کبھی کبھی انسان کسی ایسے موضوع پر قلم آزمائی کرنے کی
ٹھان لیتا ہے جس کا تعلق اس کے دل سے ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو میری آئیڈیل
شخصیت تھے لہذا ان سے میری وابستگی جذباتیت کی حد تک ہے ۔وہ ایک ایسی
طلسماتی شخصیت تھے جس نے صدیوں کے طوقِ غلامی سے مجھ جیسے کروڑوں انسانوں
کو نجات دلا کر تکریمِ انسانی اور آزادی ِ افکار کی نعمت سے سرفراز کیا
تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو تو ان کی لاڈلی بیٹی تھیں جھنوں نے اپنی نگاہوں کے
سامنے اپنے عظیم باپ کو لمحہ لمحہ مرتے دیکھا تھا لہذا ن کیلئے اس سانحہ کو
سہنا انتہائی مشکل تھا ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب (شہیدِ وفا )کا
آغاز اس تاریخی خط سے کیا ہے جو انھوں نے اپنی لاڈلی یٹی کے نام لکھا تھا۔
اس کی بنیادی وجہ بڑی صاف اور واضح ہے کیونکہ یہ خط ہی تو تھا جس نے بی بی
کو آمریت کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کیا تھا۔ یہ اسی خط کا کمال
تھا جس نے بی بی کی ساری حیاتی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔میری نظر میں بی بی
کی بے نظیر جدو جہد کی خشتِ اول یہی خط تھا اور یہی خط ان کی زندگی کی
انتہا بھی تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حیاتی کو اس خط سے
علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اس خط کے مندرجات سے کبھی باہر
نہیں نکل سکیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو ساری عمر اپنے باپ کی بیٹی بن کر زندہ
رہیں ۔ مجھے بی بی کو نجی محفلوں میں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا وہ
ہمیشہ ذولفقار علی بھٹو کو بھٹو صاحب ہی کہہ کر اظہارِ خیال کیا کرتی
تھیں۔یہ کوئی راز نہیں کہ بھٹو خاندان میں سب کو ان کے ناموں سے پکارا جاتا
ہے لیکن یہ اعزاز صرف ذولفقارعلی بھٹو کی ذات کا حصہ بنا کہ عوام جب بھٹو
صاحب کہہ کر اظہارِ خیال کرتے ہیں تو ہر خاص و عام سمجھ جاتا ہے کہ ذولفقار
علی بھٹو کا ذکر ہو رہا ہے وگرنہ بھٹو خاندان میں تو ہز اروں بھٹو ہیں لیکن
انھیں کوئی بھٹو صاحب کہہ کر نہیں پکارتاحتی کہ ذولفقار علی بھٹو کی اپنی
اولاد کو بھی اس میں کوئی استثنی نہیں ۔ وہ سارے بھی اپنے اپنے ناموں سے
پکارے جاتے ہیں۔ میر مرتضے بھٹو ،اور میر شاہ نواز بھٹو اپنے حلقہ احباب
میں میر کے نام سے جانے جاتے تھے لہذا جب عوام الناس بھٹو صا حب کہتے ہیں
تو اس سے مراد ذولفقار علی بھٹو کی ذات ہوتی ہے جس میں بی بی کی جان تھی۔
بقولِ فیض( ہمتِ التجا نہیں باقی، ضبط کا حوصلہ نہیں باقی ۔،۔ اک تری دید
چھن گئی مجھ سے، ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی )۔،۔
در اصل محبت کا جذبہ جب روح میں رچ بس جاتا ہے تو انسان سب کچھ محبت کے
تناظر میں دیکھنے لگ جاتا ہے۔وہ ایک شبیہہ تراش لیتا ے اور اس شبیہ سے خود
کو منسلک کر لیتا ہے۔شبیہ سے منسلک ہونے پراسمیں راحت،سکون،اطمینان اور
