پاکستان اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے
کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کی ساری جدوجہد اسی
بنیاد پر چلائی اور مسلم لیگ کے قیام سے قیام پاکستان تک ہر اجلاس اور
قائداعظم کے ہر خطاب میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص، قومی اور تہذیبی اقدار
اور قومی زبان کو جواز بنایا گیا۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے پاکستان کی
تعلیمی پالیسی بنانے کے لیے جید دانشوروں پر مشتمل تعلیمی کمیٹی بھی بنائی
گئی۔ اس کمیٹی کی سفارشات کی قائداعظم نے منظوری بھی دی۔ ۲۵ فروری ۱۹۴۸ کو
قومی زبان اردو کو بھ دستوری حیثیت دی گئی۔ قائداعظم کے رحلت کے بعد نظریہ
پاکستان سے روگردانی شروع ہوئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ عوام کی طرف سے
مسلسل مطالبات کے باوجود قابض ٹولہ قائداعظم کے ویژن اور نظریہ پاکستان کے
خلاف پالیسیاں مسلط کیے جارہا ہے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود انگریزی کو
سرکاری دفاتر سے نہ نکالا جاسکے بلکہ دن بدن انگریزی کے تسلط کو مستحکم کیا
جارہا ہے۔
ا ب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ملک بھر کے نجی تعلیمی ا داروں کے ساتھ
وفاق، پنجاب، آزاد جموں کشمیر میں مکمل طور پر قومی لباس پہننے پر پابندی
ہے جبکہ بلوچستا ن اور سندھ کے شہری علاقوں میں سرکاری سکولوں میں قومی
لباس پر پابندی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں ابھی قومی لباس پہننے کی اجازت ہے
جو بتدریج ختم کی جارہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں انگریزی ذریعہ تعلیم اور انگریزی لباس کی پابندی نظریہ
پاکستان کی نفی ہے۔ اب بات تعلیمی اداروں سے نکل کر حصول ملازمت کے لیے بھی
فرنگی لباس کی پابندی عائد کردی ہے۔ پاکستان کے تمام بینکوں، ملٹی نیشنل
کمپنیوں، ادویات کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ عام کاروباری
اداروں میں بھی قومی لباس زیب تن کرنے کی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوں
جبرا قوم کو فرنگی تہذیب اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
قومی لباس اور قومی زبان ہماری پہچان اور ہمارا بنیادی حق ہے۔ جس کو ریاست
جبراً سلب کررہی ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ قابض ٹولے کو روکنے کے لیے
کوئی مزاحمت دکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور ارباب
فکرودانش سب کے سب لارڈ میکلالے کے فارمولے کے مطابق فکری غلامی اختیار
کرچکے ہیں۔ ایسے میں امید کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ میں اس جوہڑ میں
پتھر پھینکنے کی کوشش کررہا ہوں۔ قومی زبان کے نفاذ کے لیے تو چھ، سات
سالوں سے سرگرم عمل ہوں ، اب قومی لباس اور اقدار کے بچانے کے لیے بھی اپنا
کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں۔ میں تو اصول کا عادی ہوں کہ مجھے دنیا کے
پیچھے نہیں چلنا بلکہ جو درست معلوم ہو، اس کے لیے آواز بلند کرتے رہنا
چاہیے۔ نتائج کب نکلتے ہیں، اس کی فکر میں رہنے کے بجائے مثبت نتائج آج
نہیں تو کل کی امید پر اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔
خواتین کے ملبوسات پر بات بہت آگئے نکل چکی ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں کسی
کو مادر پدر آزادی نہیں دی جاسکتی ۔ جو خواتین مسلمان ہیں، انہیں اسلامی
عقائد و روایات کا پابند کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جو غیر مسلم ہیں انہیں
بھی اسلامی ریاست میں رہنے کے لیے ایک کم سے کم معیار پر تو رکھنا چاہیے۔
ذرائع ابلاغ سے جس طرح خواتین کو نین برہنہ کرکے پیش کیا جارہا ہے، یہ
ہماری دینی غیرت اور قومی حمیت کے منافی ہے۔ پوری قوم پر خاموشی طاری ہے۔
بھنگ تو اب سرکاری سطح پر کاشت ہونا شروع ہوئی ہے ، اثرات پہلے ہی پوری قوم
پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمیں قومی امور سے لاتعلقی کے روئیے کو ترک کرکے
پاکستان کو حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ کے طرز پر لانا ہوگا، وگرنہ ہماری
نسلیں یورپ سے چند ہاتھ آگئے نکل جائیں گی۔
میں سیاستدانوں، علمائے کرام، اساتذہ کرام اور ہر محب وطن پاکستانی کی توجہ
قومی زبان، قومی لباس کے بے توقیری اور فرنگی زبان اور تہذیبی یلغار کو
روکنے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ عوام کی خاموشی بھی باعث تشویش ہے لیکن
علمائے کرام، سیاستدانوں اور ارباب فکر و دانش کی خاموشی مجرمانہ قرار پائے
گی۔ یہ محض پہچان کا نہیں، مذہبی عقائد، دینی اقدار اور ملی تشخص کے تحفظ
معاملہ ہے۔ جس پر ہر پاکستانی کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
|