حیدرآباد یا ماضی کا نیرون کوٹ ،وادی سندھ کا دوسرا بڑا
شہر ہے۔ کسی دور میں یہ شہر مچھیروں کی بستی کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا
تھا۔اُس وقت اس کا نام’’ نیرون کوٹ‘‘ تھا، جو ماہی گیرقبیلے کے سردار نیرون
کے نام سے موسوم تھا۔کلہوڑا خاندان کی حکومت کےدور میں خدا آباد کو
دارالسلطنت کا درجہ حاصل تھا اور کلہوڑا حکم راں وہیں رہائش پذیر تھے۔
1757ء میں قدرتی آفات کے باعث انہوں نے نیرون کوٹ کو ایک محفوظ مقام تصور
کرکے یہاں نئے شہر کی تعمیر شروع کرائی اور ایک پہاڑی مقام پر پکا قلعہ اور
اس سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کچا قلعہ تعمیر کرکے1768ء میں وہیں
رہائش اختیار کرلی اورنیرون کوٹ کو اپنا دارالسلطنت قرار دے کر اس کا نام
’’حیدرآباد‘‘ رکھا گیا۔ 1783میں تالپوروں نے کلہوڑوں کی بادشاہت کا خاتمہ
کرکے اپنی حکومت قائم کی اور انہوں نے بھی حیدرآباد کو اپنا مرکز
بنایا۔1843ء میں انگریزوں نے جنگ میانی میں تالپو ر میروں کو شکست دے کر
سندھ پر قبضہ کرلیا اور حیدرآباد کی جگہ کراچی کو سندھ کے صدر مقام کا
درجہ دیاگیا۔قیام پاکستان سے قبل، حیدرآباد شہر کی خوب صورتی قابل دید
تھی، روزانہ اس سڑکوں کی ذھلائی ہوتی تھی۔یہ شہر ماضی میں اپنی گوناگوں
خصوصیات کی وجہ سے خاصا مشہور رہا ہے خاص کر اس کے روایتی پکوان انتہائی
اہمیت کے حامل تھے، جن میں ’’بیہ ‘‘ کی سبزی لوگوں کی مرغوب غذا
تھی۔پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے مہاجروں کی بڑی تعداد حیدرآباد میں
بھی آباد ہوئی ، جنہوں نے یہاں مختلف النوع پیشوں کو فروغ دیا جن میں سے
چوڑی بنانے کا کام یہاں آج بھی مقبول ہے اور امریکن کوارٹرز کے زیادہ تر
گھروں میں مرد و خواتین یہ کام کرتی ہیں۔ ہندوستان سے آنے والے افراداپنے
ساتھ نت نئے پکوانوں کی تراکیب لے کر آئے اور حیدرآباد میں ان کھانوں کو
فروغ دیا گیا۔ان میں سے حیدر آباد کی ربڑی، مٹکا گوشت اور دلہن پراٹھہ
خاصے مقبول ہیں۔ ہندوستان میں قدیم دور سے ہی گندم اور دیگر اناج سے پکائی
جانے والی روٹی کو ذائقہ بدلنے کے لیے مختلف روپ دیئے گئے۔
آٹے میں گھی یا خوردنی تیل کی آمیزش سے مختلف اقسام کے پراٹھے تیار کیے
جاتے تھے، جن میں سے دال بھرے، آلو بھرے اور بیسنی پراٹھے ہر خاص و عام
میں انتہائی مقبول ہوئے اور یہ آج بھی انتہائی ذوق و شوق سےناشتے کے علاوہ
شام کی چائے کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔روسی ترکستان سے آکر ہندوستان پر
حکومت کرنے والے مغل بادشاہوں کو بھی ہندوستانی کھانوں کا چسکا پڑ گیا تھا
