|
|
کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو کہ پڑھنے والوں کو اپنی
گرفت میں لے لیتی ہیں ان میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ اس فرد سے ملے بغیر محبت
ہو جاتی ہے- ایسی ہی ایک کہانی سوشل میڈیا کے ایک پیج ہیومن آف بمبئی پر
ایک خاتون نے شئير کی جس کو پڑھ کر پڑھنے والے افراد کو اس خاتون سے ایک
عجیب سی انسیت محسوس ہوئی- |
|
اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی
پہلی شادی سولہ سال کی عمر میں ہوئی جس دن ان کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہیں
اسی دن ان کے شوہر کی ایک روڈ ایکسڈینٹ میں موت ہو گئی اور بچے کے اس دنیا
میں آنے سے قبل ہی اس کم عمری میں وہ بیوہ ہوگئيں۔ جب ان کا بیٹا پیدا ہوا
تو اس بچے کو ان کے سسرال والوں سے ہاسپٹل میں ہی چھین لیا یہاں تک کہ ان
کو اس بچے کی شکل تک دیکھنے نہ دی- |
|
ان کے والدین ان کو ہاسپٹل سے گھر اس حالت میں لائے کہ
صدمے کی وجہ سے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو چکی تھیں مستقل ذہنی دباؤ سے
نکالنے کے لیے ان کے والدین نے ان کی تعلیم کو جاری رکھوانے کا فیصلہ کیا
اور ان کا کالج میں داخلہ کروا دیا جہاں بارہویں جماعت میں ان کی ملاقات
سنجیو سے ہوئی- |
|
|
|
سنجیو نے ان کی شادی سے قبل بھی ان کو پرپوز کیا تھا مگر
اس وقت ان کی منگنی ہو چکی تھی جس وجہ سے رشتہ نہ ہو سکا تھا- مگر اس بار
سنجیو نے ان سے کہا کہ اگر وہ سنجیو سے شادی کر لیں گی تو سنجیو ان کا بیٹا
واپس لانے میں ان کی مدد کرے گا جس وجہ سے انہوں نے اس سے شادی کی حامی بھر
لی- |
|
اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ایک بار پھر ایک نئی زندگی کا
آغاز کرنے کے لیے تیار تھیں مگر شادی کی پہلی رات ہی ان کے لیے ایک خوفناک
خواب سے کم نہ تھی جس میں سنجیو نے نہ صرف ان کو مارا پیٹا بلکہ ان کے ساتھ
زبردستی بھی کی- سنجیو کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کا رویہ بھی ان کے
ساتھ بہت خراب تھا وہ ان کو نہ صرف کھانے کو کچھ نہ دیتے تھے بلکہ سردی میں
رضائی تک نہیں دیتے تھے- |
|
میں اس گھر کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی مگر ایک اور
ناکام شادی کا دھبہ خود پر لگانے سے ڈرتی تھی اس وجہ سے سب کچھ برداشت کرنے
پر مجبور تھی۔ شادی کے تین مہینوں بعد ایک بار پھر وہ امید سے ہوگئيں حمل
کے دوران بھی ان کو گھر کے سارے کام کرنے پڑتے تھے اور کوئی بھی ان کا خیال
رکھنے والا نہ تھا- یہاں تک کہ انہوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا جس کو دیکھنے
کے لیے سنجیو تک نہ آیا اور وہ تنہا اس بچی کو گود میں لے کر ہسپتال سے گھر
آگئیں- |
|
اب اس گھر میں مجھے اپنی بیٹی کے لیے جینا تھا۔ اس وجہ
سے انہوں نے ہمت کی مگر جب بیٹی دو سال کی ہوئی تو سنجیو ان کے شوہر نے
اپنی معصوم بچی کو بھی صرف اس لیے مارنا پیٹنا شروع کر دیا کہ وہ بھوک لگنے
پر رو کیوں رہی ہے- |
|
|
|
بیٹی کے دو سال کے بعد وہ ایک بیٹے کی بھی ماں بن گئیں
25 سال کی عمر میں انہوں نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش شروع کر دی
مگر ان کے شوہر نے اس میں بھی رکاوٹ ڈالی- 2012 میں ان کا کہنا تھا کہ بچوں
کی حمایت سے انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے شوہر نے
ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اس بری طرح ان کے پیٹ پر لات ماری کہ
وہ بے ہوش ہو گئیں جب ہوش آیا تو ان کے شوہر نے ان سے کہا کہ میرے ٹکڑوں پر
پلتی ہو- |
|
ان کے اس جملے نے ان کی زندگی بدل ڈالی گھر سے باہر وہ
ایک بااعتماد عورت تھیں مگر گھر میں ان کی شخصیت کم عمری سے ہی ہونے والے
ظلم کے سبب بہت دب چکی تھی- انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب انہوں نے مزيد ظلم
برداشت نہیں کرنا ہے- |
|
شادی کے 23 سال بعد انہوں نے رات کے اندھیرے میں اپنے
بچوں کو ساتھ لیا اور گھر چھوڑ دیا ان کے شوہر نے ان سے کئی بار رابطہ کرنے
کی کوشش کی ان کو ڈرایا دھمکایا بھی مگر اب وہ بہادری سے فیصلہ کر چکی تھیں
کہ اب ظلم برداشت نہیں کرنا ان کے بچے ان کے ساتھ کھڑے تھے- |
|
اب ان کی عمر 46 سال ہو چکی ہے اور وہ اپنے پیروں پر
کھڑی ہو چکی ہیں وہ ایک لائف کوچ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں
جہاں وہ عورتوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے طریقے بتاتی ہیں ان کا کہنا
ہے کہ 23 سال تک میں نے یہ ظلم صرف اس لیے برداشت کیا کہ میری رہنمائی کرنے
والا کوئی نہ تھا مگر اب میں عورتوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کر کے ان کی مدد
کرتی ہوں- |