بوجھ شاید دل کا کم ہوجائے بس اس آس پر
دل کا غم میں نے اتارا صفحہ قرطاس پر
میرے عزیز ماموں جناب شفیق الانام صاحب جن کو آج رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہوئے
کلیجہ منہ کو آتا ہے، اسم بامسمیٰ کی بہترین مثال تھے۔ جب ان کا نام شفیق
تجویز کیا گیا ، محسوس ہوتا ہے کہ اسی وقت سے محبت و شفقت ان کے رگ و پے
میں سرایت کردی گئی تھی۔ مؤرخہ بیس جولائی ۲۰۲۰ء کو وہ ہم سے جدا ہوئے لیکن
آج تک ان سے متعلق ہر فرد ان کی یاد کی کسک اپنے دل میں محسوس کررہا
ہے۔مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب مدرس اور
قابل ترین منتظم تھے بلکہ ایک شفیق باپ، پورے خاندان کے لئے مشفق مربی،
محلے والوں کے لئے ایک بہترین پڑوسی اور ہر ایک کے لئے ایک قابل بھروسہ
ہستی تھے جن سے ہر کوئی نہ صرف اپنے اہم امور پر مشاورت کرتا تھا بلکہ اپنے
ہر دکھ درد کا مداواان کی ذات میں محسوس کرتا تھا۔ وفات کے بعد ان کی کمی
جس شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ صرف ان کی ذات کا خلا نہیں بلکہ بہترین
اخلاقی ، معاشرتی اور تعلیمی اقدار کا خلا ہے ۔ ان کی ذات ایک مینارۂ نور
تھی جس کی ضیاؤں نے ایک عالم کو منور کیا۔ اس تحریر کا مقصد ان کی تعلیمات،
عادات اور یادوں کو محفوظ کرنا ہے تاکہ ایک طرف یہ تحریر ان کی جدائی سے
زخمی دلوں کا مرہم بن سکے اور دوسری طرف زندگی کی گہماگہمی میں ان کی
رہنمائی ان کے بعد بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہو۔
بات شروع کرتے ہیں شفیق ماموں سے میری آخری ملاقات کی روداد سے جو حسب
معمول ڈیڑھ دو گھنٹے طویل نشست پر مبنی تھی۔ جولائی کے اوائل میں شفیق
ماموں بخار اور اسہال کے مرض میں مبتلا ہوئے جسے ڈاکٹر نے ہیٹ اسٹروک تجویز
کیا ۔ دو تین دنوں میں ان کی طبیعت بحال ہوئی لیکن انہیں کمزوری بہت تھی۔ ۷
جولائی کی شام دفترسے واپسی پر میں ان کے گھر عیادت کی غرض سے حاضر ہوا تو
مغرب کا وقت ہونے کو تھا۔ ماموں اپنے چھوٹے بیٹے یوسف کے ساتھ کمرہ میں
داخل ہوئے تو ان کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ کہیں باہر جانے والے ہیں۔ سلام
دعا کے بعد مجھ سے ماموں نے کہا کہ تم ابھی تھکے ہوئے آئے ہو۔ اگر چاہو تو
مغرب پڑھ کر یہیں آرام کرو ورنہ مجھے مغرب فاروق اعظم مسجد میں پڑھنی ہے۔
اگر ساتھ چلنا چاہو تو تمہاری مرضی۔ میں نے عرض کیا کہ اصل مقصود تو آپ کی
زیارت و عیادت ہے، وہ ہوچکی ۔ اگر آپ کی صحت ملاقات اور بات چیت کی متحمل
ہے تو میں ساتھ ہی چلتا ہوں ۔ واپس آکر گھر میں آرام سے باتیں کریں گے۔
ماموں نے فوراََ کہا کہ ہاں کیوں نہیں۔ چائے بھی پیئں گے اور گپ شپ بھی
کریں گے۔ میں ماموں اور ان کے بیٹے کے ہمراہ مسجد روانہ ہوا لیکن آہ کہ یہ
ماموں کی حیات میں ان کے ساتھ میرا آخری سفر تھا۔ اس کے دو ہفتے بعد ماموں