اور وہ شاہی باورچی سے نت نئے کھانوں کی فرمائشیں کرتے تھے، جنہیں حکم سمجھ
کر ان کی بجا آوری کرناخانساماؤں کے فرائض میں شامل تھا۔ ایک روز صبح کے
وقت، مغل فرماں روا، شہنشاہ نور الدین محمد جہانگیر نے ناشتے سے فراغت کے
بعدشاہی خانساماں، عادل حافظ عثمان کو اپنے حضور طلب کیا ۔خانساماں جب اس
کے حضور پیش ہوا تو بادشاہ نے اس سے کہا کہ ناشتے میں ہم روزانہ قیمے کے
ساتھ ایک ہی طرح کے سادہ پراٹھے کھا کھا کر تنگ آ گئے ہیں۔ اب ہمارے
دسترخوان پر بالکل نئی اور انوکھی طرز کا پراٹھہ پیش کیا جائے۔ خانساماں نے
شاہی حکم بجا لانے کے لیے’’ عالم پناہ‘‘ سے چند روز کی مہلت طلب کی ، جو
اسے دے دی گئی۔ خانساماں عادل حافظ عثمان، 9 روز تکنئی اور منفرد طرز کا
پراٹھہ بنانے کی ترکیبوں پر غور و خوض کرتا رہا، جس میں اسے کامیابی ہوئی ۔
اس نے روٹی کو دو تہوں میں پکایا ۔تقریباً نصف درجن انڈے پھینٹ کر کٹی ہوئی
ہری مرچ، دھنیا پودینہ، زیرہ اور دیگر مسالوں کی اس میں آمیزش کی۔روٹی کی
دونوں تہوں کو درمیان میں سے نصف حصے تک کاٹ کر اس میں پھینٹا ہوا انڈا ڈال
کر تہوں کو دوبارہ بند کرکے اسے توے پر تلا گیا جس کے بعد یہ نہایت ہی خوش
ذائقہ پراٹھہ بن گیا۔ اسے‘‘زابر فلا‘‘ یا ’’انڈا روٹی ‘‘ کا نام دیا گیا
۔نویں روز اس نے اپنی ’’ایجاد مطبخ‘‘ کو مغل شہنشاہ کے حکم کے مطابق دیگر
اشیائے خورونوش کے ساتھ شاہی دسترخوان پرپیش کیا۔ بادشاہ اس انوکھی طرز کے
پراٹھے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، جب اس نے اسے نوش کیا تو کام و دہن کوایک
نئی لذت کا احساس ہوا، اس نے اسےخوب سیر ہوکر کھایا۔یہ پراٹھہ اسے اس قدر
پسند آیا کہ اس نے خوش ہوکر خانساماں کو 1001 سونے کے سکے اور مغربی بنگال
میں ایک بڑی جاگیر انعام میں عطا کی۔ بادشاہ کو اس پراٹھے کا نام پسند نہیں
آیا جسے شاہی باورچی نے ’’زابر فلا‘‘ یا ’’ انڈا روٹی‘‘ کہہ کر متعارف
کرایا تھا۔ اس نے اس نئی طرز کے پراٹھے کو ’’مغلائی پراٹھے ‘‘ کا نام
دیا۔چند ہی سالوں میں مغلائی پراٹھے کا شہرہ دلی سے نکل کردور تک پھیل گیا
اور بعد ازاں ساری دنیا میں مشہور ہوگیا۔ یہ پراٹھہ آج بھی پاکستان ،
امریکا، یورپ ، کینیڈا ، ملائیشیا، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں ناشتے کےخصوصی
پکوان میں شامل ہے۔
پاکستان کا شہر حیدرآباد جو شاہی بازار میں فروخت ہونے والی ربڑی کی وجہ
سے معروف تھا، گزشتہ چند سالوں سے وہاں ’’ دلہن پراٹھے ‘‘ کی دھوم مچی ہوئی
ہے۔عام شہری ہوں یا نئی نویلی دلہن اور دولہا میاں، جب تک ان کے ناشتے میں
دلہن پراٹھہ نہ ہو ، انہیں ناشتہ کرنے میں مزا نہیں آتا۔ شاہی بازار کی
