زلزلہ کے 16سال بعد

آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں8 اکتوبر2005ء کے7.6شدت کے زلزلے کو16سال ہو گئے ۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کھنڈرات اور تباہی پر ایک بار پھر زندگی کی رونقیں بحال ہوں گی۔گو کہ متاثرین کی آبادکاری اور تعمیر نوکا کام اب بھی نامکمل ہے تا ہم تباہی سے ترقی کے سفر میں بہت کام ہوا۔ آج ایک بار پھر اس زلزلے کے16سال بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلے نے شدید تباہی مچادی ۔ 20 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع جاری ہیں۔ زلزلہ صبح 3 بجکر 2 منٹ پرآیا جس کی شدت 5.9 اور گہرائی 15 کلومیٹر تھی ۔ زلزلے کا مرکز کوئٹہ کے نواح میں ہرنائی کے قریب تھا۔ کوئٹہ، سبی، چمن، زیارت، قلعہ عبداﷲ، ژوب، لورالائی، پشین، مسلم باغ اور دکی سمیت دیگرعلاقوں میں شدید جھٹکے محسوس کئے گئے، سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان ہرنائی میں ہوا ۔ متعدد مکانات تباہ ہوگئے اور سرکاری عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔

2005کے زلزلہ متاثرین کی فوری ریسکیو،بحالی، تعمیر نو اور آبادکاری کے مختلف مراحل طے کئے گئے۔تا ہم آج بھی سیکڑوں منصوبے مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے16سال بعد از خود نوٹس لیا ہے۔انہوں نے ایرا کے سربراہ کو فرض میں صریح کوتاہی کا مرتکب قرار دیا۔گو کہ فنڈز کا بہانہ بنایا جاتا ہے مگر عدالت کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اپنی کمائی بھی متاثرین کے لئے وقف کی ، عالمی برداری نے 5.2ارب ڈالرز سے زیادہ رقم امداد میں دی۔حکومت نے بھی فنڈز مختص کئے۔ پھر بھی 540 سکولوں کی عمارتیں تعمیر نہ ہو سکیں۔ جس کی وجہ سے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ان کے لئے مختص 205ارب روپے کے فنڈز کہاں گئے ، کوئی نہیں جانتا۔بچے اب بھی چھت کے بغیر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔سپریم کورٹ نے بھی ایرا کی فرضی رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دی ہیں۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت ساری ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ جب کہ گزشتہ 8سال سے صوبے میں اس کی حکومت ہے۔2006میں مانسہرہ کے قریب بکریال میں نیا بالاکوٹ شہر آباد کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے 12ارب روپے لے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ساڑھے15ہزار کنال رقبے پر پھیلایہ منصوبہ تین سال میں مکمل ہونا تھا۔ مگر15سال کے بعد بھی یہ نامکمل ہے۔سات ہزار کنبہ جات کے لئے تعمیر ہونے والی اس بستی کے منصوبے پر اخراجات میں بھی 4ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔2018میں بھی اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا اورایرا نے منصوبہ مکمل کرنے کے لئے 30ماہ کی مہلت مانگی ۔مگر مہلت کے عرصہ مکمل ہونے کے بعد مزید ایک سال گزر چکا ہے۔مگر ایرا کا وعدہ وفا نہ ہوا۔ اب ایک بار پھرایرا نے 29اکتوبر2021کو رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیرسردار عبدالقیوم خان نیازی نے باغ اور راولاکوٹ میں زلزلہ سے متعلق تعمیر نو اور بحالی کے ادارے سیرا کے دفاتر دوبارہ آپریشنل بنانے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ زلزلہ کے16سال بعد بھی ابھی تک تعمیر نو کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔سیرا کے مطابق اس کی وجہ فنڈز کی عدم دستیابی ہے۔ آزاد کشمیر کے متاثرہ شہروں مظفر آباد،باغ اور راوالاکوٹ میں اگر چہ ماسڑپلان کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی ۔ یہ پلان قابل عمل ہی نہ تھا۔گو کہ اس کو مرتب کرنے کے لئے کثیر رقم خرچ کی گئی۔ جن علاقوں میں زمینیں لینڈ سلائیڈنگ میں بہہ گئیں۔ان میں سے بیشتر متا ثرین کو متبادل اراضی نہیں دی گئی۔اس زلزلہ میں اگر چہ حکومت نے80ہزار افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی تا ہم ہلاکتوں کی تعدادایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔کیوں کہ کئی برس بعد تک مظفر آباد کے نزدیکی علاقوں میں تباہ گاڑیاں اورڈھانچے، لاشیں بر آمد ہوتی رہی ہیں۔ زلزلے میں ہزاروں کی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ہزاروں سکول و کالجز زمین بوس ہوئے ۔مظفرآباد یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی میں اس وقت پروفیسر زلزلہ پر لیکچردے رہے تھے جب مقامی وقت کے مطابق صبح 8بجکر 50منٹ پر زمین زور دار جھٹکوں سے لرز اٹھی۔ پل بھر میں ہی عمارتیں ڈھیر ہونے لگیں۔ بیرون دنیا کاکشمیر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ سب فون بند تھے۔ افواہیں تھیں۔ پھر پتہ چلا کہ مظفر آباد پر سیاہ دھواں اور گرد و غبار کے بادل منڈھلا رہے ہیں۔سٹیلائٹ سے بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔زلزلے کا مرکز مظفر آباد سے 9کلو میٹر کی دوری پر واقع علاقہ تھا۔ ریکٹر سکیل پر زلزلہ کی شدت 7.6تھی اور اس کے جھٹکے کابل،بھارت میں دہلی اور اتر پردیش تک محسوس کئے گئے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کی عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ افغانستان میں نصف درجن لوگ جاں بحق اورسینکڑوں زخمی ہوئے۔ آزاد کشمیر کے مظفر آباد، نیلم، باغ اور راولاکوٹ اضلاع جبکہ بالاکوٹ ، مانسہرہ، بٹگرام ، الائی کے علاقے شدید طور پر متاثر ہوئے۔ ان علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں گرنے سے تقریباً 20ہزار طالب علم جاں بحق، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔تباہی کا یہ عالم تھا کہ آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم سکندر حیات خان نے کہا کہ وہ قبرستان کے وزیراعظم ہیں۔