گھر سے ہسپتال اور وہاں سے آخری آرام گاہ تشریف لے گئے۔ خیر مسجد پہنچ کے
معلوم ہوا کہ مسجد بھی وہ ایک فلاحی کام کے سلسلے میں تشریف لائے ہیں اور
کسی ضرورت مند کو مسجد بلا کر اس کی مالی امداد مقصود ہے جس کا ماہانہ
سلسلہ نہ جانے کب سے جاری تھا۔نماز کے بعد اس ساتھی کی عزتِ نفس کو ملحوظ
خاطر رکھتے ہوئے مجھے اور یوسف کو انہوں نے مسجد سے باہر بھیج دیا تاکہ ہم
ان صاحب کو نہ دیکھ پائیں اور نہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندگی محسوس کریں۔اس
نیک کام سے فراغت کے بعد جب وہ مسجد سے باہر نکلے تو ان کے قدموں میں لرزش
دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے کہا کہ ماموں آپ اتنے کمزور ہوگئے
ہیں کہ آپ کے قدم چلنے میں لڑکھڑا رہے ہیں۔ میری اس بات کو انہوں نے حسب ِ
عادت مذاق میں اڑانا چاہا کہ تم خواہ مخواہ محسوس کررہے ہو۔ ابھی تم جاکر
یہ بات سب میں نشر کردو گے۔ایسا کچھ نہیں ہے مگر افسوس کہ ایسا ہی تھا۔ جن
کی شفقت کے سائے میں ہم نے زندگی کی راہوں میں چلنا اورمصائب و مشکلات سے
خندہ پیشانی سے نبرد آزما ہونا سیکھا تھا،آج وہ آخری بار اپنے رب کی بارگاہ
میں حاضر ہوئے تھے۔ گھر پہنچ کر بھی انہوں نے پہلے مجھے ادھر ادھر کی باتوں
میں لگانا چاہا لیکن میرا دل انجانے خدشوں سے کانپ رہا تھا۔ میں نے گھر
والوں سے ان کی طبیعت اور غذا کے حوالے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان
دنوں اشتہا بالکل معدوم تھی اور خوردونوش کا سلسلہ بہت کم تھا جس کا اثر ان
کے چہرے، لہجے اور نشست و برخاست سے نمایاں تھا۔ مگر ماموں کو گفتگو میں جو
ملکہ حاصل تھا اس کا معترف ان سے ملنے والا ہر شخص ہے۔ انہوں نے مجھے باتوں
میں لگا لیا اور مختلف دینی، تعلیم اور خاندانی امور پر پوری بشاشت سے بات
کرتے رہے۔جیسا کہ میں نے شروع میں تحریر کیا کہ ان سے ہم اپنا ہر دکھ درد
کہہ کر تسلی محسوس کرتے تھے تو اسی ضمن میں چند مہربانوں کے ناروا رویوں کا
میں نے تذکرہ کیا تو مجھے انہوں نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ تمہیں کیا
معلوم کہ تمہارے لئے کتنے لوگ دعا گو رہتے ہیں لہٰذا تم دلبرداشتہ نہ ہو ۔
اپنا کام کئے جاؤ اور اجر کی امید صرف اﷲ رب العزت کی ذات سے رکھو ۔بعد میں
یہی بات ان کے گھر والوں نے بھی بتائی کہ ان کی نصیحت عموماََ یہی ہوتی تھی
کہ کسی کے کہنے سننے کی پرواہ کئے بغیر تم نیکی کے رستہ پر لگے رہو اور ہر
ایک کے کام آنے کی کوشش کرو۔ میرا شغف اردو سے زیادہ ہے اور ماموں کا
میدانِ تخصیص انگریزی زبان کی تعلیم و تدریس ہے لہٰذا ماموں نے آج تک مجھ
سے انگریزی کے حوالے سے کوئی بات شیئر نہیں کی تھی مگر شاید آج ماموں
کومجھے اس حوالے سے پہلا اور آخری درس دینا مقصود تھا۔مجھے بتانے لگے کہ
