’’سون میان‘‘ ماہی گیروں کا گاؤں

دریا کے روٹھنے کا درد وہی لوگ جان سکتے ہیں، جن کی آنکھوں نے اسے بہتے دیکھا ہو۔ دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں ہوتے بلکہ یہ تہذیبوں کے امین اور خوشیوں کی علامت بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دریاؤں سے جڑے قصے سنتے ہیں، کئی دیو مالائی کہانیاں بھی ان سے منسوب ہیں۔ جہاں جہاں بھی دریا بہتے ہیں، وہاں خوشیوں کے سازبجتے ہیں۔مگر آج بڑھتی ہوئی آبادی اور دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر نے دریاؤں کی ہیئت کو متاثر کیا ہے۔ آج دنیا میں ماحولیات کو ایک اہم ترین مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور دریا کا بہتے رہنا ہی ماحولیات کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ انسانی حیات تو اس کی مرہون منت ہے ہی مگر آبی حیات بھی دریا کے پانی پر ہی پرورش پاتی ہے۔تصور کریں کہ دریائے سندھ کا ایک ایسا کنارہ جو کسی زمانے میں ایک گاؤں کے لیے ’’معاشی حب‘‘ رہا ہو اور ان کی تمام تر زندگی کا دارو مدار اسی کنارے سے ملنے والی مچھلی اور دیگر آبی حیات پر ہو، اچانک ہی وہ ویران ہو جائے تووہاں کے باسیوں کی حالت کیا ہو گی؟

حیدرآباد کے تعلقہ لطیف آباد یونٹ نمبر 7 کے قریب ایک ایسا ہی ماہی گیروں کا گاؤں آباد ہے، جہاں سے دریا تو بہتا ہے مگر اب وہاں خاک اڑتی ہے۔کبھی گاؤں والوں کی آنکھوں میںدریا کے پانی کے بہنے کی وجہ سے چمک رہتی تھی، اب وہی آنکھیں دریامیں پانی کے بہاؤ کو ترس رہی ہیں۔70 سالہ حمزہ فقیر اس گاؤں کے سب سے بزرگ شخص اور نمبردار ہیں۔ انہوں نے دریائے سندھ کے کنارے بسے اس گاؤں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ان کے آباء و اجداد نے صدیوں قبل یہ گاؤں بسایا تھا۔آج یہ گاؤں جس جگہ آباد ہے ، چند سال قبل یہاں نہیں تھا بلکہ یہ لوگ دریا کے دوسرے کنارے پر آباد تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دریائے سندھ پر ’’کوٹری بیراج ‘‘تعمیر نہیں ہوا تھا۔ دریا کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے یہ گاؤں ہمیشہ دریائی پانی کی زد میں رہتا تھا، مگر کوٹری بیراج تعمیر ہونے کے بعد دریا کا رخ تبدیل ہوگیا جس کے بعدیہاں کے باشندوں نے اپنا گاؤںدریا کے بائیں کنارے پرمنتقل کرلیا۔

حمزہ فقیر اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی جوانی میں دریا کو اس طرح برباد حالت میں نہیں دیکھا۔ یہ ہمارے روزگار کا اہم ترین ذریعہ تھا، ہمیں اس میں سےاس قدر مچھلی ملتی تھی کہ فروخت کرنے کے بعد بھی بچ جاتی تھی جسے ہم سکھا کر رکھتے تھے۔ اس زمانے میں یہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔پلا مچھلی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ ہم اسے بہت ہی سستے داموں فروخت کرتےتھے، جبکہ جھینگا بھی یہاں بہ کثرت ملتا تھا۔آج یہاں پلا مچھلی بہت کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ‘‘۔

یہ گاؤں سون میان کے نام سے جانا جاتاہے ۔ سون میان نام کا پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ جب دریا میں پانی کی روانی بہت زیادہ تھی یہاں ہر اقسام کی مچھلیاں وافر مقدار میں موجود تھیں۔ ماہی گیروں کے مالی حالات بہت بہتر تھے۔ گاؤں کے معاشی حالات اتنے اچھے تھے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ میان مچھلی کی صورت میں سونا اگلتی ہے۔مگر آج اسی سون میان گاؤں کے باسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ سونا اگلتے دریا میں خاک اڑ رہی ہے۔ اب نہ تو یہاںمچھلی کا شکار رہا ہے اور نہ ہی دریا میں پانی ہے، بس اچھے دنوں کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔

جب برسات میں دریا میں پانی کی سطح کچھ بہتر ہو تی ہے تو سون میان گاؤں کے باسی ٹھٹھہ کے علاقے کھارو چھان تک کے علاقے میں ماہی گیری کرتے ہیں۔ کھارو چھان وہ علاقہ ہے جہاں دریا اور سمندر کا آپس میں سنگم ہوتا ہے۔ مگر دو دہائیوں سے دریا کا پانی سمندر تک نہیں پہنچ پا رہا۔ جبکہ 1991 کے پانی معاہدے کے مطابق دس ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹڑی ڈائون اسٹریم سے چھوڑنا لازمی ہے، مگر آج تک اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ایک تو سمندر بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع کی زمین نگل رہا ہے اور دوسری جانب سندھ کا زیر زمین پانی کڑوا ہو رہا ہے۔

گاؤں کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے،جب مچھلی پکڑنے کا جال موٹے دھاگے سے بنا ہوا تھا اور اسے دریا میں ڈالتے ہی منوں کے حساب سے مچھلی ہاتھ آتی تھی، تب بس ایک بار ہی جال دریا میں ڈالا جاتا تھا۔ جال بڑا ہوتا تھا جس میں سے چھوٹی مچھلیاں گزر جاتی تھیں تاکہ ان کے افزائش کا سلسلہ جاری رہے۔اس زمانے میں یہاں ہر شخص کے لیے روزگار کے مواقع موجود تھے۔سون میان کے کنارے بہت سے مزدور مچھلی کو کاٹنے، بیچنے اور اسے نمک لگا کر ذخیرہ کرنے میں لگے رہتے تھے مگر اب لوگ اس دور کو ترستے ہیں

یہاں رہنے والے ماہی گیر اب فش فارمنگ کے ذریعے افزائش کی ہوئی مچھلیاں خرید کو بازار میں لے جاکر بیچنے پر مجبور ہیں۔ زیادہ تر مچھیرے اپنے آبائی پیشے کو خیرباد کہہ کر محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہے ہیں۔
-
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.