زلزلہ کے فوری بعد پاک افواج نے اپنے جانی و مالی نقصان کے باوجود ریسکیو آپریشنز، امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورمظفرآباد راولپنڈی سمیت اہم شاہراؤ ں کو کم وقت میں کھول دیا ۔زلزلہ میں پاکستانی عوام نے ایثار و قربانی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔بھارت کے جبری اور ظالمانہ قبضے میں کشمیر کے علاقے اب بھی تعمیر نو سے محروم ہیں۔آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرین کی امداد کے لئے پاکستان کے بچوں اور بزرگوں تک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں اور ٹرالوں کے قافلے دن رات چلتے رہے۔ دنیا بھر سے مسلم اور غیر مسلم رضاکاروں نے بھی بے مثال کام کیا ۔ یہاں تک کہ عیسائی خواتین نے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر انتہائی کٹھن کام کئے ۔ زلزلہ کے دوران ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے دوران چندبے ضمیر اور لالچی لوگوں نے بھی اپنے مذموم کرتب دکھائے۔ انہوں نے زلزلہ متاثرین کے لئے آنے والی امداد کو جگہ جگہ لوٹااور امدادی کارکنوں کو ہراساں کیا۔ ریسکیو اور ریلیف کے بعد حکومتی امدادی پروگرام شروع ہوئے۔ عالمی تھینک ٹینکز اور میڈیا گروپ اعتراف کر رہے ہیں کہ ریلیف کے کاموں میں مصروف این جی اوز نے اپنے انتظامی معاملات پر متاثرین کے فنڈز کی 80فیصد رقم خرچ کر ڈالی۔این جی اوز نے امداد کا بڑا حصہ دفاتر ، ٹرانسپورٹ، مواصلات، رہائش اور اس طرح کے امور پر خرچ کیا ۔ یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ زلزلہ متاثرین کے لئے آنے والی امداد میں دھاندلی بھی کی گئی اور اسے فضول کاموں پر خرچ کیا گیا۔ متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے ادارے ایرا اور سیرابھی حکمت عملی کے فقدان کا شکار رہے۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ایرا میں تقریبا ً50ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈایریکٹرز تعینات کئے گئے۔ اس ادارے میں افسران کی بھر مارتھی۔یہ عوامی نہیں بلکہ افسروں کا ادارہ بن گیا ۔پھر تعمیر نو کا دور شروع ہوا۔آزاد کشمیر کے زلزلہ متاثرین کے 55ارب روپے کہیں منتقل کرنے کے بعدہڑپ کر دیئے گئے یا سیاسی مقاصد کے لئے بروئے کار لائے گئے۔ یہ آزاد کشمیر کے حقوق پر ظالمانہ ڈاکہ تھا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ فنڈز خرچ نہ کرنے کے باعث منتقل کئے۔ سیرا نے جو رقم پانچ سال میں خرچ کرنا تھی اسے دو سال میں کیسے خرچ کیا جاتا۔ وفاق کی یہ دلیل بلا جواز تھی۔ اب تک یہ رقم آزاد کشمیر کو واپس نہیں کی گئی۔