بیماری کے باوجود میں گھر میں بیٹھ کر بھی اپنے تعلیمی ادارہ معہد الخلیل
کے تدریسی عملہ کی تحریری رہنمائی کررہا ہوں۔ پھر اپنے کمرہ میں گئے اور
وہاں سے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہوا ایک پرچہ لا کر مجھے پکڑایا ۔ میں نے
عینک موجود نہ ہونے کا عذر کیا تو انہوں نے اپنی عینک(ریڈنگ گلاس) مجھے
عنایت کی اور مجھ سے پورا پرچہ پڑھوایا۔ میں نے عرض کیا کہ ماموں آپ نے اس
تحریر میں چھوٹے چھوٹے انگریزی کے جملے استعمال کئے ہیں۔ کیا یہ آپ کا
اندازِ تحریر ہے یا اپنے ماتحت عملہ کو بات سمجھانے کے لئے آپ نے یہ طریقہ
اختیار کیا ہے۔ ماموں نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے اساتذہ سے سے یہی سیکھا
ہے کہ تحریر میں مختصر جملوں میں جامعیت کے ساتھ اپنا مفہوم ادا کرنا چاہئے
ورنہ بسا اوقات جملوں کی طوالت میں اصل بات کہیں بیچ میں رہ جاتی ہے اور اب
یہ میرا طرزِ تحریر بن چکا ہے۔
آخری ملاقات میں ماموں نے دو باتوں پر بہت زور دیا ۔ پہلی بات کا خلاصہ
کہئے یا ان کی پوری زندگی کا دستور العمل کہ انہوں نے اپنے شفقت بھرے انداز
میں مجھے یہ بات ذہن نشین کروائی کہ ہم جہاں اپنے بزرگوں کی مادی ضروریات
مثلاََ بہترین غذا، موثر ادویات اور آرام دہ سواری وغیرہ کا خیال کرتے ہیں
وہیں ہمیں اس سے زیادہ اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ہم اپنے بزرگوں کو
وقت دیں۔ ان کے پاس بیٹھیں۔ ان کی باتیں جوان کی زندگی بھر کے تجربات کا
نچوڑ ہیں،غور سے سنیں۔ ان کا دکھ درد سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کریں
ورنہ ان کی مادی ضروریا ت پوری کر کے شاید ہم ان کے جسم کو تو سکون پہنچا
دیں لیکن ان کے قلب و روح کو تسکین پہنچانے کے لئے مکمل فرمانبرداری اور
خندہ پیشانی سے ان کو وقت دینا ازحد ضروری ہے۔ہم نے ساری زندگی ہمیشہ دیکھا
کہ ماموں اپنے بڑوں کے پاس انتہائی نیاز مندی سے باقاعدگی کے ساتھ حاضر
ہوتے رہے اور فون پر بھی سب کے ساتھ مستقل رابطے میں رہے۔ان کی اس ادا نے
پورے کنبے کوہمیشہ اپنا اسیر بنائے رکھا۔دوسری بات امت کی اجتماعی زندگی سے
متعلق تھی۔ اپنی بھرپور تدریسی زندگی کے دوران ماموں کا تعلق بے شمار
نوجوان اور بعض کہنہ مشق اساتذہ سے رہا اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں
عصر حاضر کے بعض مشاہیر علماء کرام کے نام بھی شامل ہیں۔ جس کمی کو ماموں
نے محسوس کیا وہ بعض نوجوان حضرات میں تواضع کا فقدان تھا۔ ماموں نے یہ بات
کہی کہ اکابر علماء و مشائخ حضرات کو اپنی مجالس و محافل میں اس طرف توجہ
دلانے کی بہت ضرورت ہے کہ عاجزی، انکساری اور تواضع جیسی بلند پایہ صفات کو
لوگ اپنی زندگیوں میں جگہ دیں۔تحریر و تقریر میں اس امر کی تاکید کی جائے
تاکہ ہمارے معاشرہ میں ان اقدار کو فروغ حاصل ہو۔انہی موضوعات پر گفتگو کا