ریشم گلی میں روزانہ صبح سویرے ایک ہوٹل پر بے پناہ ہجوم نظر آتا ہے۔ لوگ
قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چار
عشرے سے جاری ہے۔اپنی بار ی کے انتظار میں صرف حیدرآباد یا لطیف آباد کے
لوگ ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ دیگر شہروں سے سیاحت یا اپنے عزیز و اقارب سے
ملنے کی غرض سے آنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جنہیں ان کے میزبان
حیدرآباد کی خاص سوغات سے متعارف کرانے کے لیے شاہی بازار لے جاتے
ہیں۔ہوٹل مالکان اس پراٹھے کی وجہ تسمیہ بتاتےہیں کہ چالیس سال قبل یہاں
ایک متمول گھرانے کی نئی نویلی دلہن ، اپنے اعزاء کے ساتھ صبح سویرے ناشتہ
لینے آئی۔ اس زمانے میں ان کے والدمرحوم اس ہوٹل پر بیٹھا کرتے تھے۔ والد
صاحب کا شمار غیر منقسم ہند کے معروف باورچیوں میں ہوتا تھا اور وہ وہاں سے
مختلف پکوانوں کی تربیت لے کر آئے تھے ۔ دلہن نےان سے بالکل انوکھی قسم کے
ناشتے کی فرمائش کی۔والد صاحب نے اسے ایک نئی طرز کا پراٹھہ بنا کر دیا۔
گرم کھولتے ہوئے تیل میں مرغی کا قیمہ بھرکر پراٹھا فرائی کیا اورپھر اسے
دلہن کی طرح سجانا شروع کیا۔ سب سے پہلے ابلے ہوئے انڈوں کے سلائس کاٹ کراس
پر آویزاں کیے گئے، پھر چقندر سے گل کاری کی۔کاجو ،بادام، اسٹرابری، ادرک
کے ٹکڑے، منفرد مصالحے اور لیموں کاتڑکہ لگا کے آخر میں مرغی کا روسٹ کیا
ہوا ٹکڑا رکھا، یوں خوش ذائقہ پراٹھےکی تیاری پایہ تکمیل کو پہنچی ہوا۔ اس
نئی طرز کے دل کش پراٹھے کو دیکھ کر نوبیاہتا جوڑا بہت خوش ہوا اور جب اس
نے اسے کھایا تو اسے زیادہ ہی مزیدار لگا۔اس پراٹھے کا نام ’’دلہن پراٹھہ
‘‘ رکھا گیا جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ یہ پراٹھہ صرف دیکھنے میں ہی
نہیں بلکہ ذائقے میں بھی کافی عمدہ ہوتا ہے۔ آج بھی زیادہ تر لوگ نئی
نویلی دلہنوں کے لیے ریشم گلی کے اس ہوٹل پرناشتہ لینے آتے ہیں ، جو دلہن
پراٹھے کی صورت میں ہوتا ہے۔
ہوٹل کے مالکان تبدیل ہوتے رہے،باپ کے بعد بیٹے اور پوتے نے اس کی نرانی کا
فریضہ سنبھالا، انہوں نے اس پراٹھے میں نت نئی جدتیں پیدا کی ہیں اور اسی
کے مطابق قیمتیں بھی رکھی گئی ہیں۔ماوا اور چکن پراٹھا ڈھائی سو روپے، چکن
قیمہ پراٹھا دو سوروپے، بکرے کےگوشت کا پراٹھہ تین سو روپے میں ملتا ہے۔ ان
پراٹھوں کی تیاری میں گوشت کے علاوہ باقی وہ تمام اجزاء شامل کیے جاتے ہیں
جو اس کی ’’ ایجاد ‘‘ کے وقت استعمال کیے گئے تھے۔ دلہن پراٹھے کو
حیدرآباد کی مخصوص سوغاتوں میں شمار کیا جاتا ہےاور لوگ یہاں دور دور سے
آتے ہیں جو نہ صرف خود یہاں بیٹھ کر کھاتے بلکہ پارسل بنوا کرگھر بھی لے
جاتے ہیں۔
|