہ نہیں تھی کہ سیدہ عائشہ ؓ اپنی تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتی تھیں بلکہ دراصل اسلامی معاشرت کے اس اصول کی عملی وضاحت اور نفاذ مقصود تھا کہ کسی کو کسی سے کوئی ایذا نہ پہنچے۔ مسند احمد میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا فرمان درج ہے کہ اپنی آواز کو انہی لوگوں تک محدود رکھوجو تمہاری مجلس میں بیٹھے ہیں اور انہیں بھی اسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ جب تک ان کے چہرے تمہاری طرف متوجہ ہوں ۔ جب وہ چہرے پھیر لیں تو تم بھی رک جاؤ۔
 
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا رنگ ڈھنگ ڈیڑھ ہزار سال میں یکسر مختلف ہو گیا ہے ۔ صحابہ کرام ؓ سیرت کو مناتے نہیں تھے بلکہ اپناتے تھے۔ ان کے ہاں محبت رسولؐ کا اظہار اتباع سنت سے ہوتا تھا۔آج بھی دین کے اصول اور تقاضے وہی ہیں۔ شریعت تبدیل نہیں ہوئی البتہ آج کا مسلمان بدل گیا ہے۔ اسلام کے جن احکام کی خلاف ورزی صحابہؓ کے دور میں بہت بڑی نافرمانی تصور ہوتی تھی اب اسے معمولی سمجھا جاتا ہے۔ ایمان بچانے کے لیے لازم ہے کہ انفرادی و اجتماعی حقوق کی پاسداری اپنا شعار بنا لیں۔یہی 12ربیع الاول کا پیغام ہے۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 22247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.