اختتام ہوا اور جب میں ان کے پاس سے رخصت ہونے لگا تو حسب ِ معمول ماموں
گھر کے باہر مجھے الوداع کہنے تشریف لائے اور ازراہِ شفقت اپنے بڑے بیٹے
عمر کو تاکید کی کہ مجھے اسٹاپ تک پہنچادے۔ ان کا گھر مین روڈ سے کافی اندر
تھا اس لئے جو مہمان عموماََ سواری کے بغیر ہوتے تھے ،انہیں اپنی گاڑی کی
دستیابی کی صورت میں روڈ تک پہنچانے کا وہ خاص اہتمام کرتے تھے۔ افسوس کہ
یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی اور پھر ان کی زندگی میں ان سے ملاقات یا
گفتگو کی نعمت سے میں محروم رہا۔
اس ملاقات کے دو تین بعد اطلاع ملی کہ شفیق ماموں پھر بخار میں مبتلا ہوگئے
ہیں اور کمزوری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پھر انہیں کھانسی کی شکایت بھی
بڑھنے لگی اور سانس لینے میں دقت محسوس کرنے لگے۔ گھر میں آکسیجن کا انتظام
بھی کیا گیا مگر حالت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔اس حالت میں بھی ماموں اپنی
عمر بھر کی وضع داری نبھاتے رہے اور اپنی تکلیف کی شدت کی اطلاع اہلِ خانہ
کو نہیں ہونے دی۔فون پر عزیز و اقارب سے حال احوال بھی لیتے رہے لیکن اب
پیمانہ عمر لبریز ہونے کو تھا
پھر میری گرد کو بھی پا نہ سکیں گے جلوے
جس کو دل سے میرا بننا ہو وہ اب بن جائے
ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ کیفیات کے اعتبار سے کرونا کا ٹیسٹ کروالینا بہتر
ہے۔ ہفتہ کے روزاحتیاطاََ تمام اہلِ خانہ کا ٹیسٹ سیمپل لیا گیا اور اتوار
کی صبح یہ تشویشناک رپورٹ آگئی کہ شفیق ماموں اور ان کی اہلیہ کا کرونا
مثبت آیا ہے۔ ہماری مامی کی کیفیت نسبتاََ بہتر تھی اس لئے ان کا علاج گھر
میں ہی کروانا تجویز کیا گیا۔ عمر نے فوراََ اپنے دفتر کے ہسپتال والوں سے
مشاورت کی اور ماموں کو ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات شروع کردیئے۔ ہسپتال
جانے سے پہلے شفیق ماموں نے سب اہلِ خانہ سے فرداََ فرداََالوداعی ملاقات
کی ۔ انہیں شاید احساس ہوگیا تھا کہ آج گھر سے آخری رخصتی ہے۔ انہوں نے
اہلِ خانہ سے کہہ بھی دیا کہ اب وہ گھر واپس نہیں آئیں گے۔اس دوران پہلی
بار انہوں نے عمر سے کہا کہ گذشتہ دو دن سے وہ بہت تکلیف میں ہیں۔ عمر یہ
سن کرحیرت اور صدمہ سے دنگ رہ گیا کہ ماموں نے اپنی یہ تکلیف کمالِ ضبط سے
برداشت کی تھی اور کسی کو اس کا احساس تک ہونے نہ دیا تھا۔اسی اثناء میں ان
کی چھوٹی ہمشیرہ ہماری تبسم خالہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔
ماموں نے ان کو بھی کہا کہ اچھا ہوا تم آ گئی ہو۔ میری یہ وصیت یاد رکھنا
کہ میری طرف سے سب اہلِ خاندان سے میرا کہا سنا معاف کروالینا۔ خالہ نے ان
کا دل بہلانے کو ازراہِ مزاق کہا بھی کہ بھائی اپنی یہ ذمہ داریاں تم ان
شاء اﷲ واپس آکر خود نبھانا۔ مجھے ایسے کام نہ سونپو مگر آج ماموں نہایت
