گلگت پہچنے والی پہلی جیپ (سائٹرن)


سال 1928کا فرانس میں گاڑیاں بنانے والے ادارے کا مالک اندرے سائٹرن اپنے دفتر میں بیٹھا ہے ۔ایک دم سے اپنی کرسی سے اٹھ جاتا ہے اور کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل جارجس میری ہارڈ ٹ کے پاس چلا جاتا ہے اور اسے اپنے پروگرام سے آگاہ کرتا ہے۔اندرے سائٹرون جہاں گاڑیوں کی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھتا تھا وہاں وہ بڑا ہی مہم جُو بھی تھا ۔وہ اپنے ڈائریکٹر کو تیسری مہم جوئی سے آگاہ کر رہا تھا ۔اس سے پہلے وہ گاڑیوں کی نمائیش اور خرید و فروخت کی بڑھوتری کے لئے دو مرتبہ مہم جوئی کر چکے تھے ۔جس میں ایک مہم 1922 میں صحاراا سے سوڈان عبور کرنے اور دوسری 1924 میں ، الجیریا سے جنوب میں مڈغاسکر تک کا سفر کی مہم جوئی تھی ۔اپنی تیسری مہم کے لئے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ بیروت ، لبنان سے شمال میں ، روسی زیر کنٹرول ترکستان سے ہوتا ہوا ، پھر گوبی صحرا کے اس پار سے پیکنگ (موجودہ بیجنگ) اور پھر وہاں سے جنوب کی طرف سیگون اور پھر مغرب میں ، واپس بیروت تک پہنچنے کا تھا ۔اس مہم کی تیاری میں انہیں پورے دو سال لگے ۔ان دو سالوں میں دیگر ضروری سامان کی خریداری اور مخصوص گاڑی کی تیاری کے ساتھ ساتھ مشکل ترین کام روسیوں اور چینیوں سے اس مہم کی اجازت نامہ حاصل کرنا تھا ۔اپنی اس مہم کو مزید مستحکم اور موثر بنانے کے لئے اندرے سائٹرن نے اپنے ساتھ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے ایک سائنسدان فرانسیسی پادری اور ماہرِ ارضیات پیری ٹیلہارڈ ڈی چارڈین ایک پینٹر ، ایک فوٹوگرافر، اور ایک ادیب ، جارجس لی فیور کو بھی شامل کیا ۔گروپ کا لیڈر جارجس میری ہارڈ ٹ کو بنایا گیا ۔ ہوا کیا ؟روانگی سے تین ماہ قبل روسی حکومت نے اس گروپ کی ترکستان عبور کرنے کے اجازت نامے کو منسوخ کر دیا ۔یہ وہ لحمہ تھا جس نے گروپ لیڈر ہارڈٹ کو روٹ کی تبدیلی پر غور کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ پامیر پہاڑی سلسلے کے ذریعے چین میں داخل ہوجا یا جائے ۔ ۔اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اس گروپ کے دو حصے بنائے گئے تھے ۔جنکی مہم جوئی دو مخالف سمتوں سے شروع ہونی تھی۔ جس کے تحت گروپ کے ایک حصے کو پامیر گروپ کا نام دیا گیا اور اس گروپ کے لئےسفر کا آغاز بیروت سے کرنے اور دوسرا چین گروپ جس کا سفر پیکنگ سے شروع ہونا تھا ۔ دونوں گروپوں کا ملن پامیر کے بلکل شمال میں اور وہاں سے مشترکہ طور پر واپس پیکنگ آنا قرار اور طے ہوا تھا ۔تین ماہ میں دوبارہ سے انہوں نے اپنے آپ کو منظم کیا اور نئے اجازت نامے بھی حاصل کئے گئے ۔لیکن ایک بار پھر ان کے سامنے ایک اور مشکل آکھڑی ہوئی ان دنوں افغانستان میں بغاوت شروع ہوئی جس باعث گروپ کو ایک بار پھر اپنے مہم جوئی کے راستے میں نظر ثانی کرنی پڑی ۔