آزاد کشمیر میں سیرا اور خیبر پختونخوا میں پیرا کے زریعے ایرا نے 71.94ارب روپے 2005ء کے زلزہ متاثرین کو ادا کئے ۔ ڈونرز نے حکومت کو 877ملین ڈالرز دیئے۔ یہ تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ۔ زلزلہ کے 16 سال بعد آج جائزہ لیں تونمایاں تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، چین اور دیگر ممالک کے تعاون سے تعمیرات کی گئیں۔ سکول، ہسپتال ، مساجد،پل تعمیر ہوئے۔ آج مظفر ّآباد ایک جدید شہر کے طور پر نظر آرہا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے۔ بازار با رونق ہیں۔ عوامی سرگرمیاں تیز ہیں۔ عوام کے امن و سکون کو بھارت کی جنگی جارحیت کے بعد سب سے زیادہ اس مہنگائی نے متاثر کیا ہے۔ مگر لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں آج یوم استقامت کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں سیکڑوں سکول، ہسپتال ابھی تک تعمیر نہیں ہو سکے۔ نئی بالا کوٹ سٹی کا منصوبہ مکمل نہیں کیا جا سکا۔جب کہ 40فی صد صحت مراکز اور50فیصد تعلمی ادارے ابھی بھی تعمیر نہیں کئے جا سکے ۔اگر ایرا کی ویب سائٹ پر اکتوبر2015سے دیئے گئے ٹینڈر نوٹسز کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کل40 میں صرف7تعمیر نو کے بارے میں ہیں ، 31ٹینڈرز ایرا ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کی تزین و آرائش اور اپ گریڈنگ کے بارے میں ہیں۔اس سے ایرا کی سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ عالمی برادری نے نئی بالا کوٹ سٹی اور شاہ عبداﷲ ٹیچنگ ہسپتال مانسہرہ کے لئے 5ارب ڈالر دیئے اس میں بھی دھاندلی کی گئی۔ آزد کشمیر میں کیا دھاندلی ہوئی، اس کے بارے چیف جسٹس آف پاکستان اگر از خود نوٹس لیں تو حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ سیرا، ایس ڈی ایم اے اور دیگر ترقیاتی اداروں کو پی این ڈی کے ساتھ مل کر تعمیر نو کی حکمت عملی پر کام کرنا ہے تا کہ ایرا کے تعاون سے تعمیر نو کے منصوبے مکمل کئے جا سکیں۔ زلزلہ متاثرین کے منتقل 55ارب کی واپسی کے لئے بھی پی ٹی آئی کی ریاستی حکومت کو وفاق میں اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرنا چاہیئے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے پی ٹی آئی کو اسی لئے موقع دیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل کرے۔ توقع ہے آزادکشمیر حکومت تعمیر نو کے لئے وفاق سے رجوع کرنے اور حقوق کی بحالی کے لئے مزید تاخیر نہیں کرے گی۔بلکہ تعمیر نو سمیت نیلم دریا کا رخ موڑنے سے پیدا ہونے والے مسائل بھی وفاق میں اٹھائے گی۔اس دریا پر ڈیمز ، پل اور اور دونوں کناروں پر سڑکیں، پارک تعمیر کرنے کے لئے بھی مالی پیکج لینے میں کامیاب ہو گی۔،آزاد کشمیرکے پی کے اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ زلزلہ متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو میں مزید تاخیر نہیں کی جائے گی۔


 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485092 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More