سنجیدہ تھے۔ کہنے لگے کہ نہیں میری بات کو مذاق میں نہ لو۔ تم میری طرف سے
سب سے معافی مانگ لینا۔اپنے تعلیمی ادارہ معہد الخلیل کے عملہ کے لئے بھی
ایک وائس میسیج انہوں ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے اپنی بیماری اور ہسپتال
منتقلی کی اطلاع کے ساتھ سب سے دعاؤں کی درخواست کی تھی اور آخر میں سب
اساتذہ، علماء کرام اور رفقاء کار سے نہایت لجاحت کے ساتھ اپنا کہا سنا
معاف کروایا تھا۔ یہ ہم سب کے لئے ایک آخری عملی سبق تھا کہ ہمیں زندگی میں
ہی ہر ایک سے اپنے معاملات صاف کر لینے چاہیئیں اور سب سے معافی تلافی کر
لینی چاہئے۔پھر ہسپتال جانے کے لئے ماموں نے اپنا مخصوص سفید کرتہ شلوار
زیب تن کیا اور سب گھر والوں کو الوداع کہہ کر ایمبولینس میں ہسپتال روانہ
ہوگئے ۔
اور اب کچھ احوال ان کی حیاتِ مبارکہ کے آخری دن کا جس کی کسک آج تک ان کے
چاہنے والوں کو چین نہیں لینے دیتی اور یہ ذکر چھڑتے ہی ان کی آنکھیں
بھیگنے لگتی ہیں۔ ۲۰ جولائی کی صبح میں تیار ہو کر دفتر کے لئے گھر سے
نکلنے ہی والا تھا کہ پے در پے ان کے بیٹے عمر اور بھانجے ڈاکٹر طاہر کے
میسیج میرے موبائل پر موصول ہونے لگے ۔ ان میں یہ تشویشناک اطلاع تھی کہ
شفیق ماموں کی حالت شدید ناساز ہے اور دعاؤں کی خصوصی ضرورت ہے۔میں نے دفتر
جانے کا ارداہ ترک کیا اورایک عزیز کے ساتھ فوراََ ہسپتال روانہ ہوگیا۔
ہسپتال میں مریض سے ملاقات کی عام اجازت نہیں تھی مگر ماموں کے بڑے بیٹے
عمر ماموں کے ہسپتال میں داخلہ سے لے کر ان کے آخری دن تک بلاناغہ صبح سے
رات تک کا وقت ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی میں گزارتے تھے اور ہسپتال کے عملہ
اور ڈاکٹروں سے مستقل ماموں کی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔اس دوران کبھی ڈاکٹر
کی اجازت سے مخصوص حفاظتی لباس میں ملبوس ہوکر عمر ماموں سے کچھ دیر ملاقات
بھی کرلیتے تھے۔ریحان بھی اپنے دفتری اوقات سے فراغت کے بعد عمر کے پاس
ہسپتال پہنچ جاتے تھے اور اپنا حقِ قرابت ادا کرتے تھے۔ جب ہم ہسپتال پہنچے
تو عمر اپنی گاڑی میں فون پر ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملہ سے مشاورت میں
مشغول تھے۔فون سے فارغ ہوکر عمر نے بتایا کہ گذشتہ روز اتوار کو جب اس نے
شفیق ماموں سے ملاقات کی تو طبیعت میں کوئی خاص تغیر نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر
حضرات ان کی میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر صحت میں بہتری کی نوید سنا رہے تھے
لیکن ماموں نے جب یہ باتیں سنیں تو عمر سے کہہ دیا تھا کہ ان سب مراحل کا
جو انجام ہے وہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔ بعد میں ہسپتال کے عملہ نے