اب کی بار ٹیم لیڈر ہارڈٹ نے چین گروپ کے روٹ کو منسوخ کر دیا اور پامیر گروپ کے تحت اس مہم جوئی کا آغاز کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے تحت بحیرہ روم سے بغداد ، عراق ایران ،پاکستان اور پھر کشمیر گلگت کے راستے کاشغر میں داخل ہونا تھا۔قارئین حیران ہو رہے ہونگے کہ گلگت میں پہلی جیپ کے ذکر میں فرانس بیروت کے قصے کا ہے کے ۔وہ کہتے ہیں نا شینا زبان میں "اصل چگا اَنے ہن " بات در اصل یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں 30 کی دہائی کو ہوائی سفر اور بری راستے سے گاڑی یا جیپ کی آمد کے لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے ۔چین میں جہاں فروری 1932 میں بیروت سے بذریعہ قراقرم مہم جوئی کا چرچا تھا وہاں 1932 لندن ٹائمز میں رائل ایئر فورس کے ایک جہاز کی راکا پوشی کے اوپر پرواز کی خبر بھی سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ اور یہاں گلگت بلتستان میں ہم ابھی تک اس چکر میں کہ گلگت بلتستان میں پہلی جیپ کب اور کس راستے سے پہنچی تھی یا لائی گئی تھی ۔ہاں یاد آیا اس کنفیوژ ن کو ختم کرنے کے لئے ایک ویڈیو میں نے تصویروں کی مدد سے تیار کر کے اسے سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کیا تھا۔اس ویڈیو کو دیکھ کر ایک دوست نے درخوست کی تھی کہ اس مہم جوئی کے بارے تفصیلی کوئی مواد پیش ہو تو بہتر ہوگا ۔سوشل میڈیا پر پہلی جیپ کی بحث کو دیکھتے ہوئے دوست کی فرمائش کا یاد آنا لازمی امر تھا اور قلم اٹھ گیا جس باعث یہ تحریر وجود میں آئی ۔ چلتے ہیں واپس بیرو ت جہاں سے پامیر گروپ سائٹرون مہم جوئی کا سفر کا آغاز ہوا تھا۔ ۔اس مہم میں لگ بھگ 30 سے چالیس افراد شامل تھے جو 4 اپریل 1931 کو اندرے سائٹرون کی قیادت میں پکنگ کے لئے روانہ ہوتے ہیں ۔بیروت سے بغداد عراق ایران سے ہوتے ہوئے 31 جون 1931 کو ہندوستان میں داخل ہو کرسرینگر میں پڑائو ڈالتے ہیں ۔ حساب کتاب سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ان کا بیروت سے سرینگر تک کا سفر 81 دنوں پر محیط اور طے شدہ فاصلہ 5580 کلو میٹر بن چکا تھا ۔یہاں تک کا سفر انہوں نے نہایت ہی تند د جانفشانی سے طے کیا تھا ۔سرینگر میں قیام کے دوران ماہرین کی ایک ٹیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مہم جوئی کبھی بھی گلگت کو عبور کرکے چین نہیں پہنچ سکتی ۔اس کے باوجود بھی مہم جوئی ٹیم نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور مہم جوئی کا قافلہ 12 جولائی 1931 کو سرینگر سے گلگت کے لئے روانہ ہوا ۔سرینگر گریز کے علاقے تک تو اس ٹیم کو کوئی بڑی مشکل کا سامنا نہ ہوا لیکن گریز سے گزرنے کے بعد ٹیم کو بڑی آزمائش کا مقابلہ کرنا پڑا ۔ خاص کر بُرزل درے کو کراس کرتے ہوئے اس سے آگے گُدائی ،استوراور بونجی تک کے سفر میں جہاں پہاڑی تودے گرنے کے باعث بنی ہوئی پگڈنڈی یا سڑک کا نشان تک باقی نہیں تھا ۔ جہاں جہاں سڑک آسانی سے مرمت ہو سکتی تھی وہاں سے جیپ کو گزارا جاتا اور جہاں ایسا ممکن نہیں ہوتا اس وقت جیپ کے حصوں کو علحیدہ کیا جاتا تھا اور قلیوں اور گھوڑوں کی مدد سے وہ جگہ کراس کی جاتی تھی ۔گلگت سے آگے تو اس سے بھی بُری حالت تھی نومل اور چھلت کے درمیان میں بھی ٹیم کو اپنی جان جوکھوں میں لگانی پڑی ۔بعض اوقات یہ بھی سوچا گیا کہ جیپوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے لیکن چھلت تک پہچنے کے بعد ایسا ان کے لئے ممکن نہ تھا ۔ استور ،گلگت اور پھر چھلت کے طریقے کو اپناتے ہوئے 60 دو کہونوں والے اونٹ ، 80 خچروں اور گھوڑوں اور تقریباً سو سے زائد قلیوں کی مدد سے آگے کا فاصلہ طے کیا گیا ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مہم جوئی ٹیم موجودہ خنجراب درے سے نہیں بلکہ پرانے شاہراہ ریشم کے راستے درہ منتکہ کو عبور کرتے ہوئے 19 ستمبر 1931 کو کاشغر اور پھر ویاں سے آگے سفر کرتے ہوئے فروری 1932 کو بیجنگ پہنچی۔کیا حیران کن مہم جوئی تھی جس کو بیروت سے پکنگ پہچنے میں 315 دن میں بارہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا ۔ اس مہم جوئی میں استعمال ہونے والی ایک سائٹرون جیپ کے بارے ٹیم کے سربراہ کا کہنا یہ ہے کہ اسے گلگت میں چھوڑ دیا گیا تھا لیکن میری معلومات کے مطابق بیرونی اور مقامی لکھاریوں کی کتابوں میں ایسی کسی جیپ کا ذکر موجو د نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کسی نے اس پہ توجہ نہ دی ہو یا وہ راستے میں کسی درے میں ضائع ہوئی ہو جبکہ دوسری جیپ کو ٹیم اپنے ساتھ واپس فرانس لے گئی تھی ۔بیجنگ سے آگے ٹیم کے سربراہ جارج ہارڈٹ ہانگ کانگ میں نمونیہ کے شکار ہوتے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یوں یہ ٹیم اپنے ٹیم لیڈر کو کھونے کے بعد افسردہ ویتنام پہنچتی ہے ۔ ایک بات یہ کہ گلگت میں سرکاری استعمال کے لئے جو جیپ منگوائی گئی تھی وہ درہ بابوسر سے 1949 میں گلگت اور جہاز کے ذریعے جو جیپ گلگت پہنچائی گئی تھی اس کا سال 1961 یا باسٹھ ہے جبکہ سائٹرون آٹو موبائل کمپنی فرانس میں بیروت چائنا مہم جوئی کے لئے تیار کی گئی سائٹرون جیپ 1931 میں گلگت میں پہنچنے والی یا گلگت سے ہوکر چائنا جانے والی پہلی جیپ تھی۔اور آخر میں ایک بات کہ گلگت بلتستان میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا ان کی مت ماری گئی تھی ؟پاگل لوگ اپنی جان کو ہر وقت خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔اور شینا میں یہ بات اس طرح کہی جاتی ہے "جیک رینو شش فُٹِلوسا " ان سب سوالوں کے جواب میں اتنا کہونگا ۔۔کیونکہ چین وہاں ہے ۔

 

Hidayatullah Akhtar
About the Author: Hidayatullah Akhtar Read More Articles by Hidayatullah Akhtar: 46 Articles with 56912 views
Introduction:
Hidayatullah Akhtar (Urduہدایت اللہ آختر‎) is a columnist, writer, poet, social worker and Ex Govt servant from Gilgit Pakistan. He
.. View More