فرحت کا احساس جا گزیں ہو جاتا ہے۔فاروقِ اعظم ،صدیقِ اکبر،باب العلم ،ذ
ووالنورین،سیف اﷲ،شیرِ خدا، فاتحِ خیبر تاریخ میں یکتا ٹھہرے۔شیرِ میسور
،داتا صاحب ،شکر گنج، خواجہ غریب نواز،شاعرِ مشرق ،قائدِ اعظم،فاتح اندلس
اور اس طرح کے کئی نا بغہ خود اپنی پہچان بنے۔ ان القاب کا ورد کرنے سے ان
تما م شخصیات کے نام خود بخود دل و دماغ میں اپنا نور بھرنے لگ جاتے ہیں ۔
آقائے دو جہاںﷺ کے وصال پر فاروقِ اعظم کا نیام سے تلوار نکال کر اعلان
کرنا کہ جس کسی نے یہ کہا کہ محمد ﷺ انتقال کر گے ہیں میں اس کی گردن اڑا
دوں گا محبت کا نقطہ عروج تھا ۔ در اصل فاروقِ اعظم اپنے محبوب ﷺکی جدائی
برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے لہذاان کی بے قر ار دھڑکنوں نے اظہار کا
ایک الگ رنگ اپنایا ۔روز تلاوتِ قرآن کرتے تھے لہذا جانتے تو وہ بھی تھے(
کل نفس ذائقہ ت ا لموت) لیکن اپنی روح کی طلاطم انگیزیوں کا کیا کرتے جو
اپنے محبوب کے بچھڑ جانے کو سہہ نہیں پا رہی تھیں۔،۔بقولِ اقبال۔ (ہر کہ
رمزِ مصطفے ﷺ فہمیدہ است۔،۔شرک را در خوف مضمر دیدہ است)۔،۔
بی بی کی ساری حیاتی اپنے باپ کی محبت میں ڈوبی ہوئی تھی اسلئے وہ جدائی کے
صدمہ کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر سکیں ۔ان کا دھیان بھٹو صاحب کی ذات میں
الجھ کر رہ گیا تھا۔وہ اس صدمہ کو اپنے محبوب قائد ذولفقار علی بھٹو شہید
کے بچھڑ جانے کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں۔وہ شقاقیت کی اس پستی کو سمجھنے سے
قاصر تھیں جس کا مظاہرہ ایک منتقم المزاج انسان کی جانب سے کیا گیا
تھا۔اقتدار کی خاطر انسان اتنا گر سکتا ہے یہ ان کی سمجھ سے بالا تر
تھا؟سیاست میں الزامات، ہنگامہ آرائی اورمخالفت ہوتی ہے لیکن مخالف کو جان
سے مار دیا جائے وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر تھیں۔ایک عظیم ،مہان،ذہین
و فطین اور عالی دماغ انسان کو ذاتی اقتدار کی بھینٹ چڑھا کر کے اس کا بے
رحمانہ قتل کر دیا جائے یہ بات ان کے حیطہِ ادراک میں سمانہیں پائی تھی ۔وہ
اسے عالمِ اسلام اور پاکستان کیلئے ایک ایسا نقصان سمجھتی تھیں جس کی تلافی
ممکن نہیں تھی ۔ عوام کی فلاح و بہبود ، پاکستان کی ترقی اور اسلام کی
یکجہتی کو بھٹو صاحب کی ذات کو منظر سے ہٹائے جانے سے شدید زک پہنچی تھی۔وہ
لمحہ جب ایک عظیم قائد کو سرِ دار کھینچ دیا گیا تھاعوامی راج کیلئے زہرِ
قاتل تھا اورشائد یہی وجہ تھی کے بی بی کے دل سے یہ سفاک عمل کبھی نکل نہ
پایا ۔ان کی نظر میں سیاست قبل از بھٹو اور بعد از بھٹو کی لغت سمیٹے ہوئے
تھی۔وہ خود کو اسی کا تسلسل سمجھتی تھیں اور اسی کی خاطر شہید ہو گئیں۔،۔
بقولِ فیض ۔ (دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے ۔،۔ وہ جا رہا ہے کوئی شبِ
غم گزار کے ) ۔،۔
بی بی کی بہادری تو مسلمہ تھی اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا کیونکہ
۱۰ اپریل ۱۹۸۶ کو انھوں نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کو للکارا تھا جبکہ ۱۸