بتا یا کہ رات دو بجے سے ان کی حالت بگڑنا شروع ہوئی اور آکسیجن لیول میں
بتدریج کمی ہونے لگی۔گویا ماموں بزبانِ حال یہ کہہ رہے تھے کہ
یوں سلسلہ تارِ نَفَس ٹوٹ رہا ہے
محسوس یہ ہوتا ہے قفس ٹوٹ رہا ہے
ڈاکٹر اپنی کوششوں میں مصروف رہے اور ہر ممکن طبی امداد پہنچاتے رہے لیکن
تقدیر کے آگے کون جیت سکتا ہے۔ اﷲ رب العزت کی رضا پر راضی رہنا ہی ایک
مسلمان سے مطلوب و مقصود ہے۔ ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ مریض کی عمر اور
جسمانی صحت کے اعتبار سے ان کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا بھی خطرہ سے خالی
نہیں۔ ہم سب ہسپتال کے باہر دعاؤں میں مشغول رہے۔ساڑھے گیارہ بجے کے قریب
عمر سے رہا نہ گیا اور وہ طبی حفاظتی لباس لے کر ہسپتال کے اندر چلا گیا کہ
میں ملاقات کی کوشش کر کے دیکھتا ہوں۔ عمر کے اندر جانے کے کچھ لمحوں بعد
ماموں کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر بھی ہسپتال پہنچ گئے اور ہسپتال کے عملہ اور
ڈاکٹروں کے ساتھ ماموں کی طبی امداد میں شریک ہوگئے۔ عموماََکنسلٹنٹ ڈاکٹر
دس پندرہ منٹ کے معائنہ کے بعد واپس چلے جاتے تھے لیکن آج انہیں واپسی میں
تاخیر ہوتی گئی۔ عمر سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔جیسے جیسے وقت گزر
رہا تھا ہمارے اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔پھر اچانک موبائل فون کی گھنٹی
بجی ۔ دوسری جانب عمر تھا جس نے گلوگیر لہجے میں یہ اندوہناک خبر سنائی کہ
ماموں ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔سماعتوں پہ یقین نہیں
آرہا تھا۔ حواس ششدر تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت سے
مفر کسی بشر کو نہیں مگر ماموں کے انتقال کی خبر دل ماننے کو تیار نہیں تھا
مگر اب صبر کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا۔ بہتے اشکوں کے ساتھ ہم اہلِ خاندان
کو اس المناک سانحہ کی اطلاع دینے میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں عمر ہسپتال سے
باہر آئے اور روتے ہوئے ہم سے لپٹ گئے۔ آہ کہ شفیق ماموں کی شفقتوں سے ہم
سب آج محروم ہوگئے تھے۔ عمر نے بتایا کہ جب وہ ماموں کے پاس آئی سی یو میں
پہنچا تو آکسیجن لیول بہت کم ۴۰ پر تھا جبکہ نارمل آکسیجن لیول ۹۰ سے ۱۰۰
تک ہونا چاہئے۔ ماموں غنودگی کے عالم میں تھے ۔ عمر اور ڈاکٹر کے پکارنے پر
ذرا سے چونکتے تھے اور پھر استغراقی کیفیت میں چلے جاتے تھے۔تقریباََ سوا
بارہ بجے دیکھتے ہی دیکھتے سانس کی رفتار مدہم ہوتی گئی اورڈاکٹر اور طبی
عملہ کی ان تھک کوششوں کے باوجود ماموں نہایت سکون کے ساتھ اپنے مالک ِ
حقیقی کے حضور پیش ہوگئے۔سکرات کی تکلیف سے بھی اﷲ تعالیٰ نے ماموں کو
محفوظ رکھا۔ چہرے پر بعد از وفات اس قدر سکون اور نور محسوس ہوتا تھا کہ
بیان سے باہر ہے۔ یوں لگتا تھا کہ مسکراتے چہرے کے ساتھ آرام کی نیند سورہے
ہیں
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
عمر نے بتایا کہ شفیق ماموں اس حوالے سے بہت فکرمند تھے کہ کروناکے مرض میں
انتقال کی صورت میں تجہیز و تکفین کے سلسلے میں جو نامناسب واقعات اور سخت
حکومتی اقدامات سننے میں آرہے ہیں ، ایسی کوئی صورت خدا نخواستہ ان کے ساتھ
بھی پیش نہ آئے۔ انہوں نے عمر کو خا ص طور پر یہ وصیت کی تھی کہ ان کے
انتقال کی صورت میں شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرنا۔اب
یہ جانگداز اور تکلیف دہ مرحلہ ہمارے سروں پہ آ پہنچا تھا۔عمر مجھے ساتھ لے
کر ڈاکٹر کے پاس اس سلسلے میں مشاورت کے لئے پہنچا۔ ڈاکٹر نے پہلے ہم سے
تہہ دل سے تعزیت کی اور ماموں مرحوم کے بارے میں بتایا کہ اتنانفیس
اورتعاون کرنے والا مریض ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔ عموماََ بعض مریض تکلیف کی
شدت میں ہسپتال کے عملہ کو پریشان کرتے ہیں لیکن ہمارے ماموں نے اس حوالے
سے کسی کو ذرہ برابر تکلیف نہیں ہونے دی بلکہ بعض امور میں( اپنی استاد
ہونے کی عادتِ ثانیہ کی وجہ سے) ہماری رہنمائی بھی کرتے تھے۔تمام وقت تسبیح
ہاتھ میں لئے یادِ الہٰی میں مشغول رہتے تھے۔ہم نے تجہیز و تکفین کے حوالے
سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ حالیہ میڈیکل ریسرچ کے مطابق چونکہ انتقال
کے بعد سانس کی آمدورفت بند ہوجاتی ہے اس لئے کرونا منتقل ہونے کے امکانات
بہت کم رہ جاتے ہیں۔ ماسک اور دستانوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کی شرعی
تقاضوں کے مطابق تجہیز و تکفین کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح آخری زیارت بھی
حفاظتی اقدامات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کی جا سکتی ہے۔ اس گفت و شنید کے
بعد ہم نے طے کیا کہ چونکہ گھر میں ہماری مامی کرونا کے مرض میں مبتلا ہیں
تو عمومی طور پر خاندان کی خواتین کو تاکید کی جائے کہ ماموں مرحوم کے لئے
اپنے گھروں میں ہی ایصالِ ثواب کا اہتمام کریں اور جو خواتین ماموں کے گھر
آنا چاہیں وہ تمام حفاظتی اقدامات کا خیال رکھتے ہوئے تشریف لائیں اور مرد
حضرات جنازہ کی نماز میں مسجد پہنچنے کا اہتمام کریں۔
ان تمام امور کو انجام دینے کے بعد ماموں مرحوم کو ہسپتال سے ایمبولینس میں
منتقل کیا گیا۔ماموں کے ساتھ ایمبولینس میں اس آخری سفر کی سعادت الحمدﷲ
میرے حصہ میں آئی۔ ہسپتال سے ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ تک سارے رستہ میرے دل
کی عجیب حالت رہی۔ بار بار میری نگاہیں شفیق ماموں کے جسدخاکی کی جانب اٹھ
جاتیں اور میں ان کی شفقتوں ، محبتوں اور مہربانیوں کو یاد کرکے اشکبار
ہوجاتا۔ یہ مراحل بھی زندگی کے ساتھ ہی ہیں مگر کیا کہئے کہ دل پھٹ جاتا ہے