اکتوبر ۲۰۰۷ کو انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت سے ٹکر لی تھی ۔انھیں
وطن واپسی سے روکنے کی بڑی کوششیں ہوئیں لیکن انھوں نے کسی ایک کی نہ سنی
ور ایک جری انسان کی طرح راہِ شہادت پر نکل پڑیں ۔دونوں مقام مشکل تھے جو
بہادری او ر جوانمردی کے بغیر طے نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ دونوں میں سرخرو
ہوئیں لیکن ان کی روح سے ذولفقار علی بھٹو کی ذات کے گہرے نقوش مدھم نہ ہو
سکے ۔اپنی شہادت سے چند لمحے قبل راوالپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کی زبان پر
یہی الفاظ تھے (کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے)گویا محبت اپنے
ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی اور تاریخ کے پنوں پر اپنی انمٹ محبت کی گواہی
رقم کررہی تھی۔ویسے تو یہ کائنات محبت پر استوار ہے۔آدم و حوا کے قصے سے
محبت کی جس روش کا آغاز ہوا تھا وہ آج بھی اسی طرح جار ی و ساری ہے۔خدا نے
توخود اپنے محبوب کی قسمیں کھائی ہیں۔کبھی واللیل کہتا ہے، کبھی کالی کملی
والا کہتا ہے اور کبھی والضحی کہہ کر محبت کی حقا ینت پر مہرِ تصدیق ثبت کر
دیتا ہے۔محبت کی انتہا دکھانا مقصود ہوئی تواطیع اﷲ و اطیع ا لرسول کو یکجا
کر دیااور پھر ( رافعنا لاک ذکرک )کہہ کر پوری کائنات کو محبوب کی جولی میں
ڈال دیا۔علامہ اقبال نے اسی عطائے خدا وندی سے متاثر ہو کر جوابِ شکوہ میں
خدا کی زبان سے اعلان کروایا (کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔،۔ یہ
جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں)اگر انسان کو محبت کا جذبہ ودیعت نہ
کیا گیا ہو تا تو یہ کائنات دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی۔یہ کا ئنات عناصرِ
اربعہ سے نہیں بلکہ نورِ محبت سے قائم و دائم ہے۔ اس میں روشنی ، چمک،دلکشی
،رعنائی ، خوبصورتی اور دلپذیری محبوبیت کی مرہونِ منت ہے ۔ محبت ہی وہ
قوتِ ثقل ہے جس پر نظامِ کائنات قائم ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ محبوبیت کی
جاذیت اور کشش ہے جو اس کرہِ ارض کو جنت بداماں بنائے ہوئے ہے۔محبت کی عدم
موجودگی میں اس کائنات میں دل لگانے کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا ۔نیوٹن کے
بقول سیب کا زمین پر گر نا کششِ ثقل کاکمال تھا اور پھر یہی کششِ ثقل
ایجادات کا باعث بنی جبکہ محبت کی کشش اس کرہِ ارض کی بقا کا باعث بنی ہوئی
ہے ۔محبت نہ ہوتی تو پھر انسانی جدو جہد بھی دم توڑ جاتی اور دنیا ویرانی
کا منظر پیش کرنے لگ جاتی ۔اسی لئے غا لب جیسے شاعر کو کہنا پڑا (پھینکا ہے
کس نے گوشِ محبت میں اے خدا ۔،۔ افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے ) اور جب ہجرو
فراق کے اندوہ سے دلِ غالب کی بے قراریا ں، بے تابیاں، بے چینیاں حدود فرا
موش ہو گئیں اور ان کی روح مضمل ہو گئی تو وہ پکار اٹھا( عاشقی صبر طلب اور
تمنا بے تاب ۔،۔ دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک)۔
|