جب ان امور کو انجام دینا پڑتا ہے۔دوپہر ڈھائی بجے کے لگ بھگ ہم ایدھی
سینٹر پہنچے۔ہم نے دستانوں اور ماسک کا اہتمام کیا اور اپنے ہاتھوں سے ہم
نے شفیق ماموں کی میت کو غسل دینا شروع کیا۔دورانِ غسل ہم سب نے مشاہدہ کیا
کہ ماموں کا جسم پھولوں کی طرح نرم و ملائم تھا اور چہرے پر انتہائی پرسکون
ملکوتی مسکراہٹ تھی۔ہمیں جذبات پہ قابو پانا مشکل ہورہا تھا مگرالحمدﷲ
ماموں کی خواہش اور وصیت کے عین مطابق شرعی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے
ہوئے ہم نے تجہیز و تکفین کے تمام امور انجام دیئے۔ ساڑھے پانچ بجے ہم
ایمبولینس میں شفیق ماموں کی میت کو لے کر گھر پہنچے جہاں حفاظتی اقدامات
کے ساتھ اہلِ خاندان نے میرے عزیز ترین ماموں کی آخری زیارت کی ۔ ہم سب
اشکبار تھے مگر جزع فزع کئے بغیر اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی ان کا پیارا
مسکراتا چہرہ آخری بار دیکھ رہے تھے۔ نماز کا وقت پونے چھ بجے تھا اس لئے
ہم فوراََماموں مرحوم کی میت کو لے کر جامع مسجد بطحاء بلاک آئی نارتھ ناظم
آباد کو روانہ ہوگئے جہاں اپنی حیات میں ماموں باقاعدگی کے ساتھ نماز میں
حاضری دیتے تھے۔نمازِ جنازہ میں اہلِ خاندان اور اہلِ محلہ کے علاوہ مؤقر
دینی اداروں معہد الخلیل ، صفہ سیوئیر اسکول اور خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ کے
علماء اور صلحاء کی ایک کثیر تعداد بھی شریک ہوئی۔ وہاں سے قبرستان کو
روانہ ہوئے ۔ گذشتہ کئی دنوں کی قیامت خیز گرمی کے برخلاف آج صبح سے موسم
نہایت خوشگوار تھا۔ ہلکی بارش بھی ہوئی تھی اور جب ہم قبرستان پہنچے تو
موسم نہایت معتدل تھا۔ میت کو قبر میں اتارنے کی سعادت مجھے اور ان کے
سعادت مند بیٹے عمر کو حاصل ہوئی۔ سنت کے مطابق داہنے کروٹ ماموں کو قبر
میں لٹایا گیا۔یہ میرے ماموں کی کرامت کہئے یا اﷲ رب العزت کا خاص احسان کہ
معاشرے میں رائج الوقت رسوم و بدعات میں سے کسی شے کانام تک نہ تھا۔ مسنون
طریقہ سے ایصالِ ثواب اور دعا کے بعد قریبی اہلِ خانہ قبر کے پاس کچھ دیر
کے لئے ٹھہر گئے اور اپنے محبت و عقیدت کے موتی اشکوں کی صورت میں ان کی
لحد پر نچھاور کرتے رہے اورقرآن مجید کی منتخب سورتوں کو پڑھ کر ان کا ثواب
ماموں کو بخشتے رہے۔
چونکہ مغرب کا وقت قریب تھا اس لئے بادلِ نخواستہ ہم بوجھل قدموں سے گھر کو
واپس ہوئے۔ دل تھا کہ قابو میں نہیں تھا۔ آنکھیں تھیں کہ خشک نہ ہوتی تھیں۔
ہم سب ان کی یادوں میں اس طرح کھوئے ہوئے تھے کہ کسی اور کام کو نہ جی
چاہتا تھا اور نہ ہمت ہوتی تھی۔ وہاں سے گھر پہنچے تو خاندان کی محرم
مستورات کی آہ و زاری دیکھ کر وہاں زیادہ دیر نہ ٹھہراگیااور میں اپنے گھر
کواپنے بیٹے حمزہ کے ساتھ یہ افسوس لئے روانہ ہواکہ
زمزموں سے جس کی